بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانوی راج کے ’جیمز بانڈ‘ جن کے خفیہ مشن نے انگریزوں کی سندھ میں فتح کی بنیاد رکھی

الیگزینڈر برنس: برطانوی راج کا ’جیمز بانڈ‘ جو بھیس بدلنے کے ماہر تھے

الیگزینڈر برنس

،تصویر کا ذریعہCraig Murray

الیگزینڈر برنس نے جرات، چالاکی اور رومان سے بھری ایسی زندگی گزاری کہ کسی نے انھیں ’وکٹورین جیمز بانڈ‘ قرار دیا تو کسی نے انھی خصوصیات کی وجہ سے ایک کتابی ہیرو ’فلیش مین‘ سے تشبیہ دی جو خطروں کا کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا بھی دیوانہ ہے۔

الگزینڈر برنس ایک مہم جو، جنگجو، جاسوس اور سفارت کار، بھیس بدلنے اور زبانیں سیکھنے کے ماہر اور حسن پرست تھے جو اگر بھری جوانی میں مارا نہ جاتے تو نہ جانے اور کیا کیا کرتے۔

برنس 17 مئی 1805 کو مونٹروز، سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے۔ 16 سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شامل ہوئے۔ برطانوی ہندوستان میں خدمات انجام دیتے ہوئے اُردو اور فارسی زبان سیکھی اور سنہ 1822 میں گجرات کے شہر سورت میں مترجم مقرر ہوئے۔

سنہ 1826 میں ان کا ضلع کچھ میں تبادلہ کر دیا گیا جس کے صدر مقام بھوج میں وہ تین سال تک مقیم رہے۔

دریائے سندھ کا خفیہ مشن

الیگزینڈر برنس کی مہم جوئی سے بھرپور زندگی کا آغاز ایک ایسے خفیہ مشن سے ہوا جس نے انگریزوں کی سندھ میں فتح کی بنیاد بھی ڈالی۔

سنہ 1829 میں وادی سندھ کو جاننے کے سفر کی برنس کی تجویز کو منظوری دی گئی۔ کرسٹوفر ایلن بیلی نے برطانوی ہندوستان میں خفیہ اطلاعات کے نظام سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا کہ سنہ 1831 میں ان کے اور ہنری پوٹنگر کے دریائے سندھ کے سروے سے سندھ پر مستقبل میں حملے سے وسطی ایشیا کی طرف راستہ صاف کیا گیا۔

اسی سال برنس کو برطانیہ کے شاہ ولیم چہارم کی جانب سے پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ کے لیے گھوڑوں کا تحفہ لے کر لاہور آنا تھا جو اس وقت تک ایک آزاد ریاست تھی لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا۔

جی ایس اوجلا کا کہنا ہے کہ اس سفر سے سکھ ریاست کے ساتھ معاہدوں کے ایک ایسے سلسلے کی ابتدا ہونا تھی جس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی ستلج اور دریائے سندھ کے ذریعے جہاز رانی اور تجارت کر سکتی۔

سر تھامس رو کو 17ویں صدی کے آغاز میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں انگلستان کا سفیر بنا کر بھیجا گیا تو انھوں نے رپورٹ کیا کہ تجارت کے امکانات بڑھانے کا بہترین طریقہ دریائے سندھ کا استعمال ہے۔

مگر تب تھامس رو دریائے سندھ کی بحری موافقت اور مغربی ہندوستان اور پنجاب کے دوسرے بڑے دریاؤں کے ساتھ اس کے رابطے سے لاعلم تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان دریاؤں کا راستہ سمجھنے کے لیے دو صدیوں سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔

ایک پُرجوش نوجوان افسر کیپٹن الیگزینڈر برنس کو یہ مشن سونپا گیا۔ بظاہر برنس کو شاہ انگلستان ولیم چہارم کی طرف سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے بھیجے گئے پانچ گھوڑوں کو ایک چپٹی تہہ والی کشتی کے ذریعے رنجیت سنگھ تک پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی۔ انگریزوں نے دعویٰ کیا کہ یہ گھوڑے زمینی سفر میں زندہ نہیں رہیں گے۔

سر رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سر رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں

کراچی سے لاہور ایک ہزار میل کا سفر

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ابوبکر شیخ لکھتے ہیں کہ سنہ 1830 میں ایک جہاز بمبئی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا جس میں برطانیہ کے بادشاہ کی طرف سے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے تحفے کے طور پر پانچ گھوڑے اور ایک دوستی کا خط شامل تھا۔

