اینگلا مرکل: جرمنی اپنی چانسلر کے دورِ اقتدار کو کیسے یاد کرے گا؟
- جوشوا نیوٹ
- بی بی سی نیوز
جرمنی میں اتوار 26 ستمبر کو انتخابات ہوں گے جس سے اینگلا مرکل کے بطور چانسلر آخری دور کا اختتام ہو جائے گا۔
جب اینگلا مرکل 16 برس بعد اقتدار سے ہٹیں گی تو تاریخ انھیں کیسے یاد کرے گی؟
ہم نے چار ماہرین سے ان کے دورِ اقتدار اور لیڈرشپ کے انداز سے متعلق رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
بطور چانسلر مرکل کی میراث کیا ہے؟
میٹ کواٹروپ کوینٹری یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور ’اینگلا مرکل: یورپ کی سب سے بااثر خاتون‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
وہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھوں نے جرمنی کی سیاسی بحث کا مرکز سیاست سے ہٹا کر پالیسی کی جانب موڑ دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل جرمنی کی سیاست میں مردوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اور اسے کلب آف مین کہا جاتا تھا۔ مرکل کے اقتدار کے دوران بیانیہ پالیسی کے گرد گھومنے لگی ہیں۔
’اس طرزِ حکمرانی کا مسئلہ شاید یہ ہے کہ یہ خاصا مکینیکل اور سائنسی ہو جاتا ہے۔ مسز مرکل کی تربیت بطور فزسسٹ ہوئی ہے اور انھوں نے کوانٹم کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اس لیے ان کے طرزعمل کی بنیاد حقیقت پسندی پر ہے۔
اینگلا مرکل نے کوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور بطور سائنسی محقق کام کیا ہے
یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انتہائی شاندار ہو۔ لیکن انھوں نے اپنے ہی طریقے سے جرمنی اور دنیا کی سیاست میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب سیاست وقت کے منقسم کرنے والی ہوتی جا رہی ہے، انھوں نے معاملات کو غیر سیاسی بنا کر یہ تقسیم ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
شیرلٹ گیپلن: سینیئر لیکچرار برائے جرمن اور یورپی سیاست یونیورسٹی آف برمنگھم
اینگلا مرکل کو فوربز کی جانب سے گذشتہ 10 برس کے دوران دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کا خطاب دیا جاتا رہا ہے۔ جرمنی میں ایک نسل نے ایک خاتون رہنما کے علاوہ اپنا ملک دیکھا ہی نہیں ہے۔
ان کی پوزیشن خواتین کی نمائندگی کی علامت کے اعتبار سےانتہائی اہم رہی ہے اور وہ اپنے دورِ اقتدار کے دوران خواتین کو اہم عہدوں پر بھرتی کرنے کی وجہ سے بھی مشہور رہی ہیں۔ مثال کے طور ہر انھوں نے ارسلا وان در لیئن کی حمایت کی جو جرمنی کی پہلی خاتون وزیرِ دفاع اور یورپی کمیشن کی صدر بھی رہیں۔
تاہم اس علامتی نمائندگی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے باعث وسیع پیمانے پر تبدیلی آئی ہو، خاص طور پر غیر سیاہ فام اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لیے۔
مسلمان خواتین کو نشانہ بنانا اور نام نہاد صنفی بے راہ روی کے خلاف مظاہرے جرمنی میں بڑے پیمانے پر کیے جاتے ہیں۔
تاہم یہ صرف جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی پارٹی کی وجہ سے ہی نہیں ہے۔ اس الیکشن مہم کے دوران صنفی اعتبار سے درست زبان ایک سیاسی بحث کا موضوع بن گیا ہے جس پر اینگلا مرکل نے زیادہ تر خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔
ڈاکٹر روڈیگر شمٹ بیک: پروفیسر برائے سیاسیات اور سیاسی عمرانیات یونیورسٹی آف مینہیم
