تہران میں یرغمال امریکی سفارتی عملے کی بازیابی کا مشن کیسے ناکام ہوا
امریکی فوجی اہلکار ناکام مشن سے واپس لوٹ رہے ہیں
‘میں اپنے بچے کو پہچان نہیں سکی۔ اس کے بازو لکڑیوں کی طرح ہو گئے تھے وہ انھیں مشکل سے اٹھا سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں کو بھی کچھ ہو گیا تھا جیسے اس پر تشدد کیا گیا ہو۔‘
یہ تہران میں امریکی سفارتخانے میں چار ماہ سے یرغمال عملے کے ایک رکن کی ماں کی استدعا تھی۔ ماں نے اپنے بیٹے کی تصاویر دیکھ کر روتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر سے درخواست کی کہ وہ اس بارے میں کچھ کریں۔
ایران کے سابق حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کی امریکہ سے بے دخلی کا مطالبہ کرنے والے ایرانی مظاہرین نے چار نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر عملے کے 66 ارکان سمیت 99 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
چار ماہ بعد مارچ 1980 میں جب اس سفارت خانے کے عملے کی تصاویر جب امریکہ کے ٹی وی چینلوں پر نشر کی گئیں تو ان امریکی شہریوں کے بارے میں ملک میں پہلے سے موجود تشویش میں شدید اضافہ ہو گیا۔
عملے کے اس رکن کی ماں نے صدر کارٹر سے کہا کہ وہ ایک ماں کی حیثیت سے ایک باپ سے کہتی ہیں کہ ’خدارا کچھ کریں‘۔
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل جلد ممکن نہیں ہے۔ ان سفارت کاروں کو وطن واپس لانے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے صدر کارٹر شدید عوامی دباؤ میں تھے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
فوجی آپریشن کی تیاریاں
واشنگٹن میں امریکی سفارت کاروں کو چھڑانے کے لیے فوجی کارروائی کرنے پر غور شروع ہو گیا تھا۔ مائیک وائننگ اس وقت امریکی فوج میں انسداد دہشت گردی کے لیے بنائے گئے خفیہ دستوں ڈیلٹا فورس ٹو میں سٹاف سارجنٹ تھے۔
مائیک وائننگ کا یونٹ ’بروکن رج کلوراڈو‘ کے علاقے میں زیر تریبت تھا جس میں انھیں خفیہ جنگی آپریشن کرنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔
صدر جمی کارٹر نے اس مشن کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کی
بی بی سی کو ایک انٹرویو میں ان دنوں کی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے مائیک وائننگ نے بتایا ’ہمارے یونٹ کو تیار رہنے کا کہا گیا اور فوری طور پر ہمیں فورٹ بریک پہنچنے کا حکم دیا گیا۔‘
اس یونٹ کو اس مسئلے کے شروع ہوتے ہی احکامات مل گئے تھے کہ وہ سفارت کاروں کو بازیاب کروانے کے مشن کی تیاری کریں۔ لیکن ابتدا ہی سے یہ واضح تھا کہ تہران میں امریکی سفارت خانے کے وسیع احاطے تک پہنچنا آسان کام نہیں ہوگا۔
ایک طرف امریکی سفارتی عملے کو بازیاب کروانے کے لیے خفیہ فوجی تیاریاں جاری تھیں اور دوسری طرف ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
سات اپریل کو امریکہ نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن میں ایران کے تمام سفارتی عملے کو امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ وہ آدھی رات تک ملک چھوڑ دیں۔
ایران کے نگراں سفیر کے ساتھ ملاقات میں امریکی حکام کی طرف سے سخت زبان استعمال کی گئی اور وہ ملاقات سے اٹھ کر چلے گئے۔ ایرانی سفیر نے اس واقعے پر بات کرتے ہوئے اخبار نویسوں سے کہا کہ ’میں کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ وہ میرے عملے کی بے عزتی کرے، گالیاں دے یا نامناسب لفظ استعمال کرے۔ میرے خیال میں تو آپ لوگوں کو اور آپ کی حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ آپ اب ہمیں دبا نہیں سکتے۔‘
آخر کار کسی سفارتی حل کی کوئی امید نہ ہونے کی وجہ سے صدر کارٹر نے 66 امریکی شہریوں کی بازیابی کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک آپریشن کی اجازت دے دی۔
