بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’تمہارے لیے ایک ہی گولی کافی ہو گی، تم جاتی ہو یا میں گولی چلا دوں‘

افغانستان کی ٹی وی اینکر جو راتوں رات پناہ گزین بن گئیں، ’طالبان نے کہا کہ آپ نے بہت کام کر لیا، اب ہماری باری ہے‘

  • سودابا حیدری
  • بی بی سی نیوز

شبنم
،تصویر کا کیپشن

24 سالہ شبنم ایک ابھرتی ہوئی سٹار مانی جاتی تھیں

گذشتہ سال اگست میں جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تو ملک کی کئی خواتین کی زندگی راتوں رات بدل گئی تھی۔ ایک ٹی وی میزبان کے لیے یہ ناصرف ان کے کیریئر کا اختتام تھا بلکہ ان کی امید اور خواب بھی ٹوٹ گئے تھے۔

تقریباً ایک برس بعد اب وہ برطانیہ میں ایک پناہ گزین کے طور پر ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے سے ایک رات قبل، 14 اگست 2021 کو، شبنم دوران طلوع نیوز پر خبریں پڑھنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ چند ہی دنوں میں طالبان افغانستان کے دارالحکومت تک پہنچ چکے تھے۔

24 سالہ شبنم ایک ابھرتی ہوئی سٹار مانی جاتی تھیں۔ ہر تازہ خبر پیش کرنے وہ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوتی تھیں اور کئی ناظرین تک بریکنگ نیوز پہنچاتی تھیں۔

اس رات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت جذباتی ہو رہی تھی حتیٰ کہ مجھ سے شہ سرخی ہی نہیں پڑھی جا رہی تھی۔ گھر میں مجھے دیکھنے والوں کو علم ہو رہا تھا کہ میں کس کیفیت سے گزر رہی ہوں۔‘

اگلی صبح جب وہ نیند سے بیدار ہوئیں تو کابل کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں جا چکا تھا۔

سٹوڈیو میں جس کرسی پر ایک رات قبل شبنم نے بیٹھ کر خبریں پڑھی تھیں، وہاں اب ایک طالبان کا رکن براجمان تھا جس کے پیچھے ان کا جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔

People were sharing before and after screengrabs from Radio Television Afghanistan

،تصویر کا ذریعہRadio Television Afghanistan

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ ایک عہد کا اختتام تھا۔

طالبان کے ترجمان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں صحافیوں سے بھرے کمرے میں اعلان کیا تھا کہ اب خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکیں گی۔

اگلے دن ایک بے چین شبنم نے دفتر کا رخ کیا تو ان کو طالبان سپاہیوں کا سامنا کرنا پڑا جنھوں نے ان کو کہا کہ وہ دفتر کی حفاظت پر معمور ہیں اور صرف مرد ملازمین کو ہی اندر جانے کی اجازت ہے۔

شبنم کے مطابق ایک طالبان اہلکار نے ان کو کہا کہ ’ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ خواتین کے بارے میں کیا کرنا ہے۔‘ ایک اور اہلکار نے ان سے کہا کہ ’آپ نے بہت کام کر لیا، اب ہماری باری ہے۔‘

جب شبنم نے ان طالبان سے کہا کہ ان کو بھی کام کرنے کا حق حاصل ہے تو ایک فوجی نے اپنی بندوق ان پر تانتے ہوئے کہا کہ ’تمہارے لیے ایک ہی گولی کافی ہو گی، تم جاتی ہو یا میں یہیں گولی چلا دوں؟‘

شبنم نے دفتر سے واپسی تو اختیار کر لی لیکن انھوں نے طالبان اہلکاروں سے ہونے والی اس ملاقات پر تبصرے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر چلا دی۔ یہ ویڈیو وائرل ہو گئی جس نے ان کو اور ان کے خاندان کو خطرے میں ڈال دیا۔

شبنم نے ایک چھوٹے سے بیگ میں اپنی ضروری اشیا رکھیں اور چند ہی دن بعد ملک سے فرار ہو گئیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اور ایک بہن بھی ان کے ساتھ تھے۔

یہ بھی پڑھیے

Shabhnam and siblings standing in their local park in North London

ایک نئی زندگی

شبنم ہزاروں افغان شہریون کے ساتھ، برطانیہ پہنچیں جہاں ان کو ایک طویل انتظار کا سامنا تھا۔

