افغانستان: برطانیہ نے کتنے افغان پناہ گزینوں کو آباد کرنے کا وعدہ پورا کیا؟
- ریالٹی چیک
- بی بی سی نیوز
برطانیہ کے ریٹائرڈ آرمی جنرل نے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد برطانیہ کے ساتھ کام کرنے والے تمام افغانوں کو افغانستان سے نہ نکالنے پر حکومت پر حکومت پر تنقید کی ہے۔
جنرل سر جان میک کول نے کہا کہ برطانیہ اپنے سابق عملے اور ان کے اہل خانہ کی مدد کرنے کے اپنے وعدے کو پورا نہیں کر رہا ہے۔
گذشتہ موسم گرما میں برطانیہ کی حکومت نے تقریباً 18,000 افراد کو افغانستان سے نکالا تھا، جن میں 6000 سے زیادہ برطانوی شہری بھی شامل تھے۔
کتنے افغان شہریوں کو برطانیہ میں بسایا گیا ہے؟
طالبان کے حکومت میں آنے سے پہلے برطانوی حکومت نے اپریل 2021میں افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کرنے کے لیے افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اے آر اے پی) کے نام سے ایک سکیم کا آغاز کیا تھا۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اے آر اے پی کے آغاز کے بعد سے 9,000 افراد کو برطانیہ منتقل کیا گیا ہے۔
اس سکیم کے تحت، وہ افغان جنہوں نے برطانوی فوج اور برطانوی حکومت کے لیے کام کیا جن میں افغان مترجم بھی تھے وہ اب مستقل طور پر برطانیہ میں آباد ہو سکتے ہیں۔ پہلے انھیں پانچ سال کا رہائشی ویزہ دیا جاتا تھا۔
ہوم آفس نے کہا کہ 2013 سے اب تک ایکس گریشیا سکیم کے تحت سابق عملے کے مزید 1,400 افراد اور ان کےخاندانوں کو برطانیہ منتقل کیا جا چکا ہے۔
اے آر اے پی کے علاوہ، حکومت نے جنوری 2022 میں افغان شہریوں کے برطانیہ میں آباد کرنے کی اے سی آر ایس نامی نئی سکیم، متعارف کرائی ہے جس کے تحت 20 ہزار افغان پناہ گزینوں کو برطانیہ میں آباد کیا جائے گا۔
اس سکیم کے تحت ایسی خواتین، بچوں اور مذہبی اقلیتوں کو برطانیہ لایا جا سکتا ہے جنہیں طالبان سے خطرہ ہے۔
ستمبر میں، ایک حکومتی اعلان میں کہا گیا کہ پہلے سال میں 5,000 افغان شہریوں کو برطانیہ لایا جائے گا۔
حکومت نے جنوری 2022 میں اعلان کیا کہ اس اسکیم کے تحت پہلے افغان خاندان کو برطانیہ میں آباد کیا جا چکا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس سکیم کے تحت کتنے لوگوں کو برطانیہ میں آباد کیا گیا ہے۔
کتنے افغان شہریوں نے افغانستان سے نکلنے کی درخواست کی؟
حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے کہ کتنے افغان شہریوں نے انہیں افغانستان سے نکالنے کی اپیل کی تھی۔
تاہم، خارجہ امور کی کمیٹی کے رافیل مارشل نے جو اس سے قبل دفتر خارجہ میں افغانستان کی صورتحال پر کام کر چکے ہیں، نے کہا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق کہ اگست 2021 میں 75,000 سے 150,000 کے درمیان لوگوں نے افغانستان سے انخلا کے لیے درخواست دی تھی۔
رافیل مارشل کے اندازے کے مطابق صرف پانچ فیصد لوگوں کی مدد کی گئی ہے۔
افغان شہریوں کی برطانیہ آبادکاری کیسے ہوتی ہے؟
برطانیہ نے ’آپریشن وارم ویلکم‘ کے نام سے ایک قدم اٹھایا ہے جس کے تحت ہر کونسل کو فی شخص 20520 پونڈ مختص کیے ہیں۔
فنڈنگ سے پناہ گزینوں کو تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے، کام تلاش کرنے اور نئی کمیونٹیز میں ضم ہونے میں مدد ملے گی۔
حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ کونسلوں کو پہلے سال رہائشی اخراجات کی مد میں اضافی ایک کروڑ پاؤنڈ ادا کرے گی، دوسرے برس پچاس لاکھ اور تیسرے برس 20 لاکھ پونڈ فراہم کرے گی۔
البتہ رپورٹس شائع ہو رہی ہیں کہ برطانیہ پہنچنے والے بارہ ہزار افغان مہاجرین ابھی تک ہوٹلوں میں ہی رکھا گیا ہے۔
برطانوی ہوم آفس نے فروری 2022 میں کہا تھا کہ افغان مہاجرین کو ہوٹلوں میں رکھنے پر حکومت کو یومیہ بارہ لاکھ پاؤنڈ خرچ ہو رہے ہیں۔
افغان شہریوں کی برطانیہ میں آبادکاری پر ناقدین کی کیا رائے ہے؟