مشن کی منصوبہ بندی
مائیک وائننگ کہتے ہیں کہ بہت سے مختلف طریقے موجود تھے لیکن تہران تک پہنچنے کے لیے طویل فضائی سفر سب سے مشکل مرحلہ تھا۔
یہ طے ہوا کہ پہلے مرحلے میں امریکی فوج کے خصوصی دستے اضافی ایندھن کے حامل سی 130 طیاروں کے ذریعے ایران کے اندر ایک دوردراز صحرائی علاقے میں اتارے جائیں گے جہاں سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان فوجیوں کو تہران کے قریب ایک اور مقام پر پہنچایا جائے گا جہاں یہ ایک دن چھپے رہنے کے بعد اگلی رات کارروائی کریں گے۔
آیت اللہ خمینی کے حکم پر امریکی سفارت خانے سے رہا کیے گئے خواتین اور افریقی امریکی افراد کا گروہ 18 نومبر 1979 کو تہران میں میڈیا سے گفتگو کر رہا ہے
مائیک وائننگ کہتے ہیں کہ کارروائی کی رات انھیں گاڑیاں مہیا کی جانی تھیں۔ ’تہران میں ہمارے لوگ موجود تھے جن کے پاس یہ گاڑیاں پہلے سے موجود تھیں اور ان کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ ہم ان میں چھپ سکیں، ان گاڑیوں کے پچھلے حصے میں جہاں سامان رکھا جاتا ہے۔ تاکہ جب یہ پولیس چوکیوں سے گزریں تو وہ سمجھیں کہ یہ معمول کا سامان ہے۔ ہمیں سفارت خانے کی دیوار تک جانا تھا اور پھر سیڑھیاں لگا کر دیوار پھلانگ کر اندر چلے جانا تھا۔‘
سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے اور مغویوں تک پہنچ جانے کے بعد آگے کے منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس دیوار میں شگاف ڈالنے کے لیے بارود تھا جس کے ذریعے ہمیں باہر نکلنا تھا اور پھر ایک قریبی فٹبال سٹیڈیم تک جانا تھا جہاں ہیلی کاپٹروں نے آنا تھا۔ ہماری پہلی ترجیح تمام مغویوں کو نکالنا اور اس کے بعد ریسکیو ٹیم کو نکلنا تھا۔‘
ایران میں سفارتی عملے کو یرغمال بنائے جانے کے 158 ویں دن سفارت خانے میں موجود شدت پسندوں نے دھمکی دی کہ اگر امریکہ نے کوئی فوجی کارروائی کی تو وہ مغویوں کو ہلاک کر دیں گے۔
مشن کے لیے تربیت
مائیک وائننگ اور ڈیلٹا فورس میں شامل ان کے ساتھیوں کو خطرے کی نوعیت کا اندازہ تھا کہ ایک معمولی سی غلطی مغویوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔
’فورٹ بریک کے فوجی اڈے کے احاطے میں ہم نے سفارت خانے کی عمارت کے جیسی ایک دیوار بنائی اور ہم نے دن میں کئی مرتبہ اپنی کِٹ پہن کر سارے ساز و سامان کے ساتھ اس دیوار پر چڑھنے اور اترنے کی تربیت کرنی شروع کی۔ ہم ایسا بار بار کرتے تھے تاکہ ہماری تکنیک بہترین ہو جائے اور ہم تیزی اور بالکل خاموشی سے ایسا کر لیں۔‘
اپنی کِٹ اور ساز و سامان کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ اس سب کا وزن بہت زیادہ تھا۔ ’ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کے علاوہ مجھے پانچ گیلن پانی اپنی پشت پر لاد کر دیوار کو عبور کرنا تھا۔‘
پانچ نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے بعد مظاہرین سفارت خانے کی دیوار پر کھڑے ہیں اور اس کے باہر جمع ہیں
انھوں نے بتایا کہ ’ہم اس مشن کے لیے اتنی سخت تربیت کر رہے تھے کہ میرے ذہن میں سوتے وقت بھی یہ ہی چل رہا ہوتا تھا کہ میں دیوار پر چڑھ کر سفیر کی رہائش گاہ سے گزر کر دوسری منزل پر باورچی خانے کے ذریعے اوپر والی منزل پر جا رہا ہوں۔ ہم اس کی مشق کرتے تھے۔‘
مشن کا دن
24 اپریل 1980 کی رات ڈیلٹا فورس چھ طیاروں کے ذریعے ایران کے صحرا میں اپنی پہلی منزل کی طرف روانہ ہوئی لیکن ان کے زمین پر اترنے سے پہلے ہی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔
خطرہ یہ تھا کہ لینڈ ہوتے ہی امریکی فوجیوں کی موجودگی کا پتہ چل جائے گا۔
