جب گوجرانوالہ کے شہریوں پر برطانوی جہازوں نے بمباری کی
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو سروس
برطانوی ائر فورس نے عراق میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے بمباری سنہ 1920 میں کی تھی جسے برطانوی رہنما ونسٹن چرچل نے ’ایریل پولیسنگ‘ کا نام دیا تھا
یہ مضمون بی بی سی نے پہلی مرتبہ اپریل 2019 میں شائع کیا تھا۔
یوں تو ایک دشمن پر ہوائی بمباری یا آتش گیر مادہ پھینکنے کی ایک پرانی تاریخ ہے، لیکن شاید گوجرانوالہ وہ پہلا شہر قرار دیا جا سکتا ہے جہاں نہتے عوام کے مظاہروں کو کچلنے کے لیے پہلی ‘ایرئیل پولیسنگ’ یعنی ہوائی بمباری کا استعمال کیا گیا۔
گوجرانوالہ جو کہ اب پاکستان کے پنجاب کا ایک شہر ہے، میں 14 اپریل سنہ 1919 کی دوپہر کو لاہور والٹن کے ایئر پورٹ سے اڑنے والے تین فوجی جہازوں نے نہتے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے بمباری کی۔ اس سے پہلے ہوائی بمباری زمینی فوج کے تعاون سے دشمن کی فوج یا فوجی اہداف پر کی جاتی تھی۔
گوجرانوالہ کی بمباری کے بعد اس ہوائی طاقت یا ‘ایریل پولیسنگ’ کو سیاسی مقاصد کے لیے نہتے شہریوں پر استعمال برطانوی پالیسی کا حصہ بنا۔ ‘ایریل پولیسنگ’ کے لفظ کا استعمال سب سے پہلے برطانوی سیاست دان ونسٹن چرچل نے کیا تھا جب سنہ 1920 میں عراق میں شیعہ اور سنی نہتے عوام نے برطانوی کنٹرول کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
پھر اس بمباری کو ایک ‘ایریل پولسنگ’ کے حربے کے طور پر صومالیہ میں بھی استعمال کیا گیا۔ اور یہ مختلف صورتوں میں اب بھی استمعمال ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
گوجرانوالہ میں بمباری کا پس منظر
جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام سفاکی اور ظلم کے لحاظ سے برطانوی غلامی کے دور کا ایک بد ترین واقعہ ہے، جسے اگلی نسلیں کبھی بھول نہیں پائیں گیں۔
برطانوی حکمران رولٹ ایکٹ 1919 کے خلاف ہونے والے عوامی ردِعمل کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے۔ برٹش انڈین حکمران اپنی پوری طاقت کو استعمال کر کے اس وقت کی عوامی بغاوت کو کچلنا چاہتے تھے۔
ہندوستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے اس قانوان کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح لیجسلیٹو کونسل سے احتجاجاً مستعفی بھی ہو گئے تھے
اس طاقت کے استعمال کی پالیسی سے کئی شہری ہلاک ہوئے، کتنے ہی زخمی ہوئے اور سیاسی عدم استحکام بھی بڑھا۔ ہندوستان کی برطانوی آبادیاتی لیجیسلیٹو کونسل نے پہلی جنگِ عظیم کے فوری بعد ایک ایسے قانون کی منظوری دی جو تمام شہری حقوق اور پریس کی آزادی کو کچل دیتا تھا۔ اس قانون کے مطابق، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتار کرنے اور سیاسی ورکرز کو جیل میں رکھنے کی بے انتہا طاقت دے دی گئی تھی۔
اس قانون کا نام ‘انارکِکل اینڈ روولیوشنری کرائمز ایکٹ 1919 ‘ تھا لیکن یہ قانون کے بل کو بنانے والے برطانوی جج سر سڈنی رولٹ کے نام سے رولٹ ایک کے نام سے مشہور ہوا۔ ہندوستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح لیجیسلیٹو کونسل سے احتجاجاً مستعفی بھی ہو گئے تھے۔
اس قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج اور پھر ہلاکتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کے جائزے کے لیے برطانوی حکومت نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی تھی جس کا نام ‘ڈس آرڈر انکوائری کمیٹی’ تھا اور اس کے سابق سولیسٹر جنرل آنرایل لارڈ ہنٹر سربراہ تھے۔
