نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم اور آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود ٹیکس ادائیگی کی شرح اطمینان بخش نہیں ہو سکی جو ملکی ترقی کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو اضافی اختیارات ملنے کے باوجود ٹیکس گزار گوشوارے جمع کروانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں، جو تشویشناک ہے۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس بیس وسیع کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کے باوجود ملک میں 72 لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں میں سے صرف 25 لاکھ یا 35 فیصد نے سال 2021 کے لئے گوشوارے جمع کروائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے ہی ایف بی آر کے محاصل میں انکم ٹیکس کاحصہ صرف 35 فیصد ہے۔ ابھی تک جرمانوں، گرفتاریوں، جیل اور اکاؤنٹ سے یکطرفہ طور پر کٹوتی کے فیصلوں کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہورہی ہے۔ ایف بی آر کو نان فائیلرز کے بجلی اور ٹیلی فون کے کنکشن منقطع کرنےکا اختیار بھی مل گیا ہے، مگر اس سے بھی ٹیکس چھپانے والوں کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس جو جی ڈی پی کے تناسب سے صرف 10 فیصد ہے جسے 15 فیصد کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں تمام حکومتوں نے اعلانات واقدامات کئے مگر اسکا کبھی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا اور اسی وجہ سے ملک کو بار بار قرضے لینا پڑتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ خسارے پرقا بو پانے، قرضے کا بوجھ ختم کرنے، صنعتی ترقی کے ذریعے محاصل اور روزگار بڑھانے اور سماجی حالات و خدمات بہتر بنانے کے لئے متمول افراد کو ٹیکس کی ادائیگی پر راغب کرنا ضروری ہے کیونکہ قرضوں کی وجہ سے ملک کی خود مختاری اورآزادی داؤ پرلگی ہوئی ہے۔
میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ جب تک براہ راست ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس پر انحصار رہے گا اس وقت تک صورتحال میں بہتری کی امید کرنا خود فریبی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکس سے مڈل کلاس اور غریب طبقے متاثر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ صحت اور تعلیم جیسی ضروری چیزوں پر سمجھوتا کرنے لگتے ہیں جو ملکی مستقبل کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے بالواسطہ ٹیکسوں کی مدد سے ترقی نہیں کی۔
Comments are closed.