بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جب گندم کی بوریاں لانے والے اونٹوں کے گلوں میں ’تھینک یو امریکا‘ کی تختیاں لٹکائی گئیں

پاکستان امریکہ تعلقات: پاکستان کے لیے امریکی غذائی امداد کے پس پردہ دلچسپ کہانیاں

  • فاروق عادل
  • مصنف، کالم نگار

ایوب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایوب خان، جان کینیڈی اور سابق امریکی صدر آئزن ہاور

پاکستان کی داخلی صورتحال اور امریکی امداد کا باہم کوئی تال میل ہے یا نہیں، پاکستانی تاریخ و سیاست کے ضمن میں ایک بنیادی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف پاکستان‘ میں اس کے مصنف جیمز وائن برانٹ نے اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ایک دلچسپ انکشاف ضرور کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’محمد علی بوگرہ کو جس روز وزیر اعظم پاکستان نامزد کیا گیا، اس کے ٹھیک تین روز بعد امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور نے پاکستان کو ہزاروں ٹن گندم کی فراہمی کے حکمنامے پر دستخط کر دیے۔‘

مصنف نے مزید لکھا ہے کہ اس واقعے سے چند ہی ماہ قبل گورنر جنرل غلام محمد نے صدر آئزن ہاور سے ملاقات میں ان سے فوجی امداد کی درخواست کی تھی۔

پاکستان کو اس گندم کی ضرورت کیوں تھی؟

امریکہ کے خارجہ تعلقات کے بارے میں ڈی کلاسیفائی کی جانے والی دستاویزات بعنوان ’فارن ریلیشنز آف یونائیٹڈ سٹیٹس، جنرل: اکنامک اینڈ پولیٹیکل میٹرز‘ کی دستاویز نمبر 196 میں لکھا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کے باعث ملک میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔‘

’دوسری طرف کپاس اور پٹ سن کی برآمدات میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے یہ ملک زرمبادلہ کی کمی کا شکار تھا، یہ صورتحال تھی جس میں امریکا پاکستان کی مدد کو آیا اور اس نے دو قسطوں میں اسے دس ہزار ٹن گندم فراہم کی۔‘

دستاویز کے مطابق گندم کی فراہمی کا یہ منصوبہ کئی نمایاں پہلو رکھتا تھا جن میں سے ایک کے مطابق اس کا مقصد ملک کے اندر ترقیاتی عمل کی رفتار کو تیز کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے گندم کی فروخت سے مقامی کرنسی میں مالی وسائل پیدا کیے گئے۔

یہ رقوم پاکستان میں امریکی تعاون سے جاری ٹیکنیکل کوآپریشن پروگرام میں خرچ کی گئیں۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے اس مقصد کے لیے گندم کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم کے علاوہ ساڑھے 14 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔

گندم کی فراہمی کے علاوہ ترقیاتی مقاصد کے لیے امریکی امداد کی فراہمی کا پس منظر بھی دلچسپ ہے لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیسے حالات تھے جن کی وجہ سے ملک میں غذائی قلت بلکہ قحط جیسی کیفیات پیدا ہوئیں۔

امریکی جنوبی ایشیا آفس نے اس وقت کے وزیر خارجہ پاکستان سر ظفر اللہ خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان کو دریائی پانی کی فراہمی میں کمی کر دی جس کی وجہ سے پانی کی پیداوار میں کمی ہو گئی۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ملک میں قیمتوں میں عدم توازن بھی تھا جو کاشت کار سے زیادہ خریدار کے حق میں تھا چنانچہ پاکستانی کاشتکاروں کی توجہ گندم کی کاشت سے زیادہ نقد آور فصلوں کی طرف مبذول ہو گئی۔

رپورٹ میں ان برسوں کے دوران میں ملک کی چند بنیادی فصلوں کے لیے کاشت کیے جانے والے رقبے اور حاصل ہونے والی پیداوار کے اعداد و شمار سے غذائی اجناس کی کمی کی تصدیق ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1947-48 میں 3953.7 ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی جا رہی تھی جہاں سے 3354 میٹرک گندم پیدا کی جا رہی تھی لیکن 1952-53 میں رقبہ کم ہو کر 3816.9 ہیکٹر اور پیداوار 2405 میٹرک ٹن رہ گئی۔

پیداوار میں اس کمی کا اثر ملک کی جی ڈی پی پر بھی مرتب ہوا۔ اسی رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً ساٹھ فیصد تھا جس میں اسی زمانے میں کمی کا رجحان پیدا ہوا جسے روکنے میں کامیابی نہ ہوسکی اور آئندہ نصف صدی کے بعد یہ تناسب کم ہو کر صرف ساڑھے چوبیس فیصد تک پہنچ چکا تھا۔

گندم کی پیداوار میں کمی کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر کس طرح مرتب ہوئے، اس کا اندازہ اس زمانے کے اخبارات میں میں شائع ہونے والی خبروں اور کچھ کتابوں کے مندرجات سے ہوتا ہے۔

غذائی قلت کی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ملک میں راشن بندی کا نظام رائج کر دیا گیا، ذاتی دعوتوں میں دو درجن سے زائد افراد کو مدعو کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی، غذائی اجناس کی بین الاضلاعی نقل و حرکت روک دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ ملک میں ایسا نظام رائج کیا جائے گا جس کے ذریعے مغربی ممالک کی طرح عوام کو بیکری سے پکی پکائی روٹی ملا کرے گی۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا طریقہ کار اختیار کرے گی۔

سرکاری اعلانات اور وعدے اپنی جگہ لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق اس بحران کی وجہ سے عوام کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ روزنامہ ‘زمیندار’ کے ایک ادایے کے مطابق پنجاب کے بعض اضلاع میں لوگ پیٹ بھرنے کے لیے گھاس اور درختوں کی جڑیں ابال کر کھانے پر مجبور ہو چکے تھے۔

اُس دور کے ایک اہم صحافی محمد سعید جنھیں ڈان سمیت اس زمانے کے دیگر بڑے انگریزی اخبارات میں سینئر پوزیشن میں کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے، اپنی سرگزشت ’آہنگ بازگشت‘ میں بتایا ہے کہ یہ خبریں سرگودھا اور فیصل آباد (اس زمانے میں لائل پور) کے اضلاع سے سامنے آئی تھیں۔

اس زمانے کی خبریں اور دستیاب دیگر دستاویزات کے مطابق عوام میں شدید بے چینی تھی جس کا اظہار عام تھا جیسے بریگیڈیئر اے صدیقی کے مطابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ’خواجہ ہاضم الدین‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔

خواجہ ناظم الدین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

خواجہ ناظم الدین

محمد سعید نے لکھا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے لقب ’قائد ملت‘ کے وزن پر ’قائد قلت‘ کے طنزیہ اور توہین آمیز خطاب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ حالات اس قدر خراب تھے کہ ممتاز صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ناراض لوگ ان کے علامتی جنازے نکالا کرتے تھے۔

ملک میں بے چینی کی اسی کیفیت کو امریکا کی فارن ریلیشنز رپورٹ میں بغاوت جیسی صورت حال سے تعبیر کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ اس غذائی امداد کا ایک مقصد ملک کو بغاوت کے خدشات سے محفوظ رکھنا بھی تھا۔

یہ پس منظر تھا جس میں 21 جولائی 1953 کو سات ہزار ٹن پر مشتمل امریکی گندم کی پہلی قسط کراچی پہنچی جسے وصول کرنے لیے وزیر اعظم خود بندرگاہ پر پہنچ گئے۔ اس وقت کی حکومت کے لیے یہ امداد کتنی اہم اور ضروری تھی اور اس سلسلے میں اس وقت کی حکومت امریکا کی کتنی شکر گزار تھی، اس کا دوسرا مظاہرہ گندم کی بوریاں بندر گاہ سے گوداموں تک لانے والے اونٹوں کو دیکھ کر ہوا جن کے گلے میں خصوصی طور پر تختیاں لٹکائی گئیں، جن پر لکھا تھا: ’تھینک یو امریکا۔‘

امریکی امداد کے خیر مقدم کا یہ منظر ایسا دلچسپ اور منفرد تھا کہ اسے دیکھ کر کچھ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

شکر گزاری کا یہ انداز اعتدال کی حدود سے تجاوز کیوں کر گیا؟ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے بانی ڈاکٹر امیر محمد اس واقعے کو بعض پاکستانی طبقات کی طرف سے روایتی امریکا نوازی کا مظاہرہ سمجھتے ہیں جب کہ مجیب الرحمٰن شامی کے خیال میں اس کا سبب قحط سالی کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے حکومت بہت زیادہ دباؤ میں تھی۔ امدادی گندم کےخیر مقدم کے لیے حکومت نے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی معقولیت کا سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن مجیب الرحمٰن شامی اس امداد کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہیں:

شامی صاحب کے مطابق غذائی خود کفالت سمیت اقتصادی خود انحصاری کا یہ سفر اس امریکی قانون کی وجہ سے ممکن ہوسکا جس کے تحت پاکستان کو یہ سہولت حاصل ہوئی کہ اس نے یہ گندم پاکستانی کرنسی میں خریدی اور پھر یہ رقم واپس امریکا نہیں گئی بلکہ امریکا نے اسے پاکستان میں ہی رکھا اور اسے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا۔ یوں پاکستان نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی اور ملک میں سبز انقلاب کا آغاز ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور ممتاز ماہر اقتصادیات سرتاج عزیز اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔

سبز انقلاب اور غذائی امداد کے بارے میں ایک سوال پر سرتاج عزیز نے مجھے بتایا کہ یہ بعد کا واقعہ ہے، یعنی ساٹھ کی دہائی کا جب ایوب خان کے دور کا جب فورڈ فاؤنڈیشن وغیرہ کے تحت پاکستان میں یہ پروگرام شروع ہوا اور نئے بیج تیار کیے گئے جو گندم کی پیدا وار میں اضافے کاذریعہ بنے۔ سرتاج نے سبز انقلاب کے جس پہلو کی نشان دہی کی ہے، ایوب خان نے اپنی سیاسی خود نوشت ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی’ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

سنہ 1953 میں پاکستان گندم کی صورت میں ملنے والی امداد اور بعد میں سبز انقلاب کا باعث بننے والے امریکی قانون کا پس منظر کیا ہے؟

فیروز احمد لکھتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی سے ستر کی دہائی کے دوران ملنے والی امداد کو جو پی ایل 480 کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے، امریکی دستاویزات میں ’فوڈ فار پیس‘ یعنی خوراک برائے امن کا نام دیا گیا۔ پاکستان کو دی گئی امداد کے لیے منتخب کیا گیا عنوان توجہ طلب ہے، اس سے توجہ فوری طور پر جمیز وائن برانٹ کے انکشاف کی طرف جاتی ہے۔

انھوں نے دو باتیں لکھی ہیں، پہلی یہ کہ محمد علی بوگرا کی نامزدگی کے تیسرے دن امریکی صدر نے پاکستان کو گندم کی امداد کی فراہمی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ اس حکم کے ذکر کے ساتھ ہی انھوں نے یہ لکھنا بھی ضروری سمجھا کہ چند ماہ قبل گورنر جنرل غلام محمد ذاتی حیثیت میں امریکی صدر سے یہ درخواست کر چکے تھے کہ پاکستان کو فوجی امداد دی جائے۔

یہ عین وہی زمانہ تھا جب پاکستان کی فوجی قیادت کمیونزم کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کے لیے شد و مد سے لابی کر رہے تھے۔ ان واقعات کی تفصیل تاریخ کی مختلف کتابوں، خاص طور پر اسکندر مرزا کی سوانح ’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘ میں موجود ہے جس کے مصنف ان کے صاحبزادے ہمایوں مرزاہیں۔

اس کتاب کے مطابق جنرل ایوب خان امریکا کے دورے اکثر کیا کرتے تھے اور امریکی فوجی قیادت کو اس سلسلے میں قائل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ پیر علی محمد راشدی نے اپنی کتاب ’رودادِ چمن‘ میں امریکی دفاعی بلاک میں شمولیت کے سلسلےمیں گورنر جنرل غلام محمد کی بے چینی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ انھوں نے کتاب میں غلام محمد کے ایک بیان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

’تم کو معلوم ہے خدا نے کس طرح پاکستان کو بچا لیا ہے؟ لیاقت علی خان کے مرنے کے بعد خزانہ بالکل خالی ہو چکا تھا، ملازموں کی تنخواہوں کے لیے بھی پیسہ نہیں تھا۔ میں بھاگتا ہوا امریکا گیا، وہاں بڑی دوڑ دھوپ اور انتہائی منت سماجت کر کے میں نے امریکا کو رضا مند کر لیا ہے کہ وہ ہماری مالی مدد کرے۔ امداد کے عوض ہم کو ان کے ساتھ کچھ دوستی کے معاہدے کرنے پڑیں گے جن کی تفصیل طے کرنے کے لیے ظفراللہ(وزیر خارجہ) وہاں گیا ہوا تھا، خدا کے رحم و کرم سے اب سب باتیں طے ہو گئی ہیں۔‘

یہ معاہدے کیا تھے، پیر علی محمد راشدی نے لکھا: ’اگلے چند مہینوں میں یہ معاہدے ہو گئے۔ معاہدے کیا تھے؟ سیٹو، بغداد پیکٹ، دونوں کے تحت پاکستان نے اپنے آپ کو کمیونزم سے لڑنے کا پابند بنا دیا۔‘

پیر علی محمد راشدی کے بیان کردہ حقائق کا پس منظر جمیز وائن برانٹ کی کتاب میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکی صدر آئزن ہاور ان دنوں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے شمالی ایشیا میں اتحادیوں کی تلاش میں تھے، اس اتحاد کو اس زمانے میں Asia’s Northern Tier کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، امریکا کی فہرست میں اس سلسلے میں ترکی، ایران اور پاکستان کے نام سرفہرست تھے۔