ڈس آرڈر انکوائری کمیٹی جو سنہ 1919 میں رولٹ ایکٹ کے بننے کے بعد عوامی مظاہروں کے ردعمل اور انتظامیہ کی جانب سے کاروائی کی تحقیق کے لیے بنی تھی
گوجرانوالہ پر بمباری کے واقعہ کا ذکر پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں کم ہی آتا ہے۔ اس لیے اس واقعے کی تفصیلات اسی انکوائری کمیٹی سے حاصل کی گئیں ہیں۔ اس انکوائری کمیٹی میں متحدہ ہندوستان کی سنہ 1919 کی سیاسی شورشوں کا ذکر ہے لیکن یہاں صرف گوجرانوالہ پر ہوائی بمباری پر کی گئی انکوائری کے حصوں کی تلخیص بیان کی گئی ہے۔
بمباری سے پہلے کا گوجرانوالہ
لاہور سے تقریباً 40 میل دور تقیریاً 30 ہزار افراد کے شہر گوجرانوالہ میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔ پانچ اپریل 1919 کو ایک مقامی سیاسی اجلاس میں رولٹ ایکٹ کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد میں دلی کے حکمرانوں کی جانب سے رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی مظاہروں پر فائرنگ کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ مختلف شہروں میں رہنے والے فائرنگ کے ان واقعات سے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چھ اپریل کو قومی سطح پر یومِ احتجاج منایا جائے اور اس دن ہر شخص 24 گھنٹوں کا روزہ رکھے اور سارا دن ہر قسم کا کاروبار بند کردے۔
اس وقت گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر، کرنل اوبرائین نے اس ہڑتال کے خلاف سخت کاروائی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ ہڑتال پُرامن رہی۔ 12 اپریل کو کرنل اوبرائین کا تبادلہ ہوگیا اور ان کی جگہ خان بہادر مرزا سلطان احمد کو گوجرانوالہ ڈسٹٹرکٹ کا عارضی چارج دیا گیا۔
اس دوران ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کی طرح پنجاب کے کئی شہروں میں بھی رولٹ ایکٹ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا۔ دس اپریل تک گوجرانوالہ میں مزید مظاہروں کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ لیکن لاہور اور امرتسر کے مظاہروں پر گولیاں چلانے اور ہلاکتوں کی خبریں آنے کی وجہ سے اشتعال بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔
تاہم جب تیرہ اپریل کے روز جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کی خبریں افواہوں کی صورت میں پھیلنے لگیں تو پھر ایک عوامی ردعمل آنا یقینی نظر آرہا تھا۔ لیکن ضلعی انتظامیہ کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ردِعمل اتنی شدت کا ہوگا کہ اسے قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بھی جتنی بھی پولیس کی تعداد ممکن تھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں جمع کرلی گئی تھی۔
انتظامیہ کو حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے گوجرانوالہ میں امریکی مشنیریز کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ جلیانوالہ باغ واقعے کے ردعمل کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ اس میں کام کرنے والی عورتوں کو عارضی طور پر شہر سے باہر محفوظ مقام پر منتقل دیا جائے۔
یہ نقشہ ہنٹر انکوائر کمیٹی کا حصہ ہے جس میں گوجرانوالہ شہر میں بمباری کے اہداف پر بم پھٹنے کے چار نشانات نظر آرہے ہیں
امریکی مشنریز کے بڑوں نے اس تجویز پر عملدرآمد کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن گوجرانوالہ کے سپرنٹنڈینٹ پولیس، مسٹر ہیرون نے اس بات پر دوبارہ اصرار کیا۔ اس مشنری کے ایک سینئیر اہلکار کیپٹن گوڈفرے کا گوجرہ جانے کا سفر پہلے سے طے شدہ تھا۔ انھوں نے اپنے ہمراہ اپنے اہلِ خانہ کو لے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر رات گئے امریکہ مشنری کا سارا عملہ روانہ ہوگیا۔