’نیچے سڑک پر جس جگہ ہمیں اترنا تھا، اس کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ اس جگہ سڑک بالکل ویران ہو گی، لیکن اترنے سے پہلے ہم نے دیکھا کہ تین گاڑیوں کی بتیاں جل رہی ہیں۔۔۔ تین گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ لہٰذا ہم نے ایک چکر لگایا تاکہ یہ گاڑیاں گزر جائیں۔ جب ہم نے لینڈ کیا تو دیکھا کہ ایک گاڑی ہماری طرف آ رہی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ گاڑی قریب آئی تو ’ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ایک بس تھی۔ ہم نے بس کو روکا، اس میں کچھ ایرانی خاندان سوار تھے۔ ہم نے اس بس پر سوار 44 افراد کو یرغمال بنا لیا۔‘
لینڈنگ کے بعد 44 افراد کو یرغمال بنانے پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے منصوبہ بناتے وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایرانیوں کو اغوا کرنا پڑے گا۔ اب جب یہ ہمارے پاس تھے تو ہم نے سوچا کہ بس کو چھپا دیں اور ان ایرانیوں کو ملک سے باہر عمان لے جائیں اور بعد میں انھیں ہم چھوڑ دیں گے۔
’ہمارے پاس سڑک کو بلاک کرنے کی رینجر ٹیمیں تھیں اور ہمارا منصوبہ تھا کہ سڑک کو دونوں طرف سے بلاک کر دیں گے۔ جب ہم یہ کرنے جا رہے تھے تو کچھ اور گاڑیاں آتی نظر آئیں۔ اور اس مرتبہ ان دو گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جل نہیں رہی تھیں، جو کہ کچھ عجیب سا تھا۔‘
تہران کے امریکی سفارت خانے کی عمارت کے وہ سیف جو اب تاریخی نوادرات کی طرح محفوظ کر لیے گئے ہیں
ان گاڑیوں کے بارے میں وہ بتاتے ہیں ’پہلی گاڑی ایک آئل ٹینکر تھا۔ ہم سمجھے کہ یہ تیل کے سمگلر ہیں۔ رینجرز کی ٹیم نے ٹینک شکن راکٹ سے ٹینکر کو نشانہ بنایا، یہ ٹینکر کے نیچے پھٹا اور اس سے ٹینکر نے آگ پکڑ لی۔ اب ہمارے سامنے سڑک پر ایک گاڑی میں آگ لگی ہوئی تھی۔
’بہت بڑی آگ۔ اصل میں ٹینکر ایک زور دار دھماکے سے پھٹا اور ایسا لگا جیسے کوئی ایٹمی دھماکہ ہو گیا ہو۔‘
آگ کے بڑے شعلوں میں لپٹی ایک گاڑی اور ایران مغوی امریکی فوجیوں کو پیش آنے والی مشکلات کی صرف ابتدا تھی۔ امریکی فوج کے وہ ہیلی کاپٹر جن کے ذریعے انھوں نے آگے کا سفر کرنا تھا، اُن کی آمد تیز گرد آلود ہواؤں کی وجہ سے تاخیر کی شکار ہو رہی تھی۔
ہیلی کاپٹروں نے اپنا سفر شروع کر دیا تھا لیکن ان میں سے دو میں تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔
’آخر کار ہیلی کاپٹر وہاں پہنچ گئے۔ اور اب ہمیں ان میں ایندھن بھرنا تھا۔ جب ہم یہ کام کر رہے تھے تو ایک اور ہیلی کاپٹر کے ہائڈرالک نظام میں خرابی پیدا ہو گئی۔ ہمیں مشن کے لیے کم از کم چھ ہیلی کاپٹروں کی ضرورت تھی۔ سٹیڈیم سے ہر کسی کو لانے کے لیے ہمیں چھ ہیلی کاپٹر چاہیے تھے۔ ہانچ ہیلی کاپٹروں سے ہم اپنا مشن پورا نہیں کر سکتے تھے۔‘
یہ اطلاعات وائٹ ہاؤس کو پہنچا دی گئیں۔ صدر کارٹر نے فوجیوں کے اس مشن کو ادھورا چھوڑ کر واپس آنے کی منظوری دے دی۔
’اب منصوبہ یہ تھا کہ زمین پر اپنی موجودگی کے نشانات مٹانے کے بعد ٹرانسپورٹ طیاروں پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آئیں اور 48 گھنٹوں بعد یہ کارروائی دوبارہ کی جائے۔
تباہ شدہ طیارے کا ملبہ صحرا میں بکھرا پڑا ہے
مشن کی ناکامی
مائیک وائننگ بتاتے ہیں کہ ’ہم ٹرانسپورٹ طیاروں پر سوار ہو گئے لیکن ہمارے پیچھے دو ہیلی کاپٹر تھے۔ ان میں سے ایک ہیلی کاپٹر ہمارے راستے سے ہٹنے کے لیے فضا میں بلند ہوا۔ اس سے اتنی مٹی اڑی کہ یہ پائلٹ کے قابو سے باہر ہو گیا اور ہمارے جہاز کے اگلے حصے میں بائیں طرف ٹکرایا۔
