the hookup game download edelman hookup office hookup ford escort zx2 sr ecu hookup

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

نیویارک میں دس افراد کے قتل کا ملزم کن انتہا پسند خیالات کا مالک ہے؟

نیویارک کے شہر بفیلو کی سپر مارکیٹ میں دس افراد کے قتل کا ملزم پیٹن گیندرون کن انتہا پسند خیالات کا مالک؟

نیویارک، سپر مارکیٹ حملہ

،تصویر کا ذریعہReuters

’ایک فاشسٹ اور سفید فام بالا دستی کا حامی۔۔۔‘

امریکی ریاست نیویارک کی ایک سپر مارکیٹ میں مبینہ طور پر دس افراد کو فائرنگ سے ہلاک کرنے والا شخص خود کو کچھ ایسے بیان کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنے بارے میں ان خیالات کا اظہار 180 صفحات پر مشتمل ایک ایسی دستاویز میں کیا ہے جو بظاہر اس نے خود لکھی۔

نیویارک کے شہر بفیلو، جہاں یہ واقعہ پیش آیا، کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 18 برس کے ملزم پیٹن گیندرون نے یہ جرم سرانجام دینے کے لیے دانستہ طور پر سیاہ فام آبادی والے علاقے کا انتخاب کیا۔

جن 13 افراد کو گولیاں لگیں، ان میں سے گیارہ سیاہ فام تھے۔ اس واقعے میں تین افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

پولیس کے مطابق پیٹن گیندرون نے اس علاقے تک پہنچنے کے لیے 320 کلومیٹر کا سفر کیا۔ حکام اس کیس کی تحقیقات نسلی بنیادوں پر کیے جانے والے جرم کے طور پر کر رہے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار کے مطابق ملزم نے آن لائن 180 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز کو پوسٹ کیا، جس میں سفید فام افراد کو جاگ اٹھنے اور افریقی نژاد امریکی باشندوں اور یہودیوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی۔

پیٹن گیندرون

،تصویر کا ذریعہCondado de Erie

،تصویر کا کیپشن

انتظامیہ کے مطابق 18 برس کے پیٹن گیندرون نے یہ جرم سر انجام دینے کے لیے دانستہ طور پر سیاہ فام آبادی والے علاقے کا انتخاب کیا

’گریٹ ریپلیسمینٹ (Great Replacement)‘ نظریہ

اس دستاویز کے صفحہ نمبر 165 پر پیٹن گیندرون نے ’ہائی پروفائل دشمنوں کا قتل‘ کے نام سے ایک سرخی میں تین ایسے افراد کے نام لکھے ہیں، جنھیں وہ قتل کرنا چاہتے تھے۔ اس میں سے ایک نام لندن کے مئیر صادق خان کا بھی ہے۔

پیٹن گیندرون نے لکھا کہ ’پاکستانی مسلمان حملہ آور اب لندن میں لوگوں کا نمائندہ ہے۔‘

سنیچر کی رات مقامی حکام نے اس دستاویز کو پڑھا، جس میں سیاہ فام افراد کو مارنے سے متعلق منصوبے کی ہر تفصیل موجود ہے۔

ملزم نے بش ماسٹر سیمی آٹومیٹک بندوق کے استعمال کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہ وہ اس پر تشدد کارروائی کو لائیو سٹریم کریں گے۔

اس دستاویز میں نسل پرستانہ اور تارکین وطن مخالف تبصروں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سفید فام امریکیوں کی جگہ سیاہ فام افراد لے لیں گے۔ پیٹن گیندرون کے یہ خیالات ’گریٹ ریپلیسمینٹ ( Great Replacement)‘ نامی نظریے کا حصہ ہیں۔

یہ نظریہ ماضی میں بھی انتہا پسندوں کو متاثر کرتا رہا ہے۔

سنہ 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مسجدوں پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹارنٹ نے بھی نہ صرف اس حملے کو آن لائن شیئر کیا تھا بلکہ اس نے فیس بک پر ’گریٹ ریپلیسمینٹ ( Great Replacement)‘ کے نام سے 74 صفحات پر مشتمل اپنا ایک منشور بھی پوسٹ کیا تھا۔

برینٹن ٹارنٹ نے کرائسٹ چرچ شہر کی دو مساجد میں حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کیا تھا۔

برینٹن ٹارنٹ
،تصویر کا کیپشن

برینٹن ٹارنٹ نے کرائسٹ چرچ شہر کی دو مساجد میں حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کیا تھا

