سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایک تفتیشی افسر چار سال تک لاپتا افراد شخص کا سراغ نہیں لگا پاتا تو اسے تبدیل کرنا چاہیے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کے کے آغا نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
اس دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر، ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن اور دیگر پولیس حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس کے کے آغا نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود اپنے ارد گرد دیکھیں کتنے لوگ موجود ہیں، بیشترافراد کا کوئی نہ کوئی لاپتا ہے اس لیے سب کے دل جلے ہوئے ہیں۔
جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ کافی عرصے سے شہری لاپتا ہیں کسی طرح تو ان کو واپس لانا ہوگا۔
جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ ہر کیس جبری گمشدگی کا بھی نہیں، کچھ لوگ ازخود روپوش ہیں، کچھ کی ذاتی دشمنیاں بھی ہیں، کچھ افراد خود سے مفرور ہیں اور کچھ خود سے لاپتا بھی ہیں مگر ہم جائزہ لے رہے ہیں۔
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ آپ اور آپ کی پولیس اچھا کام کر رہی ہے، عدالت کی جانب سے جو حکم نامہ سامنے آتا ہے اس پر بھی عملدرآمد کرنا ہوگا، روایتی رپورٹس آپ کے دستخط سے آتی ہیں وہ ہمارے لیے باعث شرم ہیں۔
عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ بلاشبہ لاپتا افراد کا سراغ لگانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس دوران وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عارف حسین کئی سال سے لاپتا ہے اب تک سراغ نہیں لگایا جاسکا۔
اس پر آئی جی سندھ مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو لکھ چکے ہیں۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ نجی بینک براہ راست پولیس کو جواب نہیں دیتے، تفصیلات حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو لکھنا پڑتا ہے۔
اس دوران عدالت کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو لاپتا افراد کے اکاؤنٹس کی تفصیلات پولیس کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے لاپتہ افراد کی گمشدگی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی گئی۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے پی ٹی ایف اور جے آئی ٹی رپورٹس کی روشنی میں تفتیشی افسر کو لاپتا افراد کا سراغ لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.