روس سے تیل کی خریداری پر مغربی ممالک کی پابندیاں نرم پڑنے لگیں
مغربی ملکوں کی طرف سے روس کی تیل کی تجارت کو محدود کرنے کی کوششیں کساد بازاری اور توانائی کی عالمی صورت حال سے ڈھیلی پڑنے لگیں
عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے اور دستیابی پر تشویش کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرف سے روس کی تیل کی تجارت کو محدود کرنے کی کوششیں ڈھیلی پڑنے لگی ہیں۔
برطانیہ کے مقتدر اخبار فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مغربی حکومتوں نے روس کو لندن کی لائڈ میری ٹائم (سمندری) انشورنش مارکیٹ سے باہر کرنے کے اپنے منصوبوں کو موخر کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یورپی یونین نے برطانیہ کی طرف سے بھی مربوط اقدامات کرنے کی توقع میں دو ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ ان مال بردار بحری جہازوں کی انشورنش نہیں کی جائے گی جو روس سے تیل لے کر دوسرے ملکوں کو فراہم کریں گے۔ تاہم برطانیہ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
اس نوعیت کی کسی بھی قسم کی پابندی میں برطانیہ کی شمولیت بہت اہم ہے اس لیے کہ برطانیہ عالمی سطح پر سمندری تجارت کی انشورنش کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
دریں اثنا برسلز نے جولائی کے آخری میں توانائی کی عالمی سطح پر دستیابی کے بارے میں خدشات کو بنیاد بنا کر روسی سرکاری کمپنیوں سے لین دین پر پابندیوں میں کچھ رد و بدل کی تھی۔
برطانیہ اور یورپی یونین کی طرف سے مشترکہ طور پر روس کے تیل کی تجارت کی میری ٹائم انشورنش بند کرنے سے دنیا بھر کے تیل بردار جہازوں کو روس سے تیل اٹھانا مشکل ہو جائے گا اور یہ اب تک روس پر لگائی جانے والی اقتصادری اور تجارتی پابندیوں میں سب سے موثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن امریکہ کی طرف سے ان خبردار کیا گیا ہے کہ روس سے تیل برآمد کرنے والے جہازوں کی انشورنش کرنے پر فوری پابندی سے عالمی سطح میں پر دسیوں لاکھ ٹن خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی رک جائے گی جس سے تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔
فائنینشل ٹائمز نے برطانوی اور یورپی حکام کا حوالے دیتے ہوئے دعوی کیا کہ اخبار کو مئی کہ مہینے میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ نے یورپی یونین کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ روس تیل کی کارگوز کی انشورنش مشترکہ طور پر بند کی جائےگی۔
اس کے برعکس برطانوی پارلمیان نے جولائی کے مہینے میں روس پر جن اقتصادی پابندیوی کی منظور دی ہے ان میں صرف ان جہازوں کی انشورنش کی ممانعت ہو گی جو روس سے تیل لے کر برطانیہ آئیں گے اور ان پابندیوں کا اطلاق دسمبر کی 31 تاریخ کے بعد نئے سال سے شروع ہو گا۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ پابندیوں کےاس قانون میں صرف برطانیہ تیل لانے والے جہازوں پر پابندی عائد کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ دیگر ممالک کو روس کے تیل کی فراہمی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
لائڈ مارکٹ ایسوسی ایشن کے ایک اہلکار پیٹرک ڈیویسن نے کہا کہ فی الوقت روس کے تیل کی عالمی ترسیلات پر برطانیہ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ لائیڈز [برطانیہ کی حکومت] کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے "اور مستقبل میں جو بھی پابندیاں وہ متعارف کروانا چاہتے ہیں اس پر ان کے ساتھ کام کریں گے۔”
برطانوی وزارت خزانہ نے کہا کہ وہ اب بھی بہترین طریقہ کار کی تلاش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کا روسی معیشت پر زیادہ سے زیادہ اثر ہو سکے۔
یورپی یونین کی انشورنس پابندی 4 جون کو متعارف کرائی گئی تھی اور وہ برقرار ہے۔ یہ یورپی یونین کی کمپنیوں کو کسی بھی جگہ روسی تیل لے جانے والے جہاز کے لیے نئی انشورنس کرنے سے روکتا ہے۔ موجودہ معاہدے 5 دسمبر تک کارآمد رہیں گے، جب اس طرح کے تمام کاروبار پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
