جب ارجنٹینا نے اپنے ہی شہریوں کے قتلِ عام کے لیے تاریخ میں پہلی مرتبہ طیارے کا استعمال کیا
- مصنف, نتالیا گوریرو
- عہدہ, بی بی سی ریل
19 جولائی 1924 کو ارجنٹینا میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے 500 قدیمی باشندوں کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کو ’نپالپی قتلِ عام‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نپالپی کا مطلب مقامی زبان میں قبرستان کا ہے اور یہ وہ قتلِ عام ہے جس کے لیے پہلی مرتبہ کسی طیارے کا استعمال کیا گیا۔
اس سے قبل پہلی عالمی جنگ میں طیاروں کا استعمال کیا جا چکا تھا مگر سابق پائلٹ اور محقق آلیہاندرو کویلو کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس لیے منفرد ہے کیونکہ اس معاملے میں طیارے کا استعمال کسی دوسرے ملک یا کسی کالونی کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیا گیا۔
یہ قتلِ عام کیسے اور کیوں ہوا اس کا پس منظر جانتے ہیں۔
مزدوری میں اضافے کا مطالبہ اور خونی ردعمل
بیسویں صدی کے اوائل میں ارجنٹینا کے قدیم باشندوں کو مخصوص علاقوں تک محدود کیا جانے لگا تھا۔ محقق و مؤرخ ماریانا جیورڈانو کہتی ہیں کہ ان مخصوص علاقوں یا ریزرویشنزمیں قدیم باشندوں سے جبراً کھیتوں میں مزدوری کروا کر اُنھیں ‘تہذیب یافتہ’ بنایا جاتا۔
اس قتلِ عام میں بچ جانے والے ایک شخص کے بیٹے سبینو ریگوئین بتاتے ہیں کہ قم اور موقوئت برادریوں کے مزدور متحد ہو کر اپنی مزدوریوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے لگے مگر کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔
جب ان کی بات نہیں سنی گئی تو اُنھوں نے ہڑتال کر دی۔ اس کے جواب میں خونی ردِعمل سامنے آیا۔
آلیہاندرو بتاتے ہیں کہ 19 جولائی 1924 کی صبح وہ پہلی مرتبہ تھی جب ایک مسلح طیارے کو ارجنٹینا کی سرزمین پر اس کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
سبینو نے بتایا کہ اس صبح لوگوں کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ اگر اُنھوں نے ہڑتال جاری رکھی تو اُنھیں مار دیا جائے گا، وفاقی پولیس آئے گی اور اُنھیں قتل کر دے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔
اس کے بعد گورنر فرنینڈو سینٹینو نے ایک مقامی فلائنگ کلب سے ایک طیارہ مستعار لیا۔ آلیہاندرو بتاتے ہیں کہ اس طیارے کا پہلا مشن جائزہ لینا اور نگرانی کرنا تھا جس کے ذریعے اہداف کی نشاندہی کر لی گئی تاکہ بعد میں زمینی سپاہی لوگوں کا قتل کر سکیں۔
’کبھی نہیں سوچا تھا لوہے کا ٹکڑا ہوا میں اڑ سکتا ہے‘
سبینو کہتے ہیں کہ طیارے کے ذریعے یہ پتا لگایا گیا کہ مقامی باشندے کدھر جمع ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سانحے میں بچ جانے والے لوگوں نے بتایا کہ اُنھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی لوہے کا ٹکڑا ہوا میں اڑ سکتا ہے۔
اس سانحے میں بچ جانے والے افراد کی ایک عزیزہ مٹیلڈے رومالڈو جو اب 90 برس کی ہو چکی ہیں، بتاتی ہیں کہ طیارہ ٹافیوں کی تھیلیاں گراتا ہوا گیا اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔
ماریانا جیورڈانو بھی یہی بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس جہاز نے ٹافیوں کی تھیلیاں گرائیں تاکہ بچے جھاڑیوں سے باہر نکلیں۔ اس طرح مقامی افراد زمینی سپاہیوں کی نظروں میں آ گئے۔
