جب مہنگائی سے تنگ ارجنٹینا نے پیسو اور امریکی ڈالر برابر کرنے کا فیصلہ کیا

امریکی ڈالر، ارجنٹائن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, فرنینڈا پال
  • عہدہ, بی بی سی منڈو

شدید مہنگائی میں زندگی گزارنا ارجنٹینا کے باشندوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ اگرچہ ملک میں افراطِ زر میں تاریخی اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے تاہم یہ پہلی بار نہیں کہ لاطینی امریکہ کی تیسری سب سے بڑی معیشت ایسے مشکل دور سے گزر رہی ہو۔

30 سال قبل حالات اس سے بھی بُرے تھے: 1989 میں کنزیومر پرائس انڈیکس (روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں، سی پی آئی) میں 3079 فیصد سالانہ اضافہ ہوا اور اگلے سال اس میں 2314 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ملک میں مالی بحران سنگین ہوچکا تھا اور غربت کی سطح انتہا کو پہنچ چکی تھی۔

مگر پانچ سال بعد، صدر کارلوس منم کے دوسرے دورِ کے دوران، سی پی آئی صفر فیصد کو جا پہنچی۔

کاوالو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کاوالو نے مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کا قانون متعارف کرایا

مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کی پالیسی

90 کے دہائی کے اوائل میں ارجنٹینا میں مہنگائی بے قابو ہوچکی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے صدر منم کے وزیر معیشت ڈومنگو کاوالو نے مالیاتی اصلاحات میں مصنوعی ایکسچینج ریٹ یا کنورٹیبلٹی کا قانون متعارف کرایا۔

اپریل 1991 میں پارلیمان سے منظوری کے بعد اس قانون کے تحت ارجنٹائنی پیسو کی قدر امریکی ڈالر کے برابر ہوگئی۔ یعنی مقامی کرنسی کی قدر میں مصنوعی اضافہ کیا گیا۔

اس کنورٹیبلٹی کو ممکن بنانے کے لیے مرکزی بینک سے اقدامات کروائے گئے اور معیشت میں گردش کرنے والے ہر امریکی ڈالر کے بدلے پیسو کو مضبوط کیا گیا۔

جلد ہی ارجنٹینا نے مہنگائی پر قابو پا لیا اور معیشت مستحکم ہوگئی۔ ایک طویل عرصے تک اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

ماہر معیشت ایڈوارڈو لیوی کے مطابق اس سے ’ملک کچھ حد تک مستحکم ہوا، سرمایہ کاری آنے لگی اور پیداوار بڑھی مگر خسارہ پوری طرح قابو میں نہیں آیا۔‘

لیوی بتاتے ہیں کہ ارجنٹینا کی معاشی پالیسی نے بریڈی پلان سے فائدہ اٹھایا جس میں امریکی کمرشل بینکوں نے بحران ختم کرنے کے لیے ارجنٹینا، برازیل، ایکواڈور، میکسیکو اور وینزویلا کے ساتھ قرضوں کے نئے معاہدے کیے۔

ارجنٹینا کے وزیر کاوالو نے تجارت کھول دی، سرکاری اداروں کی نجکاری کی اور ڈالر کی گردش بڑھائی جس سے معیشت کو فائدہ پہنچا۔

خیال رہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں لاطینی امریکہ کے کئی ملک 80 کی دہائی کے قرض بحران کے بعد سے اپنی معیشتیں مستحکم کرنے کی کوششوں میں تھے۔ یہ خطے کے بدترین بحرانوں میں سے تھا جس نے غربت کی سطح میں بے انتہا اضافہ کیا تھا۔ اسی لیے اسے ’گمشدہ دہائی‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

تاہم ماہرِ معیشت مارینا ڈی پوگیتو کے مطابق ارجنٹینا لاطینی امریکہ کا واحد ملک تھا جس نے افراتفری سے بچنے کے لیے اپنے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر قابو کیا۔

انھوں نے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ یہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی جس نے ارجنٹینا کی تاریخ کی بڑی معاشی، سیاسی اور سماجی گراوٹ کو جنم دیا۔

برازیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1999 کے دوران کرنسی کی قدر گِرنے پر برازیل میں احتجاج

