prostitutes in bangkok hot asia girls thailand teen pic kristel hope south american brides

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دنیا کو درخت لگانے میں عمران خان کی پیروی کرنی چاہیے: بورس جانسن

’بلین ٹری سونامی‘: ’دنیا درخت لگانے میں عمران خان کی پیروی کرے‘

بلین ٹری منصوبہ

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@Plant4Pak

،تصویر کا کیپشن

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان کے ماحول دوست منصوبے کا ذکر کیا

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان عمران کی مثال کی پیروی کریں جنہوں نے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا عزم کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو درپیش ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ترقی پذیر ملکوں کی پوری مدد کرنی چاہیے۔

فضائی آلودگی اور کاربن کے اخراج پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نہ صرف ہمیں اس اخراج میں کمی کرنی ہے بلکہ قدرتی توازن کو بھی بحال کرنا ہے۔

‘ہمیں درختوں کے نقصان کو نہ صرف روکنا ہے بلکہ درختوں اور بائیو ڈائورسٹی (حیاتیاتی تنوع) کو پہنچنے والے نقصان کا 2030 تک ازالہ بھی کرنا ہے۔ اس لیے ہم برطانیہ میں ملک کو خوبصورت بنانے اور سیلاب سے بچاؤ کو مزید مضوط کرنے کے لیے دس لاکھ درخت لگانے کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ’میں تمام قوموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عمران خان کی مثال کی پیروی کریں جنھوں نے صرف پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا عہد کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ تحریک انصاف حکومت کی خیبر پختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا۔

بلین ٹری سونامی منصوبے کے لیے سنہ 2013 میں ٹاسک فورس بنائی گئی تھی۔ تاہم اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2015 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے اس ماحول دوست منصونے کا عالمی سطح پر مختلف ماحولیاتی تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔

اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ ’ہم ترقی یافتہ ممالک کو اس ضمن میں مدد کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے‘۔

بورس جانسن نے اپنی تقریر میں چین کے صدر شی جی پنگ کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں میں سرمایہ کاری بند کرنے کے اعلان کا بھی خیر مقدم کیا۔

چین کے صدر شی جی پنگ کے اعلان پر انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ چین ملک کے اندر بھی کوئلے سے توانائی حاصل کرنا ختم کر دے گا۔

بورس جانسن

،تصویر کا ذریعہReuters

برطانوی وزیر اعظم جو ایک مہینے بعد برطانیہ کے شہر گلاسگو میں ماحولیاتی تبدیلی پر سی او پی 26 کے عنوان سے ایک عالمی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنے والے ہیں انھوں نے اعتراف کیا کہ صنعتی انقلاب کا آغاز برطانیہ میں ہوا اور اس دوران کاربن ڈائی آکسائڈ اس مقدار میں فضا میں خارج ہوئی جو قدرتی ماحول کو خراب کرنے کے لیے کافی تھی۔

انھوں نے کہا کہ اس احساس کی بنا پر انھوں نے دنیا بھر کے ملکوں کی فضائی آلودگی کو روکنے کی کوششیوں میں مدد کرنے کیے لیے ساڑھے گیارہ ارب ڈالر کی رقم مختص کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا سے معیشت پر پڑنے والی منفی اثرات کے باوجود اس وعدے کو پورا کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کوئلے کے استعمال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں برطانیہ میں 80 فیصد توانائی کوئلے سے حاصل کی جاتی تھی جس کو گزشتہ 30 سال میں کم کر کے 2 فیصد کی سطح پر لایا گیا اور 2024 تک اسے مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں سے سنہ 2040 تک اور ترقی یافتہ ملکوں سے سنہ 2030 تک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو مکمل طور پر بند کرنے کی توقع کرنا ایک بڑی بات ہے لیکن برطانیہ کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے سے ترقی کی رفتار متاثر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشی ترقی، روزگار کے مواقع اور مجموعی قومی پیداوار کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھایا جا سکتا ہے۔

بجلی سے چلنے والی گاڑیاں:

بجلی سے چلانے والی گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 13 سال پہلے جب وہ لندن شہر کے میئر تھے تو انھوں نے پوری کوشش کی کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور انھوں نے شہر میں گاڑیوں کو چارج کرنے کی جگہیں بنائیں۔

انھوں نے کہا اُن دنوں ان گاڑیوں کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن اب برطانیہ میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں یا برقی کاروں کی مارکیٹ میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ہی وجہ سے گاڑیاں بنانے والی کمپنی نسان کو حوصلہ ہوا ہے کہ اُس نے برقی کاروں کی فیکٹری اور ان گاڑیوں کی بیٹریاں بنانے کا ایک بڑا کارخانہ لگانے پر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا اسی وجہ سے انھوں نے روایتی گاڑیوں کی فروخت بند کرنے کے لیے سنہ 2030 کا ایک مشکل ہدف مقرر کیا ہے۔

دنیا کے دوسرے ملکوں پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برقی کاروں کی صنعت کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ سنہ 2040 تک ساری دنیا میں صرف ایسی گاڑیاں استعمال ہونے لگیں جن سے کوئی مضر گیس خارج نہ ہو۔

اس ضمن میں انھوں نے ایک ایسا جہاز بنانے کے عظیم منصوبے پر کام ہو رہا جس سے کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج صفر ہو۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.