سفر سے پہلے بمبئی کے چیف سیکریٹری کا ایک خفیہ خط برنس کو ملا جس میں ہدایات دی گئی تھیں کہ ’اس سفر میں اہم کام یہ بھی ہے کہ دریائے سندھ کی تفصیلی ٹیکنیکل رپورٹ تیار کی جائے کہ کہاں کہاں کتنا پانی ہے، کس جگہ چوڑائی کتنی ہے، جہاز رانی کے لیے لکڑی حاصل کرنے کے لیے کناروں پر کتنے جنگلات ہیں، کنارے کے ساتھ فصلوں سے آباد ہونے والی زمینیں کن لوگوں کی ہیں اور کن کن ذات قبیلوں کے لوگ آباد ہیں اور یہ کہ حکمرانوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال کیا ہے۔‘

اوجلا کے مطابق کراچی سے لاہور ایک ہزار میل سے اوپر کے سفر میں ان ’ٹروجن ہارسز‘ کی آڑ میں، انھیں دریاؤں کو جاننا تھا لیکن سندھ کے تالپور سرداروں نے ان کو ٹھٹھہ کے ڈیلٹا میں تین ماہ تک حراست میں رکھا کیونکہ ان کو شبہ تھا کہ ان کے پاس اسلحہ موجود ہے۔

آخر کار کوئی ہتھیار نہ ملنے پر انھیں لاہور کے سفر پر روانہ کر دیا گیا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ کشتی میں مختلف مقامات پر دریا کی گہرائی کی پیمائش اور دیگر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے سروے آلات موجود ہیں۔

اعلیٰ افسران کے دباؤ کے باوجود برنس نے سفر میں فوجی دستہ لینے سے انکار کر دیا تاکہ مقامی آبادی یہ نہ سمجھے کہ برطانوی حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برنس نے صرف ایک برطانوی افسر ڈی جے لیکی کے ساتھ سفر کیا اور وقتاً فوقتاً مقامی لوگوں کو اپنے قافلے میں شامل کرتے رہے۔

ایسا کرتے ہوئے، برنس نے دریائے سندھ کے کنارے شہروں میں مقامی رہنماؤں اور حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر لیے۔

سفارت کاری کی مہارت، مقامی رسم و رواج سے واقفیت اور چاپلوسی کی رسومات کے علم سے وہ دریائے سندھ کے ان علاقوں میں سفر کرنے کے قابل ہوئے جو پہلے یورپیوں کے لیے بند تھے۔ ان میں ٹھٹھہ، حیدرآباد، بھکر اور شجاع آباد شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

برنس پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے دربار میں

ابوبکر شیخ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے برنس کی ملاقات کا احوال انھی کی زبانی بتاتے ہیں:

’ہم ایک بگھی کے پیچھے ہاتھیوں پر سوار تھے۔ میں جس شاندار ہاتھی پر سوار تھا وہ سب سے آگے تھا۔ شہر کی گلیاں پیدل فوج، گھڑ سوار دستوں اور توپ خانے کے فوجیوں سے ایک ترتیب کے ساتھ سجی ہوئی تھیں۔ لوگوں کی ایک بھیڑ اکٹھی تھی۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ میں جیسے ہی دربار کے مرکزی دروازے پر پہنچا اور جھک کر اپنے بوٹ کے تسمے کھولنے لگا تب مجھے کسی کے بازو اور پھر گلے ملنے کا احساس ہوا۔‘

’میں نے جب دیکھا تو وہ ڈھلتی عمر کے بوڑھے اور دبلے شخص مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے۔ ان کے دو بیٹے بھی ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے کر دربار میں پہنچے۔ ہمارا شاندار استقبال کیا گیا۔ ہمیں چاندی کی کرسیوں پر بٹھایا گیا اور برطانیہ کے بادشاہ کی خیریت پوچھی گئی۔‘

’میں نے عزت مآب کو بتایا کہ بادشاہ کی طرف سے آپ کے لیے بھیجے گئے پانچ گھوڑے میں سلامتی کے ساتھ لے کر لاہور پہنچا ہوں۔ ساتھ میں بادشاہ سلامت کے وزیر برائے امورِ ہند کی طرف سے خط بھی ہے جو سونے کے تاروں سے بنی تھیلی میں ہے۔ انھوں نے خود وہ خط مجھ سے لیا اور مہر کو اپنے ماتھے سے لگا کر احترام کا اظہار کیا۔‘