یہ بھی پڑھیے

یہ پالیسی ناکام کیوں ہوئی؟

ڈی پوگیتو کا کہنا ہے کہ ’ہماری معیشت بند تھی جسے شدید مہنگائی اور سختیوں کا سامنا تھا۔ اس پالیسی کے بعد ہماری معیشت کھل گئی جس سے مہنگائی کی سطح کم ہوگئی مگر 1996 میں مسائل اُبھرنا شروع ہوئے۔‘

جب ایکسچینج ریٹ کی کڑی نگرانی کے لیے کنورٹیبلٹی کا ماڈل اپنایا گیا تو شروع میں اس سے فائدہ نظر آیا تاہم آہستہ آہستہ اس کے منفی اثرات سامنے آنے لگے۔ ماہرین معیشت کے مطابق اس اقدام سے ارجنٹینا کو اس لیے نقصان پہنچا کیونکہ ڈالر ایک مضبوط تجارتی کرنسی تھی اور یوں بیرونی ادائیگیوں میں دشواری پیش آئی جبکہ برآمدات کی قدر گِر گئی۔

ڈی پوگیتو نے بتایا کہ ’امریکہ میں شرح سود میں اضافے سے ڈالر مزید مضبوط ہوا اور اس سے ارجنٹینا جیسے ترقی پذیر ممالک میں بحران برپا ہوا۔‘

اسی دوران ایشیا کی معیشت کو درپیش بحران پوری دنیا میں پھیل گیا اور روسی کرنسی روبل کی قدر میں تیزی سے گراوٹ ہوئی جس سے ارجنٹینا کے معاشی نظام میں منفی اثرات مرتب ہوئے۔

سنہ 1999 میں مالی عدم استحکام اور ادائیگیوں کا توازن بگڑنے کے باعث برازیل نے امریکی ڈالر کے مقابلے اپنی کرنسی ریال کی قدر کم کر دی۔ اس سے ارجنٹینا کی برازیل کے ساتھ برآمدات گِر گئیں۔ اس سے گاڑیاں، ٹیکسٹائل، ڈیری اور جوتوں سمیت متعدد صنعتیں متاثر ہوئیں۔

ڈی پوگیتو کا کہنا ہے کہ ’1999 میں ریال کی قدر میں کمی کرنسی کنورٹیبلٹی پالیسی کے لیے موت کا سرٹیفیکیٹ ثابت ہوئی۔‘

’ارجنٹینا کو بھی اسی سال اپنی کرنسی کی قدر کم کر لینی چاہیے تھی جب برازیل نے ایسا کیا تھا۔ تاہم ارجنٹینا کی سخت حکومت ایسا نہ کر سکی۔‘

1999 سے 2002 کے دوران مالیاتی بحران گہرا ہوتا چلا گیا۔ ارجنٹینا کو شدید بحران کے ساتھ بڑھتی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا (ہر 10 میں سے 3 تین لوگ بے روزگار ہوچکے تھے)۔

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بینکوں میں رقوم منجمد ہونے پر لوگ سراپا احتجاج

کمرشل بینکوں میں رقوم منجمد

سنہ 2001 کے دوران وہاں امریکی ڈالر کی طلب بڑھ گئی مگر ارجنٹینا کے پاس یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اس کی پیداوار کو کنٹرول کرسکے۔ پیسو کی قدر میں کمی اور مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ارجنٹینا کا دار و مدار بیرونی فنانسنگ پر تھا اور اس کا 97 فیصد قرض غیر ملکی ڈالروں میں تھا۔

ارجنٹائن کے اکثر شہری معاشی نظام پر اعتماد کھو چکے تھے لہذا انھوں نے ہمسایہ ملک یوراگوئے سمیت دیگر بیرونی اکاؤنٹس میں اپنے ڈالر بھیجنا شروع کر دیے تھے۔

مرکزی بینک کے ذخائر گِرنے کے باعث فرنینڈو دی لا روا کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مدد مانگی اور قرض کے لیے مذاکرات شروع کر دیے۔ کچھ ماہ بعد آئی ایم ایف نے قرض کی منتقلی روک دی جس سے بینکوں پر دباؤ پڑا۔

اسی تناظر میں تین دسمبر کو دی لا روا نے کاوالو کی تجویز پر ایسا حکم جاری کیا جس کا مقصد ملک سے ڈالروں کی منتقلی روکنا تھا۔

