بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جدید مغربی اسلحہ یوکرین جنگ کا پانسہ روس کے خلاف پلٹنے میں کیسے مدد دے رہا ہے؟

روس یوکرین جنگ: جدید مغربی اسلحہ یوکرین جنگ کا پانسہ روس کے خلاف پلٹنے میں کیسے مدد دے رہا ہے؟

  • اینڈریو ہارڈنگ
  • بی بی سی نیوز، ڈونباس، مشرقی یوکرین

روس، یوکرین
،تصویر کا کیپشن

فرانسیسی ساختہ سیزر توپیں یوکرین کے مشرق میں جا بجا نظر آنے والے مغربی اسلحے میں سے ہیں

مشرقی یوکرین میں اگلی صفوں پر موجود سپاہیوں کا کہنا ہے کہ جدید ترین مغربی اسلحے نے روس کی زبردست گولہ باری کو روک دیا ہے۔ مگر کیا یہ صرف ایک مختصر وقفہ ہے یا پھر یہ اشارہ کہ تنازعے کا توازن بدل رہا ہے؟

کئی ہفتوں تک روسی گولہ باری کی زد میں رہنے والا زرعی قصبہ بخموت اب تقریباً خالی ہو چکا ہے۔ اس کے شمال میں ایک پہاڑی پر سے دھوئیں کے پانچ بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

86 سالہ اینا آئیوانوفا لاٹھی کے سہارے نیچے جھکی ہوئی اپنے باغ میں سے خودرو پودے ہٹا رہی تھیں کہ اسی اثنا میں دو یوکرینی طیارے انتہائی کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اوپر سے گزرے۔ اُنھوں نے کہا، ’یہ تو کوئی زندگی نہیں ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ سچ کہوں تو میری خواہش ہے کہ زندگی ختم ہو چکی ہوتی۔‘

دس منٹ بعد پیلے رنگ کے خوبصورت سورج مکھی کے کھیتوں کے اوپر پانچ تیز آوازیں گونجیں۔

یوکرین کے مشرقی خطے ڈونباس میں شمال میں واقع برباد ہو چکے شہر سلوویانسک سے لے کر ڈونیسک کے متروکہ زرعی قصبوں تک پھیلے اگلے مورچوں کے قریب ڈرائیو کرتا کوئی بھی شخص یہ محسوس کرے گا کہ روس کی تباہ کن اور بظاہر بلا تفریق گولہ باری اب بھی اتنی ہی شدید ہے جتنی کہ شروعات میں تھی۔

مگر ڈونیسک کے باہر ایک گندم کے کھیت کے کونے میں ایک یوکرینی توپ خانے کے کمانڈر دمیترو اپنی بات پر مصر تھے کہ ’وہ اب اتنی فائرنگ نہیں کر رہے۔ (روسی فورسز کی طرف سے) توپ خانے کے ذریعے بمباری نصف ہو گئی ہے۔ شاید اس سے بھی کم، یعنی دو تہائی۔‘

ہم ایک بڑی سی سبز رنگ کی گاڑی کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے جو ایک سیلف پروپیلڈ آرٹلری یونٹ ہے۔ اس کی بڑی سی نال کا رخ جنوب میں روسی قبضے میں موجود خطے کی طرف تھا۔ اس کا نام سیزر ہے اور یہ فرانسیسی ساختہ ہے۔ یہ اس جدید مغربی اسلحے میں سے ہے جسے اب ڈونباس کے دیہی علاقوں میں جابجا دیکھا جا سکتا ہے۔

دمیترو اور کئی دیگر افراد کا کہنا ہے کہ یہ اسلحہ جنگ کا پانسہ روس کے خلاف پلٹنے میں مدد دے رہا ہے۔

روس، یوکرین

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

بخموت پر کئی ہفتوں سے روس کی گولہ باری جاری ہے

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

بہرہ کر دینے والی گونج کے ساتھ سیزر نے تین گولوں میں سے پہلا گولہ داغا۔ دمیترو نے کہا کہ یہ 27 کلومیٹر دور ایک روسی انفینٹری یونٹ اور کئی توپ خانوں پر داغے گئے ہیں۔

دمیترو نے ایک بڑی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’ہم اب پہلے سے کہیں زیادہ درست نشانہ لگا سکتے ہیں۔ اور ہم زیادہ فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔‘ ایک منٹ کے اندر ہی توپ خانے کی ٹیم مزید دو گولے داغ چکی تھی اور پھر یہ گاڑی تیزی سے اپنی جگہ بدلنے لگی تاکہ روسی توپ خانہ اس کے محلِ وقوع کا پتا لگا کر جوابی حملہ نہ کر دے۔

حالیہ چند ہفتوں میں انٹرنیٹ پر ایسی کئی ڈرون اور دیگر ویڈیوز اپ لوڈ کی گئی ہیں جن میں روسی قبضے میں موجود خطے میں سلسلہ وار دھماکے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ اطلاعات ہیں کہ یہ اسلحے کے بڑے ذخیرے ہیں جنھیں اگلے مورچوں سے کہیں پیچھے رکھا گیا تھا مگر اب یہ حال ہی میں موصول ہونے والے جدید مغربی اسلحے کی زد میں ہیں جن میں امریکی ہیمارس اور پولش کریب ہوویٹزر توپیں شامل ہیں۔