بمباری والے دن کی صبح
14 اپریل کی صبح گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن کے قریب کچی پُل پر کے کسی نے گائے کے بچھڑے کو ہلاک کرکے لٹکا دیا تھا۔ جیسے ہی یہ خبر ملی تو اس وقت کے پولیس کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ پولیس، چوہدری غلام رسول موقع پر پہنچے اور بچھڑے کو اتار کر دفنایا۔ لیکن شہر میں افواہ یہ پھیل گئی کہ ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے کے لیے انتظامیہ نے خود ہی یہ بچھڑا ہلاک کر کے لٹکا دیا تھا۔
اس کے بعد دن میں گوجرنوالہ شہر کے مختلف حصوں میں ہجوم جمع ہونا شروع ہو گئے جنھوں نے دوکانوں کو بند کروانا شروع کر دیا۔ یہ لوگ رولٹ ایکٹ کے خلاف اور ہندو مسلم اتحاد کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ شہر میں پھیلے ان لوگوں کے مظاہروں میں شدت آتی چلی جا رہی تھی۔ ٹرینوں پر پتھروں سے حملے ہوئے، ایک پل جو گورو کُل کے نام سے مشہور تھا، کو جلا دیا گیا۔ ٹیلی گراف اور ٹیلیفون کے نظام کا لاہور سے تعلق ٹوٹ گیا جس سے انتظامیہ میں گھبراہٹ بڑھ گئی۔
اسے بھی ھڑھیے
اشتعال بڑھنے کے بعد کچی پُل پر بھی آگ لگائی گئی جس سے پل کو کافی نقصان پہنچا۔ پولیس گارڈز پر حملے ہوئے جن کی مدد کے لیے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ آف پولیس نے فورس بھیجی۔ ان کی مدد کے لیے اس وقت کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر آغا غلام حسین بھی کاروائی میں شامل ہوگئے۔ کچی پل کے قریب ایک بڑا ہجوم جمع تھا۔ پولیس سربراہ مسٹر ہیرون بھی موجود تھے۔ وہاں لوگ پولس سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ہندوستانی عوام کو اپنا ہیٹ اتار کر سلام کرے۔ اس دوران تصادم کا خطرہ پیدا ہوا اور پولیس نے فائرنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہوئے۔
اس واقعے کے بعد شہر میں کشیدہ حالات بد سے بد تر ہونا شروع ہوگئے۔ سٹیشن پر تقریریں ہونا شروع ہو گئیں جن میں رولٹ ایکٹ کے خلاف باتیں کی گئیں اور ہندو مسلم اتحاد کے حق میں بہت نعرے لگائے گئے۔ اس دوران شہر کے مرکزی پوسٹ آفس کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا۔ ہنٹر انکوائری کمیشن نے ابتری کی ذمہ داری نئے ڈپٹی کمشنر پر عائد کی کیونکہ وہ نا تجربہ کاری کی وجہ سے بروقت اہم اقدامات نہ کرسکے۔
اسی دوران شہر میں لوگوں کی مختلف ٹولیوں نے تحصیلدار کے دفتر پر حملہ کیا، پھر لوگ ضلعی عدالتوں اور دوسری سرکاری عمارتوں کی طرف لپکے۔ ان عمارتوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ پولیس لائینز پر بھی حملے ہوئے۔ لیکن ہجوم کے حملوں سے انسانی جانوں کا ابھی تک نقصان نہیں ہوا تھا۔ مقامی جیل پر بھی حملہ کرنے کی تیاری تھی۔ مگر پولیس کی فائرنگ سے اس حملے کو روک دیا گیا۔
جب سورج چڑھ چکا تھا
صبح کی اس کارروائی کے باوجود ہجوم کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ عوام سے بار بار ٹکراؤ کی صورت میں پولیس فائرنگ کیے جا رہی تھی۔ جس کے نتیجے میں مختلف علاقوں کے ہجوم ریلوے سٹیشن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہاں انھوں نے سٹیشن کو آگ لگا دی، گودام کا مال لوٹ لیا۔ وہیں ‘سیسن انڈسٹریل سکول’ کو نذرِ آتش کیا۔ چرچوں پر حملے بھی ہوئے اور انہیں جلایا گیا۔