وہ بتاتے ہیں ’ہم اندر تھے اور اس ہیلی کاپٹر کے پر جہاز کے ایندھن کے ٹینکوں میں لگے اور پھر ایک دھماکے سے طیارے میں آگ لگی گئی۔ آگ کے شعلے جہاز کے اندر آنے لگے۔ ہم جہاز کے ایندھن کے اضافی تھیلوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ پانی بھرے ایک بڑے گدے کی طرح تھا اور اگر کوئی حرکت کرتا تو سب اس پر اچھل پڑتے تھے۔
’آگ کے شعلے شدید ہوتے جا رہے تھے، جیسے ہی دروازہ کھلا اس سے ہوا کا شدید جھونکا اندر آیا اور زیادہ شعلے اندر آنے لگے۔ میں طیارے کے اگلے حصے میں تھا اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ میرے لیے دروازے تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا او میرے خدا میری زندگی کا اس طرح انجام ہونا تھا۔ یہ میرے آخری لمحات تھے۔‘
وہ کہتے ہیں ’آخر کار میں دروازے تک پہنچ گیا اور حیران تھا کہ دروازے تک کیسے پہنچ گیا۔ میں دروازے سے باہر نکلا تو لوہے کے ٹکڑے اڑ اڑ کر جا رہے تھے۔ جہاز کے اندر چھوٹے ہتھیار پھٹ رہے تھے۔ ہمارے کچھ دستی بم جہاز کے اندر پھٹے۔ ہمارے ایک میزائل میں آگ لگی اور ہم نے دیکھا کہ وہ جہاز کی تیل کی ٹنکی سے ٹکرا کر صحرا میں دور جا کر پھٹا۔
’ہم زمین پر کھڑے ایک اور طیارے کی طرف بھاگے لیکن اُنھوں نے ہمیں ہاتھ ہلا کر قریب آنے سے روک دیا۔ سب جہاز میں لگی آگ سے بچنا چاہتے تھے اور اس سے دور ہٹ رہے تھے۔ اسی لیے اُنھوں نے ہمیں قریب آنے سے روک دیا۔‘
لیکن مشکلیں یہاں ختم نہیں ہوئی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آخر کار میں ایک اور طیارے پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ جہاز نے جب دوڑنا شروع کیا تو وہ سڑک پر کسی چیز سے ٹکرایا۔ لیکن وہ فضا میں بلند ہوگیا۔ ہمارے جہاز کے چار انجنوں میں سے ایک خراب ہو گیا۔ طیارے کے عملے نے ہمیں بتایا کہ لینڈنگ گیئر بھی خراب ہو گیا ہے اور جب ہم عمان پہنچیں گے تو ہم لینڈنگ گیئر کے ذریعے لینڈ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن خوش قسمتی سے پائلٹ کی مہارت کی وجہ سے ہم محفوظ طریقے سے لینڈ کر گئے۔‘
مشن کے دوران ایک ہیلی کاپٹر سی ون تھرٹی سے ٹکرا گیا (فائل فوٹو)
طیارے میں ہونے والے دھماکے سے آٹھ فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور باقی فوجی واپس پہنچ گئے۔ اس طرح یہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک منصوبہ ایک گولی چلائے بغیر ہی بری طرح ناکام ہو گیا۔
ایران کے ایک وسیع صحرا میں امریکی فوجیوں کی لاشیں ریت پر بکھری پڑی تھیں۔ ایک سی 130 جہاز کا ملبہ بھی پڑا تھا۔
مائیک وائننگ کہتے ہیں کہ ’جب ہم ورجینیا واپس پہنچے تو صدر کارٹر نے ہم سب سے فرداً فرداً ملاقات کی اور جو ہم نے کرنے کی کوشش کی اس کی تعریف کی۔ صدر کارٹر نے اس مشن کی ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کی۔ ہم بہت مایوس تھے۔ ہم نے سخت تربیت کی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ یہ مشن کامیاب ہو۔‘
اس مشن کی ناکامی کے بارے میں مائیک وائننگ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک شخص یا ایک ادارے کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
بالآخر 444 روز عملے کو یرغمال رکھنے کے بعد انھیں 21 جنوری 1981 کو رہا کر دیا گیا۔
مائئک وائننگ امریکی فوج سے سارجنٹ میجر کے عہدے سے 1999 میں ریٹائر ہوئے اور اپنی فوجی خدمات کے عوض انھیں کئی فوجی اعزازات سے نوازا گیا۔
سفارتکاری کی دنیا میں میزبان ریاستیں اپنے ملک میں موجود دیگر ممالک کے سفارتخانوں اور قونصل خانوں کی حفاظت کو یقینی بناتی ہیں اور ایسا کوئی بھی حملہ اُس عمارت پر نہیں بلکہ اُس ملک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاستوں میں سے ایک امریکہ اور دنیا کی قدیم ترین سلطنتوں میں سے ایک ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کے خاتمے کا باعث بنا۔
Comments are closed.