آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شیراز رانجھا کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل شیراز رانجھا نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بتائے بغیر اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا، ان کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل کے حالات سازگار نہیں، ماحول اٹک جیل سے بہت مختلف ہے، اڈیالہ جیل میں 2200 ملزمان کی گنجائش ہے لیکن 7 ہزار قیدی موجود ہیں، درجن مرغیوں کے دڑبے میں 32 مرغیاں ہوں گی تو کیا حالات ہوں گے، اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے آمنے سامنے بات ہوتی تھی، اڈیالہ میں حالات ہی مختلف ہیں، اڈیالہ جیل میں بہت رش ہے، اٹک جیل میں سکون تھا۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر غیر ضروری سختی ہو رہی ہے، عدالت بہتر کلاس کا فیصلہ کرتی، ان کو ٹی وی، بہتر بستر کیوں نہیں دیتے؟ اٹک جیل میں سکون تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ اٹک جیل میں لائبریری، ورزش، اخبار کی سہولتیں چیئرمین پی ٹی آئی کو دی تھیں، جیل منتقلی کا خوامخواہ تماشہ بنایا گیا، اڈیالہ جیل میں کوئی کہانی ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جیل منتقلی کی درخواست دائر کرنے سے قبل شیر افضل مروت کو قانونی ٹیم سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، شیر افضل مروت نے حتمی مشاورت کیے بغیر ہائی کورٹ اور آپ کی عدالت میں درخواست دائر کر دی، اٹک جیل میں وکلاء کی ملاقات بہت آسان تھی، اڈیالہ جیل میں تو بہت مسائل ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ کل ڈپٹی سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے دفتر بیٹھا تھا، میرے سامنے سے 70 ملزمان گزرے، پیٹرول کی پوری ٹنکی لگتی تھی لیکن اٹک جیل میں سماعت آسانی سے ہوتی تھی، نوٹ کر لو سب! شکر ہے آپ اڈیالہ جیل منتقلی کے حوالے سے غلطی مانے تو سہی۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آپ نے مائنڈ نہیں کرنا، سائفر کیس کی سماعت 10 اکتوبر کو تھی، نقول کے لیے کیوں جلد سماعت رکھی؟
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ اگر سائفر کیس کا ٹرائل چلانا ہے تو بتائیں، نہیں چلانا تب بھی بتا دیں، ٹرائل کے لیے وافر وقت دے رہا ہوں، آپ کی قانونی ٹیم کو سمجھ ہی نہیں آرہی، میں سائفر کیس کا ٹرائل بہت مؤثر انداز میں چلانا چاہ رہا ہوں، ابوالحسنات ذوالقرنین نہیں تو کوئی اور کیس کا ٹرائل کر لے گا، کیس میں چالان کی نقول کبھی نہ کبھی تو فراہم کرنی ہیں نا، جوڈیشل ریمانڈ کی اہمیت کو سمجھیں، چالان آجائے تو جوڈیشل ریمانڈ غیرمؤثر ہو جاتا ہے، جوڈیشل ریمانڈ کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کی 14روز بعد خیر و عافیت معلوم کرنا ہے۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز نےکہا جج ہمایوں دلاور کو توشہ خانہ کیس میں کیا جلدی ہے، توشہ خانہ، سائفر کیس میں ملزم کو ٹرائل کی جلدی ہونی چاہیے، یہاں مدعی جلدی کر رہا ہے، دیگر کیسز معمول کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کیسز کا جلدی ٹرائل کیا جا رہا ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ سائفر کیس عام نوعیت کا نہیں، ہائی پروفائل حساس کیس ہے، اہمیت کو سمجھیں۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ سائفر کیس کوئی حساس کیس نہیں، کیس کو حساس بنایا جا رہا ہے۔
جج نے کہا کہ سائفر کیس کے چالان کی نقول فراہم کرنی تھیں، پی ٹی آئی قانونی ٹیم نے عدالت کی نہیں سنی، کوئی اور بہتر جج لگتا ہے تو لے آئیں، میں سیدھا اور صاف بات کرنے والا جج ہوں، مجھے کوئی شوق نہیں، میں اپنا پیشہ ورانہ کام کر رہا ہوں۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سائفر کیس کا ٹرائل ہی نہ ہو۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میں پریس کانفرنس نہیں کرسکتا، جرم کیاہے تو سزا ہو گی، نہیں کیا تو بریت ملے گی، سائفر کیس کی سماعت کے لیے لمبی تاریخ دے دیتا ہوں، چیرمین پی ٹی آئی جتنے دن قید ہیں اس کا کیا ہو گا؟ آپ مجھے جج ہمایوں دلاور سمجھتے ہیں، وہ بھی انسان تھے، ہمایوں دلاور نے اپنے انداز سے توشہ خانہ کیس چلایا، ابوالحسنات سائفر کیس اپنے طریقے سے چلائے گا، سائفر کیس کا ٹرائل ہو گا تو چیئرمین پی ٹی آئی باہر آئیں گے نا، مجھے بتائیں اب تک کیس کی سماعت کیا مؤثر انداز میں نہیں ہوئی؟
پی ٹی آئی کے وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ آپ پی ٹی آئی وکلاء کی باتوں کو سمجھتے ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ اللّٰہ نے سائفر کیس کا فیصلہ ابوالحسنات کے ہاتھوں سے کرانا ہے، تو ابوالحسنات ہی کرے گا۔
Comments are closed.