ایمی جانسن: دو براعظموں کے درمیان اکیلے سفر کرنے والی پائلٹ کی موت جو آج بھی ایک معمہ ہے
ایمی جانسن نے اکیلے برطانیہ سے آسٹریلیا تک اپنے طیارے میں سفر کیا اور شہرت کی بلندیوں کو چھوا
اُس روز بہت شدید دُھند چھائی ہوئی تھی اور ہڈیاں جما دینے والی شدید سردی بھی تھی۔ مگر موسم کی شدت کے باوجود ایمی جانسن اپنے مشن پر روانہ ہو گئیں۔
پانچ جنوری 1941 کو ایمی نے برطانیہ میں بلیک پول ایئرپورٹ سے پرواز بھری۔ اُن کی منزل آکسفورڈ شائر میں برطانوی رائل ایئر فورس کی کڈلنگٹن ایئربیس تھی۔ اُن کا مشن ایک طیارے کو ایئر بیس تک پہنچانا تھا۔ اس سفر کے لیے صرف 90 منٹ درکار تھے مگر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے بعد منزل سے 100 میل دور ایمی کا جہاز تھیمز ایسچوری میں گر کر تباہ ہو گیا۔
برطانوی بحریہ نے ڈرامائی انداز میں اُنھیں ریسکیو کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے یہاں تک کے ملبے سے ایمی کی لاش تک نہیں ملی۔
اس حادثے نے لوگوں کو سخت حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ ایمی کوئی عام پائلٹ نہیں تھیں، وہ انتہائی تجربہ کار تھیں اور وہ آج بھی اس حوالے سے جانی جاتی ہیں کہ انھوں نے کم وقت میں اکیلے جہاز اُڑا کر برطانیہ سے آسٹریلیا تک کا ریکارڈ قایم کیا تھا۔
ایمی جانسن اپنے ہوا بازی کے کارناموں کی وجہ سے اپنے دور کی ایک معروف شخصیت تھیں۔ وہ اتنے چھوٹے سے سفر کے دوران کیسے گم ہو گئیں یہ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ ایک اور بات جس نے لوگوں کو کشمکش میں ڈالے رکھا وہ یہ تھی کہ حادثے کے بعد ایمی کی لاش نہیں ملی اور یہ معمہ آج تک نہیں سلجھایا جا سکا۔
ایمی جانسن برطانوی فضائیہ کے امور کے لیے قائم وزارت کے تحت 1929 میں سند یافتہ گراؤنڈ انجینیئر بننے والی پہلی خاتون بنیں
افواہیں اور قیاس آرائیاں
اس حادثے کے فوراً بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایمی ملک سے ایک جاسوس کو بھگا کر لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ وہ جاسوس اُن کا جرمن عاشق ہو سکتا ہے۔
کچھ کے خیال میں ایمی کے طیارے کو برطانوی اینٹی ایئرکرافٹ گن نے مار گرایا تھا۔ کچھ نے دعویٰ کیا کہ جرمن طیارے نے انھیں مار گرایا تھا۔ پھر ایسے لوگ بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ یہ حادثہ اُن کا اپنی موت کا ڈھونگ رچانے کا ایک وسیع منصوبہ تھا۔
اِن ساری افواہوں اور قیاس آرائیوں میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے بعد اس حادثے کی وجہ خراب موسم اور خطرناک فیصلے بتائے گئے جنھیں عمومی طور پر قبول کر لیا گیا۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی اور اس حادثے کی چھ دہائیوں بعد ایک عینی شاہد سے منسوب کیے گئے کچھ ایسے حیرت انگیز انکشافات منظر عام پر آئے تھے جنھوں نے اس حادثے سے جڑے حقائق پر سوالیہ نشان لگا دیے تھے۔ ایمی جانسن کو بچانے کی کوشش میں برطانوی بحریہ کا ایک جہاز بھی شامل ہوا تھا۔
اُس جہاز پر موجود اہلکاروں کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ حادثے کہ وقت ایک شخص پیراشوٹ سے اُترتا نظر آیا تھا اور جب رائل نیوی امداد کے لیے پہنچی تو اہلکاروں کو سمندر میں دو لاشیں تیرتی نظر آئی تھیں۔
عینی شاہد کے بیان میں کیے گئے انکشافات کی مکمل تفصیل انتہائی حیران کن تھیں جن کی تفصیلات آگے چل کر بیان کی جائیں گی۔
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ایمی جانسن اور اس حادثے کو برطانوی تاریخ میں اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟
ایمی جانسن بچپن ہی سے ’باغی شخصیت‘ کی مالک قرار دی جاتی تھیں
ایمی جانