برطانیہ کے پاکستانی خاندانوں میں کزن میرجز میں کمی: ’میرے بچوں نے کہا خبردار ہم سے کچھ ایسا کروایا‘
،تصویر کا ذریعہPISHDAAD MODARESSI CHAHARDEHI
- مصنف, سو مچل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
ایک ریسرچ کے مطابق گذشتہ 10 سالوں کے دوران برطانیہ کے شہری بریڈفورڈ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں اپنے کزنز میں شادی کرنے کے رجحان میں بڑی کمی آئی ہے۔ اس کی ممکنہ وجوہات اعلیٰ تعلیم کا حصول، نئے خاندانی رجحانات اور امیگریشن کے قوانین میں تبدیلی ہے۔
’کزن میرج‘ کا مطلب ہے کہ اپنے والدین کے بہن بھائیوں کے بچوں یا ان کے رشتہ داروں کے بچوں کے ساتھ شادی کرنا۔
1988 میں جویریہ احمد نے اپنے کزن کے ساتھ شادی کی۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بار ان کے بچوں نے ان سے پوچھا کہ وہ ان کے والد سے پہلی بار کب اور کیسے ملی تھیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں ان پر ہنسنے لگی۔ میں نے انھیں کہا میں ان سے ملی نہیں تھی۔ میرے والدین مجھے پاکستان لے کر گئے اور میرے والد نے کہا آپ اس شخص سے شادی کریں گی۔ اور مجھے ایک قسم کا پتا تھا وہ کون ہیں، لیکن پہلی بار میں صحیح سے ان سے اپنی شادی پر ملی تھی۔‘
’میرے بچوں نے کہا کہ یہ کراہت انگیز ہے۔ پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ ’خبردار ہم سے کچھ ایسا کروایا تو‘۔‘
10 سال قبل بریڈفورڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں 30 ہزار لوگوں کا مطالعہ کیا گیا تھا اور اس میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستانی کمیونٹی میں پیدا ہونے والے 60 فیصد بچوں کے والدین ایک دوسرے کے کزنز یا قریبی رشتہ دار ہیں۔ لیکن اس کے بعد اندرون شہر کے تین وارڈز میں ماؤں پر تحقیق ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ یہ رجحان کم ہو کر 46 فیصد ہو گیا ہے۔
پہلی تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کزنز میں شادیوں کے نتیجے سے پیدا ہونے والی بچوں میں پیدائشی بیماریوں کے خطرات دگنے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایسا بہت کم ہوتا ہے، کزنز کے بچوں میں چھ فیصد میں ایسے نقائص آتے ہیں۔
بارن ان بریڈفورڈ تحقیق پراجیکٹ کے چیف انویسٹیگیٹر جان رائٹ کا کہنا ہے کہ ایک دہائی کے اندر اندر ایک بڑی تبدیلی آئی ہے جہاں کزنز میں شادی کرنا اکثریتی سے اقلیتی فعل بن گیا ہے اور اس کے نتیجے میں بچوں میں پیدائشی نقائص کم ہوں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
2021 کی مردم شماری کے مطابق بریڈ فورڈ کی تقریباً 25 فیصد آبادی پاکستانی نژاد ہے
بریڈفورڈ میں مقیم بہت سے پاکستانی گھرانوں کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے جہاں بڑے پیمانے پر کزنز میں شادیاں ہوتی ہیں۔
ماضی میں ایسا کئی بار ہوا کہ بریڈفورڈ میں رہنے والے نوجوان کی شادی پاکستان میں رہنے والے کسی کزن کے ساتھ ہوئی جو بعد میں برطانیہ آئے۔ لیکن اس برادری کے لوگوں کے مطابق اس روایت پر نئی اور پرانی نسل کے درمیان کافی گرما گرمی ہے۔ نئی نسل ارینج میرج بالخصوص کزنز میں شادی سے انکار کرتی ہے۔
ایک نوجوان خاتون نے کہا ’ہماری نسل نے اس کے لیے واقعی لڑائی کی۔‘
’دس سال پہلے میری والدہ اس بات پر بضد تھیں کہ ہم سب کزن میرج کریں گے لیکن اب وہ اس پر توجہ نہیں دیتیں۔ میرے خیال سے خاندانوں کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ اسے کنٹرول نہیں کر سکتے۔ وہ جانتے تھے کہ برطانیہ میں رہنے اور مختلف نقطہ نظر کا سامنا کرنے کی وجہ سے یہ تبدیلی آئے گی۔‘
2007 اور 2010 کے درمیان پہلی تحقیق میں 12453 حاملہ خواتین کو نسلی لحاظ کے بغیر تحقیق کا حصہ بنایا گیا اور ان کے تمام بچوں کو پیدا ہونے کے بعد اس تحقیق میں شامل کیا گیا۔ اس وقت سے ان کی صحت پر نظر رکھی گئی۔
2016 اور 2019 کے درمیان اسی منصوبے کے تحت مزید تحقیق میں شہر کے تین اندرونی وارڈز میں سے 2378 خواتین کو حصہ بنایا گیا۔ نئی تحقیق میں انھی علاقوں سے تعلق رکھنے والی اور ابتدائی تحقیق میں حصہ لینے والی خواتین کے درمیان موازنہ کیا گیا۔
