ترک صدر اردوغان سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو رکنیت کے خلاف کیوں ہیں؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

گذشتہ برس سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دی تھی۔ نیٹو مغربی ممالک کا ایک فوجی اتحاد ہے۔

نیٹو میں کسی بھی ملک کی شمولیت کے لیے نیٹو کے تمام 30 ارکان کی رضامندی ضروری ہے لیکن سویڈن میں ترکی مخالف مظاہروں کے بعد ترکی نے ان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔

نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ایک دفاعی فوجی اتحاد ہے۔ اسے 1949 میں 12 ممالک نے مل کر بنایا تھا۔ اس کے بانی ارکان میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور فرانس شامل تھے۔

نیٹو کے ارکان کسی غیر ملکی طاقت کے حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ نیٹو کا اصل مقصد دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کو یورپ میں چیلنج کرنا تھا۔

سنہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کے کئی سابق اتحادیوں کو بھی نیٹو کی رکنیت دی گئی۔ یہ ممالک پہلے سوویت یونین کے فوجی اتحاد وارسا معاہدے کا حصہ تھے۔

روس کا ایک عرصے سے یہ خیال رہا ہے کہ نیٹو میں مشرقی یورپ کے ان ممالک کی شمولیت کے بعد اس کی سلامتی کو لاحق خطرہ بڑھ گیا ہے۔ روس یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے ارادوں کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ نیٹو اس کی سرحدوں تک پہنچے۔

ترکی، سویڈن اور فن لینڈ کی راہ میں کیسے رکاوٹیں ڈال رہا ہے؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

جون 2022 میں سویڈن اور ناروے نے مل کر نیٹو میں شمولیت کی درخواست دی تھی۔ کسی بھی نئے رکن کی شمولیت کے لیے نیٹو کے تمام 30 ارکان کی رضامندی ضروری ہے۔ 28 ممالک نے اس درخواست پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن ہنگری اور ترکی نے ابھی تک اس پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن پہلے ان 150 ترک شہریوں کو ترکی کے حوالے کریں جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

یہ افراد کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ (PKK) سے وابستہ ہیں۔ ترکی میں پی کے کے پر پابندی عائد ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تمام افراد سنہ 2016 میں ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش میں ملوث رہے ہیں۔

سویڈن اور فن لینڈ کا کہنا ہے کہ حوالگی عدالتوں کا کام ہے۔ دونوں ممالک ترکی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مذاکرات کا اگلا دور فروری میں شروع ہونا تھا۔

جنوری میں کچھ کارکنان نے شام میں کرد جنگجوؤں پر ترک فوج کے حملے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کا پتلا بھی نذر آتش کیا تھا۔

ایک ہفتے بعد، سویڈن میں ایک انتہائی دائیں بازو کے گروپ نے مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن کے نسخوں کو نذر آتش کیا تھا۔ ان واقعات کے پیش نظر صدر اردوغان نے مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے۔

کیا اس مخالفت کا صدارتی الیکشن سے کوئی تعلق ہے؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

انگلینڈ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں یورپی امور کے ماہر ڈاکٹر جوناتھن آئل کا خیال ہے کہ اردوغان اپنے ملک میں صدارتی انتخابات مکمل ہونے تک سویڈن اور فن لینڈ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔

وہ کہتے ہیں ’اردوغان اس تنازعے کو اپنی شبیہ بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔ وہ چاہیں گے کہ ترک ووٹر انھیں بین الاقوامی سطح پر ایک بڑا لیڈر سمجھیں۔‘

سویڈن کے لیے، روس بحیرۂ بالٹک کے اس پار واقع ہے اور فن لینڈ کی روس کے ساتھ 1,340 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سات دہائیوں تک دونوں ممالک نے نیٹو میں شامل ہونے کے بجائے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یوکرین پر روس کے حملے نے صورتحال بدل دی ہے۔ اب یہ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ نیٹو میں اپنی شمولیت کے عمل کو تیز تر کرے۔

کنگز کالج لندن کے شعبہ دفاعی علوم کی پروفیسر ٹریسی جرمن کہتی ہیں کہ ’روسی حملے کے بعد انھیں یقین ہو گیا تھا کہ نیٹو جیسی بڑی فوجی تنظیم ہی ان کی حفاظت کر سکتی ہے۔‘

یہ دونوں ممالک نیٹو افواج میں دو لاکھ 80 ہزار فوجیوں کا اضافہ کریں گے۔ اس کے ساتھ نیٹو کو 200 لڑاکا طیارے بھی ملیں گے۔

تاہم پروفیسر جرمن کا کہنا ہے کہ اگر ترکی طویل عرصے تک سویڈن اور فن لینڈ کا راستہ روکتا ہے تو ان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’سویڈن اور فن لینڈ کو انتظار میں لٹکائے رکھنا انھیں ایک عجیب و غریب صورتحال سے دوچار کرے گا۔ ایسی صورت میں یہ ممالک روسی دباؤ اور مداخلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نیٹو اتحاد کی بنیاد سنہ 1949 میں سرد جنگ کے اوائل میں رکھی گئی تھی

نیٹو ممالک یوکرین کی حمایت کیسے کر رہے ہیں؟

امریکہ 31 ابرامز ٹینک بھیج رہا ہے۔ برطانیہ سے 14 چیلنجر-ٹو ٹینک یوکرین پہنچ رہے ہیں اور جرمنی 14 لیپرڈ-ٹو ٹینک بھیج رہا ہے۔

پولینڈ، فن لینڈ، ناروے، ہالینڈ اور سپین کا کہنا ہے کہ وہ بھی ٹینک یوکرین بھیجیں گے۔

یوکرین کے پاس ہیمار جیسا لانگ رینج دفاعی میزائل سسٹم بھی ہے۔ اس کے علاوہ ٹینک شکن میزائل، بکتر بند گاڑیاں، ہاؤٹزر اور ڈرون بھی یوکرین پہنچ رہے ہیں۔

اگرچہ امریکہ نے یوکرین کو ایف-16 لڑاکا طیارے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ یوکرین انھیں روس پر حملوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو روس اسے امریکہ کی طرف سے اعلان جنگ سمجھ سکتا ہے۔

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نیٹو یوکرین میں فوج کیوں نہیں بھیج رہا؟

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے، نیٹو نے مشرقی یورپ میں 40,000 فوجی تعینات کیے ہیں۔ یہ فوجی لتھوانیا اور پولینڈ میں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ تین لاکھ فوجی ہائی الرٹ پر ہیں۔

لیکن یوکرین کی سرزمین پر نیٹو کی کوئی فوج موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکرین میں نیٹو دستوں کے داخل ہونے سے یہ جنگ روس بمقابلہ نیٹو بن جائے گی۔ اور نیٹو کے ارکان خوفزدہ ہیں کہ اس سے جنگ پھیل جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ نیٹو ممالک نے بھی یوکرین کو نو فلائی زون قرار نہیں دیا۔

گیٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین نیٹو کا رکن کیوں نہیں ہے؟

نیٹو نے 2008 میں کہا تھا کہ یوکرین مستقبل میں اس کا رکن بن سکتا ہے لیکن حال ہی میں نیٹو نے یوکرین کی رکنیت کے عمل کو تیز کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

کیونکہ نیٹو کے چارٹر کے آرٹیکل فائیو کے مطابق کسی بھی رکن پر حملہ نیٹو کے تمام ارکان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

ایسے میں اگر یوکرین کو رکن بنایا جاتا ہے تو تکنیکی طور پر نیٹو کو روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونا پڑے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