اس کے تحت بینکوں سے رقم نکلوانے پر پابندی عائد ہو گئی اور تجارت رُک گئی۔ اس پر لوگ سراپا احتجاج ہوئے اور اپنے پیسے واپس لینے کا مطالبہ کرنے لگے۔

آگے کی کہانی سبھی کے علم میں ہے: احتجاجی مظاہرے اور لوٹ مار۔ صدر دی لا روا نے استعفیٰ دیا اور ہیلی کاپٹر پر روانہ ہوگئے۔ یوں سیاسی اور ادارہ جاتی بحران پیدا ہوگیا۔

سنہ 2002 کے آغاز میں ڈالر اور پیسو کی قدروں میں فرق واضح ہوگیا۔ پیسو کی قدر میں کمی سے غربت میں اضافہ ہوا اور ارجنٹینا کے دو تہائی شہری متاثر ہوئے۔

ملک بیرونی قرضوں پر دیوالیہ ہوگیا۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا دیوالیہ تھا: 144 ارب ڈالر۔

مہنگائی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ارجنٹینا میں آج روزانہ کی بنیاد پر اشیا کی قیمتیں تبدیل ہو رہی ہیں

کیا ارجنٹینا کے ماڈل کو آج بھی نافذ کیا جاسکتا ہے؟

ماضی میں کنورٹیبل کرنسی کے ماڈل کے اچانک خاتمے سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آیا ارجنٹینا کے موجودہ بحران میں بھی اسے دوبارہ نافذ کیا جاسکتا ہے۔

کچھ لوگ اس کی پالیسی کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ماہرِ معیشت یاویر میلی، جو ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں، نے کہا ہے کہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ ملک کی پالیسی کامیاب تھی جس سے میکرو اکمانک ویری ایبلز (افراط زر، فسکل پالیسی، روزگار، قومی آمدن اور بین الاقوامی تجارت) کو قابو میں لایا گیا اور مستقبل میں بھی اسی راستے کو اپنانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’یکم اپریل 1999 کو کنورٹیبلٹی کی پالیسی اپنائی گئی۔ جنوری 1993 تک ہمارے ملک میں دنیا میں سب سے کم مہنگائی تھی۔ میں مالیاتی نظام میں اصلاحات اور فری کرنسی کمپٹیشن کی تجویز دیتا ہوں۔ ممکنہ طور پر ارجنٹینا کے لوگ ڈالر کا انتخاب کریں گے اور آپ کو ڈالر میں آمدن کما کر دیں گے۔‘

مگر اکثر معاشی ماہرین نے اسے اچھا راستہ قرار نہیں دیا ہے۔

ڈی پوگیتو کا کہنا ہے کہ مصنوعی ایکسچینج ریٹ تمام مسائل کا حل نہیں۔ ان کے مطابق ’اگر مالی اکاؤنٹس اور قیمتوں میں تصحیح نہ کی جائے تو مہنگائی بے قابو رہتی ہے۔ آپ کو مالی استحکام کا پروگرام درکار ہوتا ہے۔‘

اس سوال پر کہ ایکسچینج ریٹ کی بہتر پالیسی کیا ہے، انھوں نے کہا کہ مصنوعی طور پر اسے طے کرنا ناکام رہتا ہے کیونکہ طویل مدت میں اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔

لیوی کے مطابق مصنوعی ایکسچینج ریٹ صرف تبھی ممکن ہے اگر ایک ملک کے پاس پہلے سے عالمی ذخائر موجود ہوں۔ جیسے 90 کی دہائی میں ارجنٹینا کے مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں کے پاس ڈالروں میں بڑی رقوم موجود تھیں۔ ’اگر آج کریڈٹ سوئس جیسا بحران پیدا ہوتا ہے تو افراتفری روکنے کا کوئی طریقہ نہیں، سوائے اس کے کہ حکومت اور بینک ذخائر جمع کر لیں۔‘

لیوی کے مطابق استحکام کے لیے مالیاتی توازن اور اصلاحات درکار ہوتی ہیں اور مصنوعی ایکسچینج ریٹ ان کا نعم البدل نہیں۔ ’آج اسے استحکام کے لیے شارٹ کٹ سمجھنا میری رائے میں بیوقوفی ہوگی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