find new girlfriend app dating uganda vnam north vancouver asian matrimonial sites uk single males over 30

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جرمنی کے انتخابات: سوشل ڈیموکریٹس نے اینگلا مرکل کی پارٹی کو شکست دے دی

اینگلا مرکل کی پارٹی کو شکست: جرمن انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس نے انتہائی کم مارجن سے کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو شکست دے دی

اولاف شولز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سوشل ڈیموکریٹکس نے 25.7 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں

جرمنی کے وفاقی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق بائیں بازو کی معتدل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے سبکدوش ہونے والی چانسلر اینگلا مرکل کی پارٹی کو کانٹے دار مقابلے کے بعد شکست دے دی ہے۔

سوشل ڈیموکریٹکس نے 25.7 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ قدامت پسند حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) نے 24.1 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

سیاسی جماعت گرین نے اپنی جماعت کی تاریخ کا کامیاب ترین نتجیہ حاصل کیا ہے اور 14.8 فیصد ووٹ کے ساتھ یہ جماعت تیسرے نمبر پر ہے۔

حکومت بنانے کے لیے اب ایک اتحاد کی ضرورت ہو گی۔

اس سے قبل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اولاف شولز نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس حکومت بنانے کا واضح مینڈیٹ موجود ہے۔

واضح رہے کہ ایگزٹ پولز کے نتائج میں دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی پیشگوئی کی گئی تھی لیکن یہ الیکشن شروع سے ہی غیر متوقع رہا اور صرف نتیجہ ہی کبھی بھی کہانی کا اختتام نہیں ہونے والا تھا۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والی چانسلر اینگلا مرکل اس وقت تک کہیں نہیں جا رہیں جب تک حکومتی اتحاد نہیں بن جاتا اور اس کے لیے کرسمس تک انتظار بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اینگلا مرکل

،تصویر کا ذریعہEPA

اینگلا مرکل کے جانشین کو آئندہ چار برسوں کے لیے یورپ کی صف اول کی معیشت کی قیادت کرنا ہو گی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو بھی دیکھنا ہو گا۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں نے اولاف شولز کے لیے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اولاف شولز نے اپنی جماعت کی برتری کے بعد ٹیلی ویژن پر بتایا کہ ووٹرز نے انھیں ’جرمنی کے لیے ایک اچھی اور عملی حکومت‘ بنانے کا کام دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تاہم ان کے قدامت پسند حریف نے جواب دیا کہ یہ (ووٹرز کی رائے) ’اکثریت‘ نہیں بلکہ حکومتی اتحاد بنانے کے بارے میں ہے۔

اتوار کی رات جرمنی کے اس الیکشن کے بارے میں ایک ہیڈ لائن یہ تھی کہ ’شاید دو چانسلر اور دو کنگ میکرز‘، جو دراصل اس الیکشن کے نتائج کا خلاصہ کرتی ہے۔

لیکن ایسا نہیں کہ صرف سوشل ڈیموکریٹک اور قدامت پسند رہنما طاقت کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔ دو کنگ میکر گرینز (ماحولیات دوست سیاسی جماعت گرین) اور لبرلز اور کاروبار کی حامی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) ہیں اور وہ مختلف پیشکشوں کا استقبال کر رہے ہیں۔

اگرچہ گرینز یا لبرلز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن وہ مل کر ووٹ کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں اور دونوں بڑی جماعتوں کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وہ کسی بھی بڑی پارٹی کے مقابلے 30 سال سے کم عمر ووٹروں میں بہت زیادہ مقبول ہیں تاہم انھیں ایک چھت تلے لانے میں خاصی مہارت درکار ہو گی۔

ایک نام نہاد اتحاد ہے، جو مختلف جماعتوں کے رنگوں پر مشتمل ہے: سرخ (ایس پی ڈی)، پیلا (ایف ڈی پی) اور سبز۔

ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ جرمنی کو سہ رخی اتحاد کا سامنا ہے لیکن یہ ملک ایک نئے سیاسی دور میں داخل ہو چکا ہے۔

مرکزی دھارے کی چار جماعتوں سے ہٹ کر بنیاد پرست بائیں بازو کے امیدوارں کے لیے یہ بُری رات اور انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کے لیے ایک پیچیدہ رات تھی۔

بائیں بازو کے امیدوار ڈائی لنکے پارلیمان سے بھی باہر ہو سکتے ہیں اگر ان کے حتمی ووٹ پانچ فیصد سے کم ہوئے اور اگرچہ دائیں بازو سے اے ایف ڈی کا ووٹ قومی سطح پر کم ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ سیکسونی اور تھرنگیا کی مشرقی ریاستوں کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.