’دوسرے دن یعنی 21 جولائی کو خط کا ترجمہ دربار میں پڑھا گیا اور خط جب آدھا پڑھ لیا گیا تو مہاراجہ نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس خط کے یہاں پہنچنے پر سلامی دی جائے کہ لاہور کے باسیوں کو بادشاہ کے خوش ہونے کا اندازہ ہو۔ یہ کیفیت لوگوں تک پہنچانے کے لیے 60 توپوں (ایک توپ سے 21 گولے داغے گئے) کی سلامی دی گئی۔‘

رنجیت سنگھ

،تصویر کا ذریعہJUGGERNAUT

،تصویر کا کیپشن

رنجیت سنگھ

غیر تعلیم یافتہ رنجیت سنگھ جو امور سلطنت میں ماہر تھے

رنجیت سنگھ کے بارے میں برنس نے لکھا کہ ’نمود و نمائش سے دور ہیں مگر دربار پر ان کی ہیبت چھائی رہتی ہے۔ میں کسی ایشیائی باشندے سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا رنجیت سنگھ سے ہوا۔ تعلیم ہے نہ کسی کی رہنمائی مگر سلطنت کے امور کمال مہارت اور چابکدستی سے نمٹاتے ہیں۔‘

برنس تفصیلات دینے کے ماہر ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے سفر کے بارے میں لکھا کہ ڈیرہ غازی خان کے بازار میں 1,597 دکانیں ہیں، جن میں سے 115 کپڑے کی، 25 ریشم کی، 60 سناروں کی اور 18 کاغذ کی ہیں۔

برنس کے اس سروے کے بعد سنہ 1835 میں ’انڈس‘ نام کا ایک بڑا جہاز دریائے سندھ میں حیدر آباد اور کراچی کے درمیان چلایا گیا۔ اس کے سات برس بعد انگریزوں نے سنہ 1843 میں سندھ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جب رنجیت سنگھ نے کوہ نور کی نمائش کی

اکتوبر 1831 میں برنس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پہلی ملاقات ہندوستان میں برطانوی افواج کے کمانڈر، گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک کے ساتھ کروائی۔

یہ ملاقات ستلج کنارے ایک گاؤں روپر میں 22 سے 26 اکتوبر تک ہوئی۔ اس میں متعدد برطانوی سیاسی اتاشیوں اور ذیلی شخصیات نے شرکت کی۔

اس تقریب میں مہاراجا نے کوہ نور ہیرا بھی دکھایا۔ اسے بالآخر برطانوی شاہی خاندان کے قبضے میں آنا اور ملکہ کے تاج میں سجنا تھا۔

روپر سربراہی اجلاس کے بعد، برنس نے نومبر سے دسمبر 1831 تک دلی میں مختصر رہائش اختیار کی۔

یہیں 19 دسمبر کو، برنس کی پہلی بار اپنے مستقبل کے سفری ساتھی موہن لال سے ملاقات ہوئی۔ ہمایوں کے مقبرے کے گراؤنڈ میں ایک ہندو سکول کا دورہ کرتے ہوئے، برنس مغرب کے جغرافیہ کے بارے میں اس نوجوان لڑکے کے علم سے بہت متاثر ہوئے۔

انھوں نے لال کو اپنے ساتھ وسطی یا اندرونی یوریشیا جانے کی دعوت دی۔ دلی سے، برنس نے لدھیانہ کا سفر کیا جہاں انھیں وسطی ایشیا کی جانب بڑھنے کی اجازت ملی۔

کوہ نور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گریٹ گیم: افغانستان اور بخارا کا سفر

اگلے برسوں میں موہن لال کے ساتھ ان کا سفر افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوکش کے پار بخارا (جو جدید ازبکستان ہے) اور فارس (ایران) تک جاری رہا۔

پولیٹیکل ایجنٹ کے اسسٹنٹ کے طور پر، انھوں نے شمال مغربی ہندوستان اور ملحقہ ممالک کی تاریخ اور جغرافیہ میں دلچسپی لی، جن کا ابھی تک انگریزوں نے اچھی طرح سے کھوج نہیں لگایا تھا۔ پھر وہ افغانستان چلے گئے۔

افغانستان حریف برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان پھنسا تھا۔ روس کو شک تھا کہ ہندوستان میں کنٹرول کے بعد برطانیہ کا افغانستان کے راستے شمال کی طرف بڑھنے کا ارادہ ہے۔

ادھر انگریزوں کو خدشہ تھا کہ روس یہیں سے ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور یوں ’گریٹ گیم‘ کہلاتی سیاسی اور سفارتی چپقلش نے جنم لیا۔

بخارا

یہ بھی پڑھیے

برطانوی حکومت کو خفیہ اطلاعات کی ضرورت تھی۔ اسی لیے برنس کو روانہ کیا گیا۔ بخارا کے کسی شخص کے بھیس میں سفر کرتے ہوئے، برنس نے کابل سے بخارا تک کے راستے کا سروے کیا اور افغان سیاست پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

سنہ 1834 میں برطانیہ جا کر انھوں نے جو کتاب شائع کی اس نے ان ممالک کے عصری علم میں بے پناہ اضافہ کیا اور وہ اس وقت کی مقبول ترین کتابوں میں سے ایک تھی۔

یہ کتاب بخارا، ہندوستان سے کابل، وسطی یا اندرونی یوریشیا اور فارس تک اور دریائے سندھ پر سمندر سے برطانیہ کے بادشاہ کے تحائف کے ساتھ لاہور تک کے سفر کی داستان تھی جو سنہ 1831، 1832 اور 1833 میں حکومت کے حکم پر کیے گئے۔ پہلے ایڈیشن سے برنس نے 800 پاونڈ کمائے۔

1838، کابل کے ایک بازار کا منظر

،تصویر کا ذریعہANN RONAN PICTURES/PRINT COLLECTOR/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

1838، کابل کے ایک بازار کا منظر

افغانستان میں بطور پولیٹیکل ایجنٹ تعیناتی

دوست محمد بارکزئی نے سنہ 1838 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایسے میں ہندوستان میں برطانوی گورنر جنرل لارڈ آکلینڈ نے روسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے افغان خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔

برنس نے لارڈ آکلینڈ کو کابل کے تخت پر دوست محمد خان کی حمایت کرنے کا مشورہ دیا لیکن وائسرائے نے سر ولیم میکناٹن کی رائے کو ترجیح دی اور شاہ شجاع کو بحال کر دیا۔ سنہ 1839 میں شاہ شجاع کی بحالی پر برنس کابل میں باقاعدہ پولیٹیکل ایجنٹ بن گئے۔ اس عہدے پر برنس خود کو اعلیٰ تنخواہ دار بیکار کہتے۔

شاہ شجاع کا دور افغان عوام پر ظلم اور وسیع پیمانے پر غربت کے لیے جانا جاتا ہے۔

اسی وقت بڑی تعداد میں ہندوستان کے گرم، خشک میدانی علاقوں میں تعینات برطانوی افسران، ان کی بیویاں، بچے اور عملہ، موافق درجہ حرارت کی وجہ سے کابل منتقل ہو گئے۔

ان کے ساتھ بڑی تعداد میں اجنبی رسم و رواج جیسے کرکٹ، سکیٹنگ اور سٹیپلچیز بھی آئے۔ شہر کی آبادی کے اچانک بڑھنے سے بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔

ایک ایسے وقت میں جب شاہ شجاع نے آبادی پر ٹیکسوں میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا تھا، نچلے طبقے میں بڑے پیمانے پر معاشی بدحالی پھیل گئی۔

شاہ شجاع کے کہنے پر برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں نے شہر سے باہر چھاؤنیوں میں منتقل ہونے پر اتفاق کیا تاہم برنس نے اپنے بھائی لیفٹیننٹ چارلس برنس اور میجر ولیم براڈ فٹ سمیت چند دیگر سینئر افسران کے ساتھ پرانے شہر کے وسط میں ایک گھر میں رہنے کا انتخاب کیا۔

الیگزینڈر برنس

،تصویر کا ذریعہANN RONAN PICTURES/PRINT COLLECTOR/GETTY IMAGES

برنس کا قتل

یکم نومبر 1841 کو موہن لال نے برنس کو بتایا کہ ان کو قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور زور دیا کہ وہ شہر سے نکل جائیں۔ بہت سے افغان برنس کو کابل میں برطانیہ کے نمائندے کے طور پر شہر کے مالی اور اخلاقی زوال کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔

اس یقین کے ساتھ کہ وہ کسی بھی ممکنہ پریشانی سے نمٹ سکتے ہیں، برنس نے اپنے دوست کے مشورے کے خلاف کابل میں ہی رہنے کا انتخاب کیا۔

دو نومبر کی رات برنس مخالف ایک چھوٹے سے گروہ نے شہر میں یہ کہہ کر ایک ہجوم اکٹھا کرنا شروع کر دیا کہ برنس کے گھر سے ملحقہ عمارت میں چھاونی کا خزانہ ہے جہاں برطانوی افواج کی تنخواہ رکھی جاتی ہے۔