اب انتظامیہ کو احساس ہوا کہ حالات ان کے کنٹرول سے بالکل باہر ہوچکے ہیں۔ شہر میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن فوری طور پر فوج پہنچ نہیں سکتی تھی۔ قریب ترین فوجی دستے سیالکوٹ میں موجود تھے جن کے پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ رہے تھے۔ اس لیے ایئر فورس کی مدد دی گئی۔ دوپہر کو تقریباً تین بج کر دس منٹ پر لاہور کے والٹن ایئرپورٹ سے رائل ایئرفورس کے تین ہوائی جہاز اپنے روایتی اسلحے کے ساتھ مسلح پرواز کرتے ہوئے گجرانوالہ پہنچے۔
گوجرانوالہ میں بمباری کرنے کا فیصلہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے کیا تھا کیونکہ ان کے لیے اس شہر سے آنے والی اطلاعات ایک ’شاک‘ تھیں
گوجرانوالہ پر بمباری کا آغاز
تین جہازوں کے اس مشن کی قیادت اس وقت کے میجر کاربیری کر ہے تھے جو 31 سکواڈرن کے کمانڈر تھے۔ ان کا جہاز گوجرانوالہ کی حدود میں سب سے پہلے پہنچا اور انھوں نے سات سو فٹ سے لے کر صرف سو فٹ تک کی نیچی پروازیں کیں تاکہ گوجرانوالہ شہر اور اس کے ارد گرد تین میل علاقے کا فضائی جائزہ لے سکیں۔
میجر کاربیری کے مطابق، انھوں نے ریلوے سٹیشن اور اس کے گوداموں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ سٹیشن سے باہر ایک ٹرین بھی نظر آئی جس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ سٹشن پر اور سٹیشن سے سول لائینز تک اس سے ملحقہ سڑکوں اور گلیوں میں لوگ ہی لوگ تھے۔ سول لائینز میں انگلش چرچ اور چار گھروں پر آگ لگی ہوئی تھی۔
بمباری کرنے والے جہازوں کے پائلٹوں کو زبانی ہدایات دی گئیں تھیں کہ وہ اگر ہجوم پر بمباری کریں تو صرف کھلے میدانوں میں کریں۔ اس کے علاوہ اگر پائلٹس شہر سے باہر کہیں کوئی ایسا ہجوم دیکھیں جو شہر کی طرف بڑھ رہا ہو تو اسے منتشر کرنے کے لیے بمباری کر سکتے ہیں۔
میجر کاربیری کے جہاز کی بمباری
میجر کاربیری نے پہلی بمباری شہر سے باہر ایک ہجوم پر کی جو ان کے بقول ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ یہ ایک گاؤں شہر کے شمال مغرب کی جانب تھا اور ان کی اطلاع کے مطابق اس گاؤں کا نام ‘دُھلّا’ تھا۔ ہلاکتوں کے بارے میں بعد میں مختلف قیاس آرائیاں کیں گئیں۔ بم گرانے کے بعد موقعے سے بھاگنے والے دیہاتیوں پر پچاس گولیاں مشین گن سے فائر کی گئیں۔
اس کے بعد میجر کاربیری نے شہر کے جنوب سے ایک میل کے فاصلے پر ‘گھرجاکھ’ نامی گاؤں پر دو بم گرائے، بقول ان کے ایک بم پھٹا ہی نہیں تھا۔ یہ لوگ گوجرانوالہ سے لوٹ رہے تھے۔ بم گرنے کے بعد لوگ منتشر ہوگئے۔ اس ہجوم پر پھر بھی پچیس گولیاں مشین گن سے فائر کی گئیں۔ انکوائری کمیٹی کے مطابق اس بمباری سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خالصہ ہائی سکول پر بمباری
ان کاروائیوں کے بعد یہ جہاز گوجرانوالہ شہر کی طرف لوٹے۔ میجر کاربیری نے ایک سرخ عمارت کے قریب کھیتوں میں دو سو کے قریب لوگوں کو چھپے دیکھا۔ یہ خالصہ ہائی سکول اور اس کا ہاسٹل تھا۔ اس کے صحن میں ایک بم پھینکا گیا۔ مشین گن سے تیس کے قریب گولیوں کے فائر کیے گئے۔ انکوائری کمیٹی کو صرف ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع بعد میں ملی۔
اس کے علاوہ شہر میں دو مزید بم گرائے گئے۔ میجر کاربیری نے کہا تھا کہ انھوں نے ان بموں کو پھٹتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے اودٌھم سنگھ نے اس وقت کے پنجاب کے لیفٹینینٹ گورنر سر مائیکل اوڈوائیر کو اس واقعے کے تقریباً 21 برس بعد لندن میں آکر قتل کیا۔ ادھم سنگھ اپنے وقت کا ایک انقلابی سمجھا جاتا ہے۔ ہندو مسل اتحاد کے لیے اس نے اپنا نام ’رام محمد سنگھ آزاد‘ رکھ لیا تھا