جنرل سر جان میکول نے جنہوں نے 2005 اور 2006 کے درمیان افغانستان میں وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی کے طور پر خدمات سر انجام دیں ہیں، ان کا کہا ہے کہ یہ افسوس ناک ہے کہ برطانیہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ہزاروں ایسے افغان شہری جو برطانیہ آنے کے مستحق ہیں وہ اب بھی افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
حکومت کو اپنے ریکارڈ پر انتہائی شرمندگی ہونی چاہیے: جنرل میکول
امیگریشن وکیل سارہ پنڈر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک آباد کرنے کی سرکاری سکیمیں اکثر بہت سست ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ خیال کرنا کہ لوگ درخواست لے کر قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں اور وہیں کھڑے کھڑے ان کی امیگریش ہو سکتی ہے، حقیقت میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ویزہ حاصل کرنے کا معیار سخت ہوتے ہیں جس سے لوگ مختلف سکیموں کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔
شیڈو انٹرنیشنل ٹریڈ سکریٹری نک تھامس سائمنڈز نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے بارے حکومتی سکیمیں وہاں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال رہی ہیں۔
کچھ افغان مہاجرین کو برطانیہ میں قانونی طور پر کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور انھیں حکومت کی جانب سے ان کے کاغذات کو مکمل نہ کرنے کی وجہ سے انھیں گھر کرایے پر لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسرے افغان شہری یہاں کیسے آسکتے ہیں؟
برطانیہ میں آباد ہونے کا اہم دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک بار ملک کی سرحدوں کے اندر سیاسی پناہ حاصل کریں۔
تاہم، برطانیہ کے امیگریشن سسٹم میں مجوزہ تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں کو پروسیسنگ کے لیے افریقی ملک روانڈا بھیجا جا سکتا ہے۔
ہوم آفس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افغان شہریوں کی درخواستیں ستمبر 2020 میں 1,417 سے بڑھ کر ستمبر 2021 میں 1,974 ہوگئیں تھیں۔
دوسرے ممالک نے کتنے لوگوں کو افغانستان سے نکالا؟
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ نے سب سے زیادہ لوگوں کو افغانستان سے نکالا۔
افغان شہری انخلا کی پرواز پر امریکہ پہنچنے کے بعد کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں
دوسرے ممالک نے کم تعداد میں لوگوں کو افغانستان سے نکالا ہے۔
- جرمنی: 5300 سے زیادہ
- اٹلی: 5000 سے زیادہ
- کینیڈا: 3700 سے زیادہ
- فرانس: 3000 کے قریب
اگست کے آخر سے، کچھ ممالک نے وقفے وقفے سے انخلا کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ فرانس نے اپریل 2021 کے آخر میں 258 افراد کو افغانستان سے نکالا ہے۔ گذشتہ سال یورپی یونین کے بعض ممالک جیسے یونان، فرانس اور جرمنی میں پناہ کے لیے درخواست دینے والے افغانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
کتنے برطانوی شہری افغانستان میں رہ گئے ہیں؟
افغانستان سے انخلاء کے دوران اس وقت کے خارجہ سکریٹری ڈومینک راب نے کہا تھا کہ افغانستان میں اب بھی چند سو برطانوی شہری موجود ہیں لیکن وہ صحیح تعداد نہیں بتا سکے تھے۔
مسٹر راب نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ افغانستان سے تمام ایسے افراد کو واپس لا چکا ہے جن کی واحد شہریت برطانوی تھی لیکن دوہری شہریت والے برطانوی افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ بعض خاندانوں کے تمام افراد کے پاس دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔
7 دسمبر 2021 کو، افغانستان کے لیے وزیر اعظم کے موجودہ خصوصی نمائندے، نائجل کیسی نے اراکین پارلیمان کو بتایا کہ افغانستان میں اب بھی تقریباً 200 برطانوی شہری موجود ہیں۔
ان اعداد و شمار کو اپڈیٹ نہیں کیا گیا ہے۔
Comments are closed.