دونوں بار تحقیق میں حصہ لینے والی کل خواتین میں پاکستانی نسل سے تعلق رکھنے والی خواتین کا تناسب 60 سے 65 فیصد تھا۔ پہلے گروپ کی 62 فیصد خواتین کی شادی اپنے کزن یا قریبی رشہ داروں میں ہوئی تھی۔ اب یہ تناسب کم ہو کر دوسرے گروپ میں 46 فیصد پر آ گیا ہے۔
اس رجحان میں زیادہ کمی ان خواتین میں آئی جو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ پہلی والی تحقیق میں ان میں سے 60 فیصد اپنے کزن اور راشتہ داروں میں شادی کر رہی تھیں اور اب یہ کم ہو کر 36 فیصد ہو چکا ہے۔
پہلی تحقیق میں ایسی خواتین جنھوں نے اے لیول سے زیادہ تعلیم حاصل کی تھی، ان میں باقیوں کے مقابلے کم خواتین نے کزنز میں شادی کی تھی اور نئی تحقیق میں ان کا تناسب مزید کم ہو کر 38 فیصد ہوا۔
اگرچہ تازہ تحقیق میں شامل خواتین کا تعلق شہر کے کم امیر وارڈز سے ہے، تاہم محققین کا کہنا ہے کہ وہ پھر بھی مجموعی طور پر بریڈفورڈ میں پاکستانی ماؤں کی نمائندہ ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہیلتھ ریسرچ کے پروفیسر نیل سمال شروع سے اس تحقیق کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کزن میرج میں تیزی سے کمی کے لیے اب پاکستانی برادری کے ساتھ مشاورت سے کئی ممکنہ وضاحتیں تلاش کی جا رہی ہیں:
- کزن میرجز کی وجہ سے بچوں میں نقائص کے متعلق شعور بڑھ گیا ہے
- اعلیٰ تعلیم نوجوانوں کے انتخاب پر اثر ڈالتی ہے
- خاندانی رجحانات میں تبدیلی کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان شادی سے متعلق گفتگو کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئی ہے
- برطانیہ کے امیگریشن قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے اب پاکستان سے خاوند یا بیوی کو برطانیہ لانا زیادہ مشکل ہو گیا ہے
بریڈفورڈ میں پیدا ہونے والی عائشہ ان نئے قوانین سے متاثر ہوئی ہیں۔ آٹھ سال پہلے انھوں نے پاکستان میں اپنے کزن کے ساتھ شادی کی اور ایک سال بعد ان کا بچہ پیدا ہوا۔
ان کے خاوند تب تک برطانیہ نہیں آ سکے جب تک ان کا بچہ دو سال کا نہیں ہو چکا تھا۔ اپنے شریک حیات کو برطانیہ لانے کے لیے 2012 میں تنخواہ کی حد بڑھائی گئی اور اس تک پہنچنے کے لیے عائشہ کو زیادہ گھنٹوں تک کام کرنا پڑا۔
ان کے خیال میں کزنز میں شادی کرنا ایک قیمتی روایت ہے اور انھیں افسوس ہے کہ اس رجحان میں کمی آ رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے نہیں لگتا میرے بچے کزنز سے شادی کریں گے۔ ان کا پاکستان کے ساتھ وہ تعلق ٹوٹ جائے گا، مجھے اس پر افسوس ہے۔‘
عائشہ کی دو بہنیں ہیں جو 20 سال کی عمر کے پیٹے میں ہیں اور انھوں نے کزنز میں شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حال ہی میں ان میں سے ایک سلینہ نے اپنے والدین کی اجازت کے ساتھ اپنی پسند کی شادی کی ہے۔
انھوں نے بتایا ’میں باہر گھومتی پھرتی ہوں اور میں کام کرنا چاہتی ہوں اور اپنی زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ کسی پاکستانی کے لیے یہ بالکل قابل قبول نہیں ہوگا۔‘
انھوں نے مزید کہا ’وہ مجھے ایسی زندگی نہیں جینے دیں گے۔ بچوں کو کیسے پالنا ہے اور انھیں کیسے اقدار سکھانے ہیں، ہمارا اس پر اتفاق نہیں ہو گا۔‘
ان کی دوسری بہن ملیکہ بھی ایک دن اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’پہلے اگر آپ تعلیم یافتہ بھی ہوتے تو آپ سے یہ توقع نہ کی جاتی کہ آپ آگے کچھ کریں گے۔ آپ شادی کا ہی سوچتے۔۔۔ اب یہ تبدیل ہو گیا ہے، لوگوں کا ذہن تبدیل ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ والدین کے مقابلے نوجوانوں کے پاس رشتہ ڈھونڈنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ اور سوشل میڈیا کی مدد سے نوجوان اپنے والدین کی نظر سے باہر لوگوں سے رابطے قائم کر رہے ہیں۔
اس تحقیق کی ٹیم کمیونٹی کو کزنز کے ساتھ شادی کے نتیجے میں ہونے والی پیدائشی نقائص سے متعلق معلومات دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تب ہوتا ہے جب دونوں والدین میں بیماری کی ایک چین ہو۔ یہ ایسے میاں بیوی میں بھی یہ ہو سکتی ہے جو ایک دوسرے کے رشتہ دار نہ ہوں لیکن اس کے امکان زیادہ ہوتے ہیں جب دونوں کزنز ہوتے ہیں۔