اگر ان کی پالیسیوں کی میراث پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو جدت اور پسماندگی کا عجیب امتزاج دکھائی دے گا۔
اکثر جدید دور کی پالیسیاں جیسے ہم جنس شادیوں کی اجازت، جوہری توانائی کو وقت کے ساتھ کم کرنے کی پالیسی اور پناہ گزینوں کو ملک میں داخلے کی اجازت کی پالیسی بھی شامل ہے۔ یہ ایسی پالیسیاں ہیں جن کی کسی مسیحی ڈیموکریٹ چانسلر سے امید نہیں کی جا سکتی۔
تاہم ملک اس وقت اکثر بڑے اور اہم مسائل میں باقی دنیا سے پیچھے ہے جیسے ڈجیٹلائزیشن، ماحولیات سے متعلق پالیسی اور آبادیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے پالیسیاں۔
اینگلا مرکل ایک ایسے وقت میں اقتدار چھوڑ رہی ہیں جب ملک میں سیاسی منظرنامہ غیر مستحکم ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ جرمنی میں سیاسی جماعتوں کا نظام خاصا پیچیدہ ہے اور دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے باعث جو امیگریشن مخالف جذبات ابھارنے کے باعث مقبول ہے۔
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر ہیں۔ مجھے یقین ہے ان کا حقیقت پسندانہ اور نیم صدارتی طرزِ حکمرانی ان کے بعد آنے والی خواتین چانسلرز کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔
ڈاکٹر کیٹرن شرائیٹر: جرمن اور یورپی علوم کی لیکچرار، کنگز کالج لندن
ان کی میراث پرعظم اور خاموش رہنما کی ہے۔ ان کی لیڈرشپ میں کا خاصا صورتحال کو سنجیدگی سے پرکھنا اور اپنی اہلیت کو تشہیر کرنے پر مبنی تھا۔ ان پر اکثر دور اندیش نہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ تاہم ووٹرز کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان سے کس چیز امید رکھ سکتے ہیں۔
وہ صورتحال بھانپنے اور اپنے ووٹرز کی سوچ جاننے میں مہارت رکھتی تھیں۔ اس کے باعث انھیں بین الاقوامی اتحادیوں کا اعتماد حاصل ہوا۔
ان کی ایک اور میراث یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے نظریے کو لبرل سوچ میں بدل دیا۔
انھوں نے قدامت پسند مسیحی ڈیموکریٹ جماعت کو سینٹر کی جماعت بنانے میں کردار ادا کیا ہے اور کچھ معاملات میں بائیں بازو کی جماعت گرینز کے نظریات سے بھی قریب کیا ہے۔
ان کی اقتدار میں موجودگی کے دوران سب سے اہم لمحات کون سے تھے؟
میٹ کوارٹروپ: میرے نزدیک ان کی سب سے اہم میراث یورو کرنسی کو بچانا اور سنہ 2008 کے مالی بحران سے نبرد آزما ہونا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس دوران میں نے ان سے برسلز میں بات کی تھی۔ اس بحران کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا تھا کہ وہ مارکیٹ کے بل بوتے پر چلنے والی معیشت بھی چاہتی ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس میں ریاست کی مداخلت بھی چاہتی ہیں۔
جرمن سوشل ڈیموکریٹس نے یہی بات سنہ 1960 میں ایک نعرے کے طور پر استعمال کی تھی، جب میں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے کہا کہ ’میں مؤرخ نہیں ہوں، حقیقت پسند ہوں۔‘
اینگلا مرکل کے سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہت اچھے نہیں تھے
دوسرا لمحہ وہ تھا جب انھوں نے ٹرمپ کے دور میں اپنا ردِ عمل دیا تھا۔ انھوں نے لبرل انٹرنیشنلزم کا نظریہ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے انھیں چوتھی مرتبہ انتخابات میں کھڑا ہونے پر آمادہ کیا۔ جیسے ہی صدر ٹرمپ انتخاب جیتے، اوباما برلن پہنچے اور وہاں مرکل سے ملاقات کی۔
میٹنگ کے بعد اوباما یاد کرتے ہیں کہ ان کی آنکھ میں آنسو تھا۔ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔
انھوں نے اس کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا اور ایک طرح سے انھوں نے اپنا کام پورا کیا، اب وہ جا سکتی ہیں۔
شیرلٹ گیپلن: مرکل کا دورِ اقتدار عام طور بحران میں گھرا ہو دور کہلایا جاتا ہے۔
میرے لیے ایک اہم لمحہ پناہ گزینوں کا بحران تھا۔ بالکنز میں ایک انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جرمنی نے اپنی سرحدیں کھول دی تھی، اور لاکھوں پناہ گزینوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دے دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا ’ہم سنبھال لیں گے۔‘
جرمنی ان چند یورپی ممالک میں سے تھا جس نے شام میں خانہ جنگی کے باعث ملک سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کو پناہ دی۔
پھر بھی سنہ 2015 میں اے ایف ڈی ایک ایسی جماعت بن کر ابھری جو پہلے تو معاشی طور پر لبرل خیالات کی مالک تھی لیکن پھر ایک یورو مخالف اور انتہائی دائیں بازو کی اور اسلامو فوبیا کو فروغ دینے والی تھی۔
گذشتہ انتخابات میں اے ایف ڈی جماعت کی کامیابی کے باعث ملک میں سنہ 1960 کے بعد پہلے انتہائی دائیں بازو کے رکنِ پارلیمان نامزد ہوئے۔
ڈاکٹر روڈیگر شمٹ بیک: مجھے ایسے تین لمحات یاد ہیں۔
پہلا لمحہ وہ جب مرکل اور ان کے وزیرِ خزانہ نے عوام سے سنہ 2008 میں خطاب کیا تھا اور انھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت ان کی سیونگز محفوظ رکھے گی۔ یہ اس لیے اہم تھا کیونکہ ملک میں لوگوں کو بینکوں کی جانب جانے سے روکنا تھا۔
دوسرا جب یورو کرنسی بحران کا شکار تھی اور اس دوران انتہائی اہم یورپی یونین مذاکرات کرنے تھے تاکہ یونان کے لیے قرضوں میں چھوٹ کا انتظام کیا جا سکے۔
اور تیسرا جب مرکل نے ہنگری میں سنہ 2015 میں پھنسے پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک کی سرحدیں بند نہیں کی تھیں۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کے مرکل نے سرحیں کھولی بھی نہیں تھیں، جیسے عام طور پر اس فیصلے کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کیٹرن شرائیٹر: ان میں سے ایک سنہ 2017 میں تھا جب انھوں نے ہم جنس شادیوں کا قانون پارلیمان سے منظور کروانے کی راہ ہموار کی۔
انتخاب سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے خواتین کے میگزین کو ایک انٹرویو دیا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ ان معاملات پر ووٹ کرنا ہر کسی کے اپنے ضمیر کا مسئلہ ہے۔ انھوں نے اپنی جماعت کے نظریے سے ہٹ کر بات کی جس کے باعث سالوں کے انتظار کے بعد اس قانون کو پاس کرنے کا موقع میسر آ گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
میرے لیے ان کا پسندیدہ قول ان کے دور کے آغاز میں کہا گیا جملہ تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ جرمنی کے بارے میں سوچتی ہیں تو کیا محسوس کرتی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ ’میں ایسی کھڑکیوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو اچھی طرح بند کی گئی ہوں۔ کوئی ملک اس سے بہتر اتنی محفوظ کھڑکیاں نہیں بنا سکتا۔‘
اس سے ان کی عاجزی اور حقیقت پسندی کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ انھوں نے اسے ایک انتہائی عملی طریقے سے پرکھا۔ میرے نزدیک یہی ان کی پہچان تھی۔
ان سوالوں کے جوابوں کو وضاحت اور مختصر کرنے لیے جوابات کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔
Comments are closed.