سلوویانسک کے دفاع پر مامور ایک رضاکار دستے کے 52 سالہ کمانڈر یوری بیریزا نے کہا کہ ’اس خاموشی کو سنیں۔‘ حال ہی میں ایک صبح جب ہم نے شہر کے مشرق میں موجود دفاعی خندقوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کا دورہ کیا تو تقریباً ایک گھنٹے کے دورانیے میں ایک بھی دھماکہ نہیں سنائی دیا۔

بیریزا نے کہا: ’یہ سب ان توپوں کی وجہ سے ہے جو آپ نے ہمیں دی ہیں، اس کے درست نشانے کی وجہ سے ہے۔‘

’اس سے پہلے روس کے پاس ہماری ایک توپ کے مقابلے میں 50 توپیں تھیں۔ اب یہ تناسب گھٹ کر ایک کے مقابلے میں پانچ تک آ گیا ہے۔ اب اُن کو اتنی زیادہ برتری نہیں رہی ہے۔ آپ اسے برابری کہہ سکتے ہیں۔‘

مگر دمیترو کی طرح بیریزا کا بھی اصرار ہے کہ یوکرین کو مؤثر جوابی حملے کے لیے مزید مغربی اسلحے کی ضرورت ہے۔

روس، یوکرین
،تصویر کا کیپشن

یوری بیریزا کہتے ہیں کہ مغربی اسلحے نے یوکرین کی آرٹلری قوت کو روس کے برابر لا کھڑا کیا ہے

بیریزا کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتے اور ہم اُنھیں یہاں شکست نہیں دے سکتے۔ ہمیں مزید اسلحے، بالخصوص بکتر بند یونٹس، ٹینکوں اور جہازوں کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں کے بغیر بہت سی زندگیوں کا زیاں ہو گا۔ روس کے نزدیک جنگ ایسے ہی لڑی جاتی ہے۔ وہ صرف زندگیوں کا نقصان کرتے ہیں۔‘

دمیترو ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں ’بہترین تو یہ ہو گا کہ ہمیں اس سے تین گنا زیادہ (مغربی اسلحہ) ملے جو اب تک اُنھوں نے ہمیں بھیجا ہے۔ اور جلدی ملے۔‘

مگر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروانے کے یوکرینی عزائم صرف کم اسلحے کی وجہ سے مشکلات کے شکار نہیں ہیں۔

روس کی گولہ باری میں کمی کے باوجود کریملن کی فورسز بخموت کے سٹریٹجک اہمیت کے حامل قصبے کے قریب پہنچتی جا رہی ہیں جس سے یوکرینی فوجوں میں افرادی قوت اور تربیت کی کمی کے حوالے سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

ایک سابق برطانوی چھاتہ بردار سپاہی ایک کچے راستے پر لیٹ کر رائفل سے نشانہ باندھے ہوئے تھے۔ ان کے گرد 40 یوکرینی فوجی گھیرا بنا کر توجہ سے اُنھیں دیکھ رہے تھے۔

’یہ رہی ایک آسان ترکیب۔ اپنی ٹانگ ایسے آگے لائیں۔‘

یہ سابق برطانوی فوجی ایک ایسے نجی گروہ کا حصہ ہیں جو حال ہی میں اگلے مورچوں کا دفاع مضبوط کرنے کے لیے پہنچنے والی یوکرینی بریگیڈ کو مدد فراہم کرنے کے لیے آئے ہیں۔

یہ تمام یوکرینی بھی رضاکار ہی ہیں اور اُنھیں صرف دو ماہ کی بنیادی تربیت ملی ہے۔ اُن کے کمانڈرز نے مغربی تربیت کاروں سے پانچ دن کے کورس کا ایک غیر رسمی معاہدہ کیا ہے۔

یونٹ کے 22 سالہ کمانڈر نے کہا کہ ’ظاہر ہے کہ یہ خوف ناک ہے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی جنگ نہیں دیکھی۔‘ اُنھوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہم اُن کا نام نہ شائع کریں۔

ایک تربیت کار اور سابق امریکی فوجی روب نے کہا کہ ’پریشان کُن بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس سپاہیوں کے وہ بنیادی ہنر بھی نہیں ہیں جو مغرب میں عام ہیں۔‘

یوکرین
،تصویر کا کیپشن

نجی تنظیمیں یوکرین میں فوجیوں کی تربیت کاری کا کام کر رہی ہیں

اب تک مغربی حکومتوں نے فوجی بھرتیوں اور تربیت کے لیے حکام یا ٹھیکیداروں کو یوکرین بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ یہاں پر آزادانہ طور پر کچھ نجی تنظیمیں یہ کام کر رہی ہیں۔

ایک ریٹائرڈ امریکی میرین کرنل اینڈی ملبرن نے تربیتی سیشن کی نگرانی کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سمندر میں قطرے کے مترادف ہے۔ مگر اس سے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، فرق ضرور پڑتا ہے۔‘

اُنھوں نے اصرار کیا کہ اُن کے گروپ موزارٹ کا امریکی حکومت سے ’صفر‘ تعلق ہے اور کوئی سرکاری حمایت حاصل نہیں ہے۔ مگر اُنھوں نے مغربی حکومتوں پر براہِ راست اس کا حصہ نہ بننے پر تنقید کی۔

وہ کہتے ہیں ’یہ مضحکہ خیز ہے۔ مگر ان لوگوں نے اتنے لوگ کھو دیے ہیں کہ اب ان کے پاس کافی تعداد میں (یوکرینی تربیت کار) موجود ہی نہیں ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’مغرب کو اب اس کے لیے بھی منصوبہ بنانا پڑے گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.