سفید فام قتل عام

’گریٹ ریپلیسمینٹ ( Great Replacement)‘ ایک عالمی تحریک ہے جو انٹرنیٹ پر تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے مطابق یورپی افراد ’سفید فام قتل عام‘ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

تھنک ٹینک ’پولیٹکون‘ کی بیرٹا باربٹ کہتی ہیں کہ ’یہ ایسے سفید فام افراد کی جانب سے ردعمل ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کچھ ایسی سمت میں تبدیل ہو رہی ہے جس سے انھیں کوئی فائدہ نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جیسے جیسے دنیا آگے بڑھ رہی ہے، وہ اپنا مرتبہ کھو رہے ہیں اور انھیں اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ ان سے بہتر لوگ بھی موجود ہیں۔‘

’سفید فام بالادستی کے حامی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں نسلی بنیادوں پر درجہ بندی موجود ہے اور ان کے خیال میں انھیں اس درجہ بندی میں سب سے اوپر ہونا چاہیے۔‘

بی بی سی نامہ نگار ڈومینک سسیانی وضاحت کرتے ہیں کہ ’اس نظریے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’یورپی باشندے‘ معدوم ہو رہے ہیں اور مختلف، کم تر اور خطرناک ثقافتوں کے تارکین وطن ’ان کی جگہ‘ لے رہے ہیں۔‘

نیوزی لینڈ، کرائسٹ چرچ حملہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس تحریک کی ابتدا سے کہاں سے ہوئی؟

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس نظریے کا آغاز فرانس سے ہوا۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے مصنف رینوڈ کیمس نے سنہ 2010 میں اپنی Great Replacement نامی کتاب میں اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد سے اس نظریے کو شناخت ملنی شروع ہوئی اور بہت سے سیاستدانوں جیسے فرانس کے صدارتی الیکشن میں انتہائی دائیں بازو کے امیدوار ایرک زیمور نے بھی اس کا استعمال کیا۔

رینوڈ کیمس اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ان کے تبصروں نے نفرت یا تشدد پر اکسایا لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر نے گذشتہ برس ان کا اکاؤنٹ معطل کر دیا۔

لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رینوڈ کیمس نے اس نظریے کا حوالہ سنہ 1900 سے دیا، جب فرانسیسی قوم پرستی کے علمبردار ماریس بیریس نے ایک ایسی نئی آبادی کا ذکر کیا تھا، جو طاقت میں آ کر ’ان کی سرزمین کو تباہ‘ کر دے گی۔

یہ بھی پڑھیے

اس نظریے میں پیدائش اور خواتین کی شرح تولید بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسجدوں پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹارنٹ نے اپنے منشور میں مغربی ممالک میں کم شرح پیدائش کی شکایت کرتے ہوئے اسے یورپ پر دوسری ثقافتوں کے ’حملے‘ کی ایک اور وجہ قرار دیا تھا۔

اپنے منشور میں انھوں نے لکھا کہ ’بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد ان کی آبادی میں اضافہ کر رہی ہے اور اس سے یورپی پاشندے نسلی اور ثقافتی لحاظ سے مکمل طور پر تبدیل ہو جائیں گے۔

نیویارک، سپر مارکیٹ حملہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حکومت کا قصور

’گریٹ ریپلیسمینٹ ( Great Replacement)‘ نظریے کے حامی اکثر حکومتوں پر بھی الزام عائد کرتے ہیں۔

بی بی سی نامہ نگار ڈومینک سسیانی کہتے ہیں کہ ’اس نظریے کے ایک حصے کے مطابق ریاستیں اور کارپوریشنز عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے مہاجرین کی تنخواؤں کو بڑھا کر دراصل ’سفید فام نسل کشی‘ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

بعض اوقات یہ نظریہ یہودیوں کو عالمی معاشی نظام کے لیے مورد الزام بھی ٹھہراتا ہے۔

بیرٹا باربٹ وضاحت کرتی ہیں کہ ’اس نظریے کے حامل افراد جن میں زیادہ تر سفید فام مرد ہیں، بہت کم تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی بجائے دوسرے افراد کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔‘

ڈومینک سسیانی کہتے ہیں کہ ’انٹرنیٹ پر ان فورمز کی تعداد بڑھنے کی ایک بنیادی وجہ سازش ہے، خاص طور فیس بک اور سوشل نیٹ ورکس پر ایسے بہت سے خفیہ گروپ موجود ہیں۔‘

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’ان گروپوں میں موجود اس نظریے کے حامی افراد حقائق اور معلومات کے قابل اعتماد ذرائع کے بجائے غلط خبریں شیئر کرتے ہیں اور اپنے خوف کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.