لیاقت علی خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

لیاقت علی خان

مصنف نے لکھا ہے کہ سیٹو معاہدے میں پاکستان کی شمولیت کے سلسلے میں محمد علی بوگرا کا تقرر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اس قسم کے معاہدوں کے ضمن میں امریکی امداد کیا معنی رکھتی ہے، یونیورسٹی آف فلوریڈا کے استاد رابرٹ جے میکموہن نے اپنے ایک مقالے ’فوڈ ایز ڈپلومیٹک ویپن: دی انڈیا ویٹ لون 1951‘ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ امریکا نے بھارت کو غذائی امداد دے کر اسی قسم کے مقاصد کے حصول کی کوشش کی تھی۔

امریکا کی طرف سے پی ایل چار سو اسی کے تحت جہاں مختلف ملکوں کو دی جانے والی امداد سیاسی اور دفاعی پس منظر رکھتی ہے، وہیں اس کا ایک اقتصادی پہلو بھی ہے جس کا تعلق صرف امداد لینے والے ملکوں سے ہی نہیں بلکہ امداد فراہم کرنے والے ملک یعنی امریکا سے بھی ہے۔

امریکی امداد کیا ہوتی ہے؟ فیروز احمد نے اپنے مقالے میں اس سلسلے میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا ایک بیان درج کیا ہے، امریکی صدر کہتے ہیں: ’امریکی طریقہ کار کے اس پہلو پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ امریکا سامان اور مہارت کی صورت میں نئے ابھرتے ہوئے ملکوں کو جو امداد مہیا کرتا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ( ان ملکوں میں اس کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی) سے ہم آہنگی اور مستقل ضرورت پیدا ہو جائے تاکہ امدادی معاہدوں کا دورانیہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ان مصنوعات کی مانگ برقرار رہے۔‘

صدر کینیڈی کے اس بیان کو امداد کا فلفسفہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل فیروز احمد نے فراہم کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’(پی ایل چار سو اسی کے تحت ملنے والی امداد کا مقصد یہ تھا کہ) امریکا کی فاضل زرعی پیدا وارکی برآمد کی جائے، خواہ وہ امداد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، اس کا براہ راست فائدہ امریکا کو پہنچنا چاہیے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ اس امداد کے ذریعے امریکا کئی قسم کے مقاصد حاصل کرتا ہے جن میں امریکا کے اندر قیمتوں میں استحکام، برآمد کنندگان کو حکومت کی طرف سے امداد (سبسڈی) اور فاضل پیدا وار کو محفوظ رکھنے کے لیے سٹوریج کے اخراجات سے بچنا شامل ہے۔

بینظیر، ملیحہ، کلنٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں سبز انقلاب کے لیے دی جانے والی امداد کے بارے میں انھوں نے لکھا: ’کثیر القومی کارپوریشنوں کے ذریعے شروع کیا گیا سبز انقلاب کا پروگرام امداد دینے والے ملک کے کاروباری مواقع میں شاندار اضافے کا ذریعہ بن گیا۔‘

سبز انقلاب منصوبے پر عمل درآمد کے زمانے میں پاکستان نے زرعی ٹیکنالوجی، ٹریکٹروں سمیت زرعی آلات، کھادوں اور زرعی ادویات کی خریداری پر جو رقوم خرچ کیں، فیروز احمد نے اس کے اعداد و شمار فراہم کیے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امداد پاکستانی زراعت و معیشت کے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ امریکی معیشت کے لیے بھی ایک قابل قدر اثاثہ ثابت ہوئی۔

اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ کھادوں کی خریداری کا جو بل ماضی میں پانچ کروڑ 86 لاکھ ڈالر تھا، ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی چار برسوں میں بڑھ کر چار کروڑ 12 لاکھ ڈالر ہو گیا۔ دیگر شعبوں کی برآمدات کی مالیت میں بھی اسی طرح تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ فوجی تعاون کے ضمن میں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ اعداد و شمار اگرچہ صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں لیکن ان کی افادیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کا اندازہ امریکی ائرفورس کے میجر جنرل جان او موئنچ کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ فوجی امداد کے اقتصادی ثمرات غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتے ہیں۔

امریکا کہ طرف سے 1953 میں غذائی امداد کا جو سلسلہ شروع ہوا، ان کے جائزوں اور تحقیقی مطالعوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس سرگرمی کے مقاصد اور اثرات کثیر پہلورکھتے تھے، اس کے ذریعے اگر پاکستان میں غذائی بحران پر قابو پانے کے علاوہ، معیشت اور دفاع کو مضبوط کرنے میں مدد ملی تو دوسری طرف امریکا نے بھی اس سے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی مقاصد حاصل کیے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.