بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اب عام عینک کو نائٹ وژن میں تبدیل کرنا ممکن ہے

آسٹریلیا: ہم فلموں میں رات میں دکھائی دینے والی،’نائٹ وژن‘ عینکیں دیکھتے ہیں جو بہت بھاری بھرکم ہوتی ہیں اور عموماً فوجی رات کے وقت ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے ہمیں دن کی روشنی میں دکھائی دیتا ہے۔ اب ایک انقلابی ٹیکنالوجی سے عام عینکوں کو بھی نائٹ وژن بنایا جاسکتا ہے۔ اس ایجاد کا دل نینوکرسٹل ٹیکنالوجی نے جنہیں نائٹ وژن پرت (فلم)کی صورت دی جاسکتی ہے۔

آسٹریلیئن نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کی ڈاکٹرریشیوکاماچومورال نے یہ اہم کام کیا ہے۔ انہوں نے بالکل نئی ٹیکنالوجی وضع کی ہے جو جس کے لیے ایک باریک پرت (فلم) بنائی گئی ہے اور اسے براہِ راست کسی بھی شیشے پر چسپاں کرکے روشنی کو فلٹر کیا جاسکتا ہے۔ بس صرف ایک اضافی لیزر درکار ہوتی ہے جو انفراریڈ (زیریں سرخ) روشنی کو تصاویر میں بدل دیتی ہے اور پہننے والا اطراف کے مناظر دیکھ سکتا ہے۔

یہ باریک جھلی کئ سال کی محنت سے بنائی گئی ہے جس میں نینوکرسٹل ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اس میں انسانی بال سے بھی سینکڑوں گنا باریک ذرات استعمال کئے گئے ہیں جو انفراریڈ روشنی کو عام دکھائی دینے والے (مرئی) فوٹون میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس طرح انسان رات کےاندھیرے میں بھی صاف منظر دیکھ سکتا ہے۔

اس ضمن میں اے این یو نے 2016 میں پہلا تجربہ کیا تھا۔ اس میں موجود فوٹون کو بدلنے والے کرسٹلز انسانی آنکھ کو منظر بدل کر دکھاتے تھے۔ پھر اسے بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اب جو نمونہ (پروٹوٹائپ) بنایا گیا ہہے جو بہت سستا، کم وزن اور تجارتی پیمانے پر تیار کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح نادیدہ کو دیدہ بنانے والا ایک مؤثر اور کم خرچ نظام بنایا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں بھی مختلف اشیا سے انفراریڈ شعاعیں خارج ہوتی رہتی ہیں لیکن انسانی آنکھ انہیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس ضمن میں نینومیٹر پیمانے پر انتہائی باریک جھلی بنائی گئی ہے جسے براہِ راست کسی بھی شیشے پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد عام لیزر پوائنٹر کی طرح ایک لیزر شعاع درکار ہوتی ہے جو نینوکرسٹلز سے مل کر انفراریڈ کو اس طرح فلٹر کرتی ہے کہ انسانی آنکھ اس روشنی کو دیکھ سکتی ہے۔

اس وقت نائٹ وژن نظام اور عینکیں بہت بھاری بھرکم ہوتی ہیں اور بجلی کھاتی رہتی ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان سب کو بدل سکتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل آف ایڈوانسڈ فوٹونکس میں شائع ہوئی ہے۔

You might also like

Comments are closed.