تاہم، یورپی یونین نے اپنی پابندیوں کے ایک حصے میں ترمیم کی ہے تاکہ یورپی کمپنیوں کو یورپی یونین سے باہر کے ممالک میں تیل کی ترسیل کے مقصد کے لیے روس کے کچھ سرکاری اداروں، جیسے روزنیفٹ کے ساتھ معاملات کرنے کی اجازت دی جائے۔ یورپی کمیشن کے ترجمان نے اخبار کو بتایا کہ یورپی کمپنیوں کو اب روزنیفٹ جیسی کمپنیوں سے لین دین کو روکا نہیں جائے گا، ‘اگر یہ لین دین اشد ضروری ہو تو۔’
یورپی یونین نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدامات ‘دنیا بھر میں خوراک اور توانائی کی دستیابی کے لیے کسی بھی ممکنہ منفی اثرات سے بچنے کے لیے کیے گئے ہیں”۔
وائٹ ہاؤس جون سے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے کہ جی 7 ممالک پر قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کی حمایت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے جس کے تحت صرف وہ روسی تیل تیسرے ممالک تک پہنچ سکے جس کو وہ مارکیٹ سے کم قیمت پر فروخت کرنے پر راضی ہو۔
واشنگٹن میں حکام نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ اب بھی میری ٹائم سروسز بشمول انشورنس پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ یورپی یونین کی پابندی دسمبر میں مکمل طور پر نافذ ہو جائے گی۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس سے قبل وہ یہ یقینی بنا لیں کہ تیل کی قیمتوں میں ایک حد سے زیادہ اضافہ نہیں ہو گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے قبل پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے خواہشمند ہیں۔ پابندیوں کی حمایت کرنے والوں نے کہا کہ یورپی یونین روسی تیل کے عالمی بہاؤ کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو نرم کر رہی ہے، اور یہ کہ عالمی بیمہ پر پابندی کے لیے برطانیہ کی شرکت پر تاجروں میں نئی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
ایک قانونی فرم ایچ ایف ڈبلیو کی ایک حصہ دار سارہ ہنٹ نے کہا کہ تجارتی کمپنیاں یہ پوچھ رہی ہیں کہ کیا اب یورپی یونین سے باہر ممالک کو بھیجنے کے لیے روزنیفٹ سے تیل خریدنا قانونی ہے۔
انہوں نے کہا ‘حقیقتاً یورپی یونین کی نئی پابندیاں یورپی کمپنیوں کو روسی خام تیل اٹھانے کی اجازت دیتی ہیں۔ ہم اس سے حیران تھے۔’
ایک اور قانونی فرم ریڈ اسمتھ کے پارٹنر لی ہینسن نے کہا کہ یورپی یونین کی پابندیوں میں ترمیم ایک "بڑی پسپائی” تھی۔
یہ بھی پڑھیے
تیل کی فروخت کا رخ مشرق کی سمت
جی پی مورگن بینک نے کہا ہے کہ روس اپنی تیل کی برآمدات کو یورپ سے بغیر کسی مشکل کے مشرقی ملکوں کو منتقل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
کمپنی کے مطابق روس کی تیل کی پیداوار اور تجارت میں متوقع کمی "کبھی نہیں ہوئی۔”
بینک کی ہیڈ آف کموڈٹیز ریسرچ نتاشا کا نیوا نے کلائنٹس کو ایک نوٹ میں کہا کہ عالمی اسٹریٹجک ذخائر سے تیل کے اخراج کے ساتھ توقع سے زیادہ بہتر روسی پیداوار کی وجہ سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی واقع ہوئی۔
یورپ کے ممالک روس سب سے زیادہ تیل خریدتے ہیں اور یورپ روسی تیل اور گیس کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ لیکن سنہ 2022 میں یورپ کو روسی تیل کی فروخت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، کیونکہ فروری کے آخر میں ولادیمیر پوتن کے یوکرین پر حملے کے بعد کمپنیوں نے از خود روس سے تیل خریدنا بند کر دیا۔
تاہم، روس اپنی تیل کی برآمدات کو ایشیا کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب رہا ہے، خاص طور پر بھارت اور چین نے اپنی خریداری میں اضافہ کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں، مقامی مانگ میں اضافے کی وجہ سے روسی تیل کی پیداوار دوبارہ جنگ سے پہلے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
Comments are closed.