connect roku straight to internet not wifi without ethernet hookup black gay hookup coyote hookup hookup Telford Pennsylvania 17 year old hookup

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

بیلاروس کی حکومت مخالف کارکن جنھیں 11 سال قید کی سزا پر کوئی افسوس نہیں

ماریہ کولِسنی کووا: بیلاروس کی حکومت مخالف کارکن جنھیں 11 سال قید کی سزا پر کوئی افسوس نہیں

  • سارا رینزفرڈ
  • نامہ نگار، بی بی سی ماسکو

Maria Kolesnikova, the last remaining protest leader still in Belarus, gestures making a heart shape

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماریہ کولِسنی کووا بیلاروس میں سنہ 2020 میں ہونے والے متنازعہ انتخابات کے خلاف احتجاج کے دوران حزب اختلاف کی ایک نمایاں رہنما بن کر ابھری ہیں۔

ایک برس پہلے بیلاروس کی سیکیورٹی فورسز نے ماریہ کولِسنی کووا سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن حزبِ اختلاف کی اس رہنما نے اپنا پاسپورٹ پھاڑتے ہوئے اور کار کی کھڑکی سے باہر چھلانگ لگاتے ہوئے ملک چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔

حکومت پر قبضے کی سازش کے الزام میں سزا پانے کے بعد کسی بھی میڈیا ادارے کو دیے گئے سب سے پہلے انٹرویو میں ماریہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس پورے سال میں حکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ میں نے جو کچھ کیا اُس پر ندامت محسوس کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کروں۔’

‘میں (اس دوران) بغیر ہوا والی گرم اور ٹھنڈی کوٹھڑیوں میں رکھی گئی ہوں، قیدِ تنہائی میں رہی ہوں۔ میں نے پورا ایک برس کسی اور کے بغیر گزارا۔’

ماریہ ان سینکڑوں سرگرم سیاسی کارکنوں میں سے ایک ہیں جنھیں گذشتہ برس ہونے والے متنازعہ انتخابات کے خلاف ملک بھر میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

گذشتہ برس ان ناقابلِ اعتبار سمجھے جانے والے انتخابات میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کو قاتح قرار دیا گیا تھا۔

احتجاج کرنے والوں میں کئی ایک کو بری طرح زد و کوب کیا گیا تھا اور بہت سے افراد کو ماریہ کی طرح زبردستی ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ صدر لوکاشینکو بیلاروس میں سنہ 1994 سے اقتدار میں ہیں جو اختلافِ رائے کرنے والوں کو بری طرح کچل دیتے ہیں۔

ماریہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جیسے ہی انھوں نے تحریری انداز میں ملک بدری کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی تھی تو اس وقت انھیں معلوم ہو گیا تھا کہ ‘اگر انھوں نے مجھے قتل نہ بھی کیا تو کم از کم وہ مجھے قید میں ضرور ڈال دیں گے۔ جو اس نظام کو چلا رہے ہیں انھوں نے میرے ہر شک کو دور کر دیا تھا (کہ وہ ایسا ہی کریں گے)۔’

‘لیکن مجھے کسی بات کا افسوس نہیں ہے۔ (اگر مجھے ایک اور موقع ملا تو) میں دوبارہ بھی ایسا ہی کروں گی۔’

’ہم میں سے کوئی بھی آزاد نہیں ہے‘

اُن کے اس سرکش رویے نے اُنھیں اُن لوگوں کا ہیرو بنا دیا جو لوکاشینکو کی آمرانہ حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ گذشتہ انتخابات میں انھیں کامیاب کروانے کے لیے زبردست دھاندلی کروائی گئی تھی۔

ماریہ کو گیارہ برس قید کی سزا دی گئی ہے۔

Belarusian opposition activists Maxim Znak and Maria Kolesnikova

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماریہ کولِسنی کووا (دائیں جانب) کو ان کے ایک ساتھی اور حزب اختلاف کے وکیل، میکسِم زنیک، کے ہمراہ ایک بند کمرے کی عدالت نے سزائیں سنائیں۔

ماریہ نے اپنے خلاف قائم کردہ مقدمے کو ‘بے کار’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلاروس میں ’مثبت تبدیلی‘ لانے کا ان کا مقصد عوام میں اتنا مقبول ہو گیا ہے کہ حکام اب اسے نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔

پچھلے برس اگست میں ہونے والے انتخابات کے بعد ملک گیر بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں کو پولیس نے کچل دیا تھا اور ایسے واضح ثبوت ہیں کہ ان مظاہروں کے خلاف پُر تشدد طاقت استعمال کی گئی تھی۔

وسیع سطح پر لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا، ویاسنا ہیومن رائیٹس گروپ کے مطابق 700 سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں اس گروپ کے ارکان بھی شامل تھے۔

ماریہ نے اپنی جیل کی کوٹھڑی سے بی بی سی کو لکھا کہ ’مجھے صرف ایک بات کا افسوس ہے کہ بیلاروسی اس وقت خوف زدہ ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی آزاد نہیں ہے‘

’مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے مزاج اور اپنی زندگی کے برعکس عوام کے خلاف خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا۔‘

آزادی کی علامت

کلاسیک بانسری بجانے والی ماریہ کولِسنی کووا نے سیاست میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب وہ ایک بینکار، وکٹور بابریکو کی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ اس بینکار نے ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے سنہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

جب ان کے امیدوار کو گرفتار کیا گیا تو ماریہ نے سوِٹلانا ٹِخانو وسکایا کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنائی۔ سوِٹلانا انتخابی مہم کے دوران حیران کن حد تک عوام میں مقبول ہو گئیں جب ان کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔

Viktoria Tsepkalo, Svetlana Tikhanovskaya, and Maria Kolesnikova

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماریہ کولِسنی کووا (دائیں جانب) نے سنہ 2020 کے انتخابی مہم کے دوران سوِٹلانا ٹخانو وسکایا (درمیان) کی صدارت کے لیے حمایت کی۔

یہ خواتین صدر لوکاشینکو کی ربع صدی پرانی حکومت کے لیے مزاحمت کی علامت بن گئیں اور انھوں نے تبدیلی کی ایک طاقتور لہر پیدا کی۔

لیکن جلد ہی سوِٹلانا کو اپنی حفاظت کے لیے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ پھر کولِسنی کووا کو مِنسک میں ایک وین میں بند کر کے کسی نامعلوم مقام پر غائب کردیا گیا۔ اس برس انھیں ان کے سیاسی ساتھی اور وکیل میکسیم زنیک کے ہمراہ اگست میں بند کمرے کی عدالت نے سزا سنائی۔

جیل بہت گندی جگہ ہے

جیل میں 8 فٹ چوڑی اور 11 فٹ لمبی کوٹھڑی ان کا مسکن ہے ‘جہاں اوپر نیچے دو بستر (بنک بیڈ) لگے ہوئے ہیں، ایک ٹوائلٹ ہے، ایک واش بیسن ہے، ایک ٹی وی، ایک کیتلی دی گئی ہے، ایک مگ، ایک پیالہ، ایک میز، ایک بینچ ہے اور ایک کھڑکی بھی ہے جس سے آسمان دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔’

ماریہ کہتی ہیں کہ جیل میں ورزش کے لیے صحن بہت چھوٹا ہے، لیکن وہ اس میں پھر بھی 50 منٹ تک دوڑتی ہیں۔

وہ اپنے دن کا باقی وقت جرمن اور انگریزی زبان پڑھنے اور لکھنے میں صرف کرتی ہیں اور ہر مہینے 200 خطوط لکھتی ہیں۔ انھیں صرف ایک بات کی شکایت ہے، وہاں ‘ہر شخص ہر وقت سگریٹ پیتا رہتا ہے،’ جو کہ اُن کے پھیپڑوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ وہ بانسری بجاتی ہیں۔

لیکن ماریہ کی رائے ان کے بانسری بجانے کے پس منظر کی وجہ سے بنی ہے۔

Alexander Lukashenko

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الیگزینڈر لوکاشینکو جو سنہ 1994 سے اقتدار میں ہیں، وہ اپنی حکومت کے خلاف کسی بھی آواز کو کچل دینا چاہتے ہیں

