پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بانی ہیں، پیپلز پارٹی کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں شیری رحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم کا کوئی آئین نہیں جو کسی کو بھی جوابدہی کا پابند بناتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی چارج شیٹ کے ذریعے جوابدہ نہیں ہیں، پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) سوچے گی کہ کیا جواب دینا ہے۔
پی پی رہنما نے مزید کہا کہ ڈکٹیشن کے ماحول میں جمہوری اتحاد نہیں چلتے، ہم چاہتے ہیں گفت و شنید ہو اور بہتر ماحول میں بات کی جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کون پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈال رہا ہے؟، مسلم لیگ ن جس نہج پر اتحاد کو لے آئی ہے وہ سوچے کہ ہم کس کو ہدف بنانا چاہتے ہیں، پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو تو اپوزیشن اتحاد کے بانی ہیں۔
شیری رحمٰن نے یہ بھی کہا کہ سلیکٹڈ سرکار کو ہٹانا بہت ضروری ہے، ہمارا ہدف حکومت ہے، جس نے ملک کے تمام ادارے تباہ کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سلیکٹڈ کیلئے راستے کھلے نہیں چھوڑنا چاہتے، یہ عدم اعتماد لائیں، عمران خان کی حکومت جھونکے کی طرح گرنے والی ہے۔
پی پی کی سینئر رہنما نے کہا کہ عمران خان کو اپنے آپ سے خطرہ ہے، وہ کلہاڑیاں اپنے پاؤں پر مار رہے ہیں، ہم ڈٹ کر اپوزیشن کی تحریک چلائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم تو لانگ مارچ کیلئے تیار تھے، استعفوں پر بات کرنے کو تیار تھے، ہم پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں سے رابطوں میں ہیں، ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کس طرح سے آگے بڑھیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 21 رکنی اکثریت کی بنیاد پر ہی قائد حزب اختلاف سینیٹ بنایا گیا، ایک دوسرے پر تنقید پی ڈی ایم سے نہیں ہونی چاہیے تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم میں ایک دوسرے پر فائرنگ درست نہیں اور ہمیں چارج شیٹ قطعی قبول نہیں۔
پی پی رہنما نے یہ بھی کہا کہ دلاور صاحب مسلم لیگ ن سے آئے ہوئے ہیں، انہوں نے 4 کا گروپ بنایا، ان کو ہم کیوں نا لیں؟، جمہوریت میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ کس منہ سے معیشت کی سمت درست کرنے کے دعوے کرتے ہیں؟، 2022 تک سرکاری قرضے شرح نمو کا 94.4 فیصد ہوجائیں گے۔
شیری رحمٰن نے یہ بھی کہا کہ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی37 فیصد ورک فورس بیروزگار ہے، آئی ایم ایف کو لگتا ہے پاکستان کی گروتھ 1 اعشاریہ 5 فیصد ہوگی، اس کا مطلب ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔
Comments are closed.