اس کمیٹی کی انکوائری کے مطابق میجر کاربیری نے کل ملا کر آٹھ بمب گرائے تھے اور ان میں سے دو جو شہر کے اندر گرائے تھے ان کے بارے میں انکوائری کا خیال ہے کہ ان کا ہدف عوام کے ہجوم تھے۔ میجر کاربیری نے سٹیشن کی طرف آنے والے ہجوم پر کُل ملا کر ڈیڑھ سو گولیاں فائر کیں تھیں۔
باقی دو جہازوں کی بمباری
اس کے علاوہ انکوائری کمیٹی کے مطابق دو دیگر جہاز جو لاہور سے گوجرانوالہ پر بمباری کے لیے بھیجے گئے تھے، ان میں ایک نے تو کوئی کاروائی نہیں کی البتہ دوسرے جہاز نے اپنی مشین گن سے پچیس گولیاں فائر کیں تھیں۔
انکوائری کمیٹی ان جہازوں سے پھینکے جانے والے بموں اور گولیوں کی تعداد سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے اس نے ایک اور ذریعے سے اندازہ لگایا کے طاقت کا زیادہ استعمال ہوا تھا۔
اس وقت راولپنڈی میں تعینات سیکینڈ ڈویژن کی وار ڈائری میں 14 اپریل کو شام چھ بجےایک رپورٹ درج ہوئی تھی: ‘رائل ایئر فورس کے لیفٹینینٹ کربی نے گوجرانوالہ میں آتشزدگی کے واقعات کی تصدیق کی اور کہا کہ انھوں نے ہنگامہ کرنے والوں پر کامیابی سے فائرنگ کی۔ اس کے بعد وہ جہاز کو وزیرآباد کے ایک میدان میں اتارنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہاں مظاہرین جمع ہوگئے اور ان کے جہاز پر حملہ کرنے والے تھے لیکن انھوں نے جہاز کو دوبارہ سٹارٹ کرلیا اور اسے اُڑانے میں کامیاب ہوگئے۔’
ہلاکتوں کی سرکاری تعداد
ان واقعات کے بعد انتظامیہ کے اعلیٰ افسر، کرنل اوبرائین نے انکوائری کمیٹی کو بتایا تھا کہ 14 اپریل کی رائل ایئر فورس کی بمباری اور ہنگاموں سے گوجرانوالہ میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 27 زخمی ہوئے تھے۔
ڈس آرڈرز انکوائری کمیٹی کا سرِورق۔ اس کمیٹی میں ہندوستان کے کئی شہروں میں ہونے والی عوامی بغاوتوں‘ سرکاری موقف پیش کیا گیا وہیں اس میں گوجرانوالہ پر سنہ 1919 میں ہونے والی بمباری پر ایک پورا باب موجود ہے
بمباری کا فیصلہ کس نے کیا تھا
گوجرانوالہ میں بمباری کا فیصلہ لاہور میں اس وقت کے پنجاب کے لیفٹینینٹ گورنر، سر مائیکل اوڈوائیر نے کیا تھا۔ ان کے بقول گوجرانوالہ کے مظاہرے ان کے لیے ایک جھٹکے کی مانند تھے۔ ‘ہمیں اس شہر سے مظاہروں کی خبر 14 اپریل کو ملی جب پورے پنجاب میں بغاوت اپنے عروج پر تھی۔’ انھیں صوبے کے ہر حصے سے حملوں کی خبریں آرہیں تھیں۔ امرتسر کے قریب ایک ٹرین کو الٹ کر ہجوم نے ریل لائن سے اتار دیا تھا۔ سر مائیکل اوڈوائیر کے مطابق، گوجرانوالہ میں حالات پر قابو پانے کے لیے فوج روانہ کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے ایئر فورس کا استعمال کیا گیا۔
اگلے دن دوبارہ بمباری
15 اپریل کو ایئر فورس کا ایک اور افسر لیفٹینینٹ ڈوڈکِنز کو اوپر سے حکم آیا کہ وہ گوجرانوالہ کی جانب پرواز کرے اور لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان ریلوے لائن کا جائزہ لے کہ آیا وہ تباہ تو نہیں ہو گئی ہے۔ اسے یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ گوجرانوالہ کی تازہ ترین حالات کا بھی فضائی جائزہ لے۔ اسے کسی بھی بڑے ہجوم کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا گیا تھا۔
اس افسر کو گوجرانوالہ میں تو کوئی گڑبڑ نظر نہیں آئی لیکن ایک میل باہر شہر کے مغربی علاقے میں تیس چالیس افراد نظر آئے۔ اس نے ان پر مشین گن سے فائرنگ کی۔ اس کے بعد ایک اور گاؤں میں تیس یا پچاس افراد کا ہجوم نظر آیا۔ لیفٹینینٹ ڈوڈکِنز نے اس ہجوم پر ایک بمب پھینکا جو ایک گھر میں گرا اور پھٹا۔ انکوائری نے تسلیم کیا کہ ان دونوں بموں سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں ہوسکا۔
Comments are closed.