رات ہوتے ہی ایک بڑا ہجوم برنس کے گھر کے صحن میں جمع ہو گیا۔ برنس نے فوری مدد کے لیے چھاؤنی کو ایک ہرکارہ بھیجا لیکن برطانوی فوج کے سینیئر افسران کے درمیان اس بات پر بحث کی وجہ سے تاخیر ہوئی کہ اس خطرے کا بہترین جواب کیسے دیا جائے۔

حالات خراب ہوتے گئے۔ حملہ آوروں نے اصطبل کو آگ لگا دی۔ ہجوم کی طرف سے ایک گولی چلی اور بالکونی میں برنس کے ساتھ کھڑے میجر براڈ فٹ مارے گئے۔

اب جب یقین ہو گیا کہ بچاؤ کا مزید کوئی موقع نہیں، چارلس برنس مسلح ہو کر صحن میں داخل ہوئے، چھ آدمیوں کو قتل کیا مگر پھر ان کے بھی ٹکڑے کر دیے گئے۔

پھر الیگزینڈر برنس خود بھی ہجوم کا سامنا کرنے کے لیے غیر مسلح باہر نکلے۔ چند ہی لمحوں میں انھیں بھی ہجوم نے تشدد کے بعد مار ڈالا۔

یہ واقعات برطانوی فوجیوں سے صرف آدھ گھنٹے کی دوری پر پیش آئے۔ ایک نوجوان افسر نے اپنے جریدے میں واقعہ ریکارڈ کرتے ہوئے لکھا کہ ’صبح کے وقت تو 300 آدمی کافی ہوتے، سہ پہر میں 3000 بھی نا کافی۔‘

اگلے دن برنس، میجر براڈ فوٹ اور لیفٹیننٹ چارلس برنس کے سر چوک میں نیزوں میں پرو دیے گئے۔ برنس کی عمر اس وقت 36 سال تھی۔

الیگزینڈر برنس

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

بخارا میں الیگزینڈر برنس کا بھیس

برنس جو بھیس بدلنے کے ماہر تھے

ازبکستان میں سابق برطانوی سفیر کریگ مرے نے اپنی کتاب ’سکندر برنس، ماسٹر آف دی گریٹ گیم‘ میں ان کی جاسوسی کی تکنیکوں کی بہت زیادہ تفصیلات شامل کی ہیں۔

’برنس ایک مسافر کے بھیس میں آتے لیکن نقشہ بنانے میں بہت محتاط ہوتے۔ نقشے رات کے وقت خفیہ طور پر اپنے خیمے میں بناتے۔ پھر انھیں تعویذ بنا کر قاصدوں کے ذریعے سمگل کر دیتے۔ قاصد خود بھی بھیس بدل کر سفر کرتے۔ روسیوں کے خطوط کو روکنے اور ناکام بنانے کے لیے پیچیدہ کوڈز کا استعمال کرتے۔‘

’برنس کی زندگی کسی بھی افسانوی مہم جو کی کہانی سے بڑھ کر تھی۔ وہ اکثر بھیس میں سفر کرتے، کبھی آرمینیائی گھوڑوں کے تاجر، کبھی ایرانی افسر، کبھی ہندو سادھو یا یہودی، زبانوں کی حیرت انگیز صلاحیت کی مدد سے، ایسے حالات میں جہاں خود کو ظاہر کرنے کا مطلب فوری موت ہو سکتی ہے۔ برنس کی محبت کی زندگی افسانوی ہے۔‘

مرے کہتے ہیں کہ ’برنس کی جنسی زندگی بھی دلچسپ تھی۔ تمام تاریخیں اس دعوے کو دہراتی ہیں کہ ان کے افغان خواتین کے ساتھ تعلقات تھے جن سے افغان بغاوت کو تحریک ملی لیکن مجھے کوئی ایسا ثبوت نہیں مل سکا جو بالکل درست ہو۔ مجھے جو کچھ ملا وہ اس بات کا قطعی ثبوت تھا کہ برنس کا حرم سفر میں ان کے ساتھ ہوتا۔‘

شان ڈیمرلکھتے ہیں کہ برنس کے سفر کے دوران مختلف مقامات اور بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان فاصلے اتنے زیادہ اور رابطے اس قدر مشکل تھے کہ وہ اکثر اپنے رہنما خود ہی ہوتے۔‘

’برنس کا کیرئیر محفلوں، نفیس کھانوں اور شراب کی دعوتوں، ناچنے والی لڑکیوں اور زیورات اور شان و شوکت سے بھرا ہوا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.