سپریم کورٹ نے ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے حکم کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔
جاوید لطیف کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے حکم کے خلاف نیب اپیل پر سماعت ہوئی۔
اس موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ہائیکورٹ کا حکم 3 جولائی کی ترمیم سے پہلے کا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب قانون سے متعلق اہم ریمارکس دیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جولائی میں ہونے والی نیب ترامیم مشکوک ہیں، 3 جولائی کو کی گئی نیب ترامیم عدالتی فیصلوں کے متصادم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوال جواب کے لیے بلائے گئے بندے کو جیل میں کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ نیب قانون 2001 تک ڈریکونین تھا، نیب قانون میں ریمانڈ کا دورانیہ کم کرنے اور ضمانت دینے کی ترامیم اچھی ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب قانون کی تشریح عدالتی فیصلوں اور آئین کے تناظر میں ہی ہوسکتی ہے۔
عدالت میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کو گرفتاری سے پہلے مطلع کرنے کا فیصلہ خلاف قانون ہے، 3 جولائی 2023 کی ترمیم کے بعد دوران انکوائری بھی گرفتاری ہوسکتی ہے۔
پراسیکیوٹر رضوان ستّی نے کہا کہ نیب ترمیم کا اطلاق ماضی سےکیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جاوید لطیف کا مقدمہ انکوائری اسٹیج پر تھا، اس وقت گرفتاری نہیں ہوسکتی،چھوڑیں جی ان باتوں کو۔
Comments are closed.