"وہ اپنے جیل سے لکھتی ہیں کہ ’کلاسیکی موسیقار عام طور پر اپنی برسوں کی ریاضت کی وجہ سے ایک فوجی نظم و ضبط اپنا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو خوب مضبوط بنا لیتے ہیں۔’ اور اس طرح انھوں نے نئی حالت میں اپنے آپ کو رہنے کے قابل بنا لیا ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ‘جیل ایک بہت ہی گندی جگہ ہے۔ لیکن میں یہاں اپنے آپ کو ایک آزاد اور خوش شخص محسوس کرتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ میرا کتنا زیادہ خیال کرتے ہیں اور میرے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ سوچ ہی مجھے اپنی جد و جہد جاری رکھنے کے لیے انتہائی ہمت اور طاقت بخشتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ بالآخر حق کی فتح ہوتی ہے۔’

مسکراتی ہوئی سرگرم کارکن

یہ خوشگوار شخصیت اس وقت پورے بیلاروس میں بہت مشہور ہوچکی ہے۔

مظاہروں کے دوران بانسری بجانے والی موسیقار جو سیاسی کارکن بن گئی، کیسے بھی حالات ہوں ہمیشہ مسکراتی نظر آتی ہیں، ان کے لبوں پر پھیلی سرخی، سنہری بال جو کہ حزبِ اختلاف کے پرچم کے رنگ سے ملتا جلتا ہے، ایک خوشگوار علامت بن چکی ہیں۔

اس کے علاوہ ماریہ ان سے حاصل ہونے والی توانائی، جذبے اور جرات کا بہت ذکر کرتی ہیں۔

Maria Kolesnikova at a protest, with riot police seen behind her

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماریہ کولِسنی کووا نے بیلاروس سے باہر نکال دیے جانے کی سرکاری کوششوں کے خلاف مزاحمت کی تھی

ماریہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ‘جب مجھے اپنی سزا کی اصل وجہ یاد آتی ہے کہ حکام اور ان کی اپنی مرضی کی عدالتوں نے دراصل میکسم اور مجھے اتنی لمبی سزا سنائی تو مجھے اتنی دیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے میں ایک راحت ملتی ہے اور میں زیادہ خوشی محسوس کرتی ہوں۔’

اُنھوں نے دلیل دی کہ ‘اقتدار پر قبضہ کرنے کی اصل سازش الیگزینڈر لوکاشینکو کی حکومت نے بنائی ہے۔ ہم ملک میں مثبت تبدیلی چاہتے تھے اور ہم ایسا کر رہے تھے۔ میرے لیے یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ یہ حکومت اسے جرم سمجھتی ہے۔’

کوئی غلط فہمی نہیں ہے

ماریہ کے سابق وکیل نے، جن کی وکالت کا لائسنس ان کا دفاع کرنے کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا ہے، بی بی سی کو بتایا کہ اس پورے عمل کا مقصد ان دونوں خواتین کو بیلاروس کے معاشرے سے الگ کرنا تھا۔

ماریہ کا خود کہنا ہے کہ بیلاروسیوں کو اب ملک میں منصفانہ عدالتوں کے بارے میں کوئی ‘غلط فہمی نہیں’ ہے۔

اُنھوں نے لکھا کہ ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ ‘ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں کوئی آزاد عدالتیں یا جج نہیں ہیں۔ وہ سب حکومت کی خدمت پر مامور ہیں۔’

ماریہ کے حامیوں کو یقین ہے کہ وہ اپنی سزا پوری نہیں کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں حکام کی جانب سے وحشیانہ کارروائیوں کے باوجود بیلاروس میں جلد سیاسی تبدیلی آئے گی۔

ماریہ کولیسنی کووا اسی امید پر قائم ہیں۔

جب بی بی سی نے ان کے ٹرائل کے ابتدائی دن اُن کے رقص کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ ‘بجائے اس کے کہ آپ تکلیف اٹھائیں، بہتر ہے کہ آپ رقص کریں۔’

ماریہ نے لکھا کہ ‘وہ ہمیں جیل میں بند کر سکتے ہیں، ہمیں لوگوں سے دور چھپا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب، ان کا خوف، نفرت اور ان کی بیڑیاں، ہمارے گیتوں اور قہقہوں، ہمارے رقص اور ہماری محبت سے پاش پاش ہو جائیں گے۔’

(سارا رینزفرڈ کو ماسکو سے بےدخل کردیا گیا تھا)۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.