مٹیلڈے کہتی ہیں کہ سپاہیوں نے لڑکیوں کا ریپ بھی کیا۔
اس موقع پر 130 سپاہیوں نے اس کمپاؤنڈ کا گھیراؤ کر لیا اور غیر مسلح افراد پر پانچ ہزار گولیاں چلائی گئیں۔ جو لوگ گولیوں سے نہیں مرے اُنھیں بُغدوں سے مار دیا گیا۔
سبینو کہتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد طیارہ ایک مرتبہ پھر اوپر سے یہ دیکھنے کے لیے گزرا کہ کہیں کوئی مقامی شخص زندہ تو نہیں بچ گیا۔
اس دن نپالپی میں 70 سے 80 فیصد افراد کو قتل کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے اجتماعی قبروں میں پھینک دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سابق پائلٹ اور محقق آلیہاندرو کویلو
ارجنٹینا میں اپنی نوعیت کا پہلا قتل عام
آلیہاندرو کہتے ہیں کہ سنہ 1924 کا زمانہ اگر تصور کیا جائے تو ارجنٹینا کی کسی قدیم آبادی کے اوپر اڑتی کسی چیز کو لوگ جادو یا خدا سمجھے ہوں گے مگر یہ تو موت تھی۔
جرمن ماہرِ اقوام رابرٹ لیہمن نطشے نے اس قتلِ عام سے قبل اس طیارے کی تصویر لی تھی جو سنہ 2009 میں ماریانا نے دریافت کی۔
ماریانا کہتی ہیں کہ اس طیارے کے آگے کئی لوگ کھڑے ہیں جن میں سے کچھ مسلح ہیں، کچھ نے فوجی وردیاں پہن رکھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تصویر کے پیچھے لیہمن نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا کہ مقامی باشندوں کی بغاوت کے خلاف استعمال کیا جانے والا طیارہ۔
نپالپی کا قتلِ عام ارجنٹینا میں اپنی نوعیت کا پہلا قتلِ عام تو تھا مگر آخری نہیں تھا۔
آلیہاندرو بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی حقوق مانگنے والی قدیم آبادیوں کے خلاف کئی آپریشنز کیے گئے، یہاں تک کہ ایک ٹرانسپورٹ طیارے کو بھی استعمال کیا گیا جس کا پچھلا دروازہ نکال کر وہاں مشین گن لگا دی گئی تھی۔
نپالپی قتلِ عام کی یادگار
اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ 16 جون 1955 کو بیونس آئرس پر چار گھنٹے تک بمباری کی گئی جس کے بعد 308 لاشیں برآمد ہوئیں۔
آلیہاندرو کہتے ہیں کہ اس بمباری کے بعد موت کی پروازوں کا سلسلہ شروع ہوا جسے وہ ‘عظیم ترین ناانصافی قرار دیتے ہیں۔’
وہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے واقعات کی جانب اشارہ کر رہے تھے جو سنہ 1976 سے 1983 کے درمیان پیش آئے۔ ان برسوں میں ارجنٹینا کی زمامِ اقتدار فوج کے ہاتھوں میں رہی جس دوران 30 ہزار سے زائد لوگوں کو ‘غائب’ کرنے کے بعد باندھ کر ریو ڈی لا پلاٹا نامی دریا میں پھینک دیا جاتا۔
اس واقعے کے 98 برس بعد ایک ٹرائل ہوا جس کے بعد مئی 2022 میں وفاقی عدالت نے ریاست کو اس کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔
مگر اس سانحے میں بچ جانے والوں کے لواحقین اب بھی کسی نہ کسی حد تک خوفزدہ ہیں۔
مٹیلڈے کہتے ہیں: ‘میرے بچوں کے بچے اب میری زبان نہیں بولتے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ وہ یہ زبان بولیں، کیونکہ اگر کل کچھ ہوا تو اُنھیں نہیں پتا ہو گا کہ خود کو کیسے بچانا ہے، اگر ہسپانوی زبان بولتے ہوں گے تو خود کو بچا لیں گے۔’
آلیہاندرو کہتے ہیں کہ فضائی تاریخ کی کتابوں میں ایسے واقعات شامل کرنے سے انھیں مستقبل میں دوبارہ ہونے سے روکنے میں مدد ملے گی۔
Comments are closed.