ان کو انگریزی زبان نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے ان کے پاس ملازمت کے محدود مواقع تھے۔ اس نئی صورتحال کا سامنا کرنے میں ان کو کافی مشکل پیش آئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ وہ چھ سال جو میں نے افغانستان میں کام کرتے گزارے، کھو دیے ہیں۔ اب مجھے انگریزی سیکھنی تھی اور یونیورسٹی جانا تھا۔ پہلے چند دن تو میں شاپنگ پر بھی نہیں جا سکی۔ ہمیں کچھ چاہیے ہوتا تو ہم کسی سے کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ یہ بہت مشکل اور تکلیف دہ تھا۔‘

ایک سال بعد بھی زیادہ تر افغان پناہ گزین برطانیہ بھر میں ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں۔ شبنم اس معاملے میں خوش قسمت رہی ہیں۔ ان کو ایک کونسل گھر اسی سال کے آغاز میں فراہم کر دیا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب ہماری زندگی شروع ہوئی ہے۔ ہم ایک ایسے بچے کی طرح ہیں جس نے سب کچھ شروع سے کرنا ہے۔‘

شبنم کے چہرے پر یہ کہتے ہوئے ایک مسکراہٹ ہے۔ وہ اپنی بہن مینا کو تاکید کرتی ہیں کہ روایتی افغان سبز چائے بنانے کے لیے کیتلی تیار کرے۔

Shabhnam and her sister Meena in the kitchen of their new home

رفتہ رفتہ شبنم، ان کے بھائی اور بہن، لندن کی نئی زندگی کے عادی ہو رہے ہیں۔ ان کو گھر کی یاد تو آتی ہے لیکن اس بار انھوں نے پہلی بار انگلش موسم گرما کا بھی مزہ چکھا ہے۔

وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اب تو میں یہاں کی مقامی ہوں۔‘ وہ جانتی ہیں کہ ان کو افغانستان جیسی گرم بریڈ کون سی بیکری سے ملے گی اور سب سے بہترین ڈرائی فروٹ اور قہوہ کہاں سے مل سکتا ہے۔

شبنم اور ان کی بہن ایک کالج میں انگریزی سیکھ رہے ہیں جبکہ ان کے بھائی سیکنڈری سکول میں پڑھ رہے ہیں۔

شبنم کا ماننا ہے کہ برطانوی حکومت نے ان کا بہت ساتھ دیا لیکن ان کو دیگر افغان پناہ گزینوںکی بہت فکر ہے جن میں سے کچھ ان کے دوست بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یوکرین جنگ نے افغان پناہ گزینوں کی مشکلات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’افغان شہریوں کے کیس، خصوصاً جو ہوٹلوں میں پھنسے بیٹھے ہیں، میں بہت وقت لگ رہا ہے کیونکہ یوکرین سے پناہ گزین آ گئے۔ برطانوی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کی حد مقرر کی لیکن یوکرین سے آنے والوں کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں۔ ان کو افغان شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔‘

بی بی سی نے ان کے یہ خدشات برطانوی وزارت داخہ کے سامنے رکھے تو ان کی جانب سے جواب دیا گیا کہ ’دو گروہوں کا مقابلہ کرنا درست نہیں ہو گا۔ افغان شہریوں کی سکیم کے تحت 20000 خواتین، بچوں اور دیگر گروپس کو قانونی طریقے سے برطانیہ میں بسایا جائے گا۔‘

’ان کی رہائش کی ضرورت کو پورا کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ہم 300مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کی مدد سے ملک بھر میں اس کے لیے کام کر رہے ہیں اور جون 2021 سے اب تک چھ ہزار کے قریب لوگوں کو گھروں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔‘

A TV presenter wearing a face covering

،تصویر کا ذریعہReuters

افغانستان میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد سے شبنم کا ملک بہت بدل چکا ہے۔ لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی ہے اور خواتین کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔

اس قانون نے خواتین ٹی وی میزبانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ شبنم اپنے ساتھیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں جن کو اپنا کام کرنے کے لیے نقاب کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’طالبان چاہتے ہیں کہ خواتین کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ خود ہی کہیں کہ ہم کام نہیں کرنا چاہتیں اور اب گھر بیٹھنے کو تیار ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ جب تک طالبان اپنی سوچ تبدیل نہیں کر لیتے، وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی نہیں لا سکتے۔

شبنم اب بھی ایک دن افغانستان واپس لوٹنے کا خواب دیکھتی ہیں۔

’جیسے ایک شیشہ گر کر توٹ جاتا ہے، میرے منصوبے، امیدیں اور خواب بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ ایک دن افغانستان ایک ایسا مقام ہو گا جہاں لوگ صرف زندہ ہی نہیں رہیں گے بلکہ خوشحال ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ تب میں واپس لوٹ سکوں گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.