یہ نقائص دل، اعصابی نظام، ٹانگیں، بازو، جِلد یا جسم کے دوسرے حصوں کے ہو سکتے ہیں۔ کبھی کبھار ان کا علاج نہیں ہو سکتا اور یہ جان لیوا ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف بریڈفورڈ کی شعبہ ہیلتھ سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی میڈیکل سوشیولوجسٹ ڈاکٹر عمارہ ڈار کا کہنا ہے کہ کزنز میں شادی پیدائشی نقائص کا ایک خطرناک عنصر ضرور ہے لیکن اس کی وجہ نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بریڈفورڈ میں 2013 میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ جتنا خطرہ کزنز کے جوڑے کے بچوں میں پیدائش کے وقت نقائص کا ہوتا ہے اتنا ہی خطرہ 35 سال سے زیادہ عمر کی سفید فام خاتون کے بچے کو ہوتا ہے۔ ان نقائص میں ڈاؤن سنڈروم بھی شامل ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ہیلتھ ورکرز پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بیمار بچوں کے والدین کو کہتے ہیں ’یہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ آپ نے اپنے کزن کے ساتھ شادی کی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہاں تقافت پر الزام لگانے کا رواج ہے۔ ’آپ نسل اور صحت میں سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ اقلیت کے بارے میں اکثریت اپنی رائے بناتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں برطانوی آبادی میں بھی کزنز میں شادیاں عام تھیں۔ انھوں نے چارلز ڈارون کی مثال دی جنھوں نے اپنی کزن ایما ویجوڈ سے شادی کی تھی۔
پروفیسر نیل سمال کے مطابق دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے ایک ارب آبادی میں کزنز میں شادی کرنا عام بات ہے۔ تاہم برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔
اس تحقیق میں حصے لینے والے 4384 سفید فام لوگوں میں سے صرف دو کے ساتھی ان کے کزن تھے، جبکہ تین لوگوں کے ساتھی دور کے رشتہ دار تھے۔
بظاہر اب بریڈفورڈ میں نئی نسل کزن کے ساتھ شادی کرنے کے حق میں نہیں۔
18 سالہ ندا کہتی ہیں کہ ’ہماری نسل کے لوگ یا ہم سے بڑے اسے عام چیز کے طور پر نہیں دیکھتے۔ انھیں اس سے کراہت ہوتی ہے۔ لہذا مجھے نہیں لگتا کہ میں پیچھے (پاکستان) سے کزن سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں گی۔‘
زہرہ بھی 18 سال کی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین کی جوانی کے مقابلے میں اب حالات مختلف ہیں۔ ’آج کل نئے لوگوں کو ملنا آسان ہے، مثال کے طور پر آپ اگر پاکستان میں کسی گاؤں میں رہتے تھے، تو آپ کے لیے وہاں سے ہی کسی سے ملنا آسان تھا۔ لیکن اب بریڈفورڈ میں آپ مختلف قسم کے بہت سے لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ آپ اپنے ہی لوگوں (پاکستانیوں) میں شادی کر سکتے ہیں لیکن اپنے رشتہ داروں میں نہیں۔‘
17 سال کے عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کزن میں شادیوں کی وجہ سے ہونے والی پیدائشی نقائص کے خطرات کے بارے میں شعور بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں میں شادی کرنے کا امکان کم ہوا ہے۔
،تصویر کا ذریعہPISHDAAD MODARESSI CHAHARDEHI
ایمار کہتی ہیں کہ وہ کزن کے شادی نہیں کرنا چاہیں گی
17 سال کی ایماری کہتی ہیں کہ ان کی والدہ اور والد دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے کزنز کے ساتھ اپنی منگنی توڑی تھی۔ لیکن اگر انھیں اپنے لیے کوئی امیدوار ملا تو وہ خود ان سے ملنے کے لیے تیار ہیں اور اپنی رائے کی بنیاد پر اس پر سوچیں گی ضرور۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال سے میں چاہوں گی کہ وہ میرے لیے کسی کو ڈھونڈیں۔ لیکن وہ کزن نہ ہو۔۔۔ میرے والدین مجھے جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے مجھے کیا پسند ہے تو وہ میرے لیے کوئی اچھا رشتہ ہی ڈھونڈیں گے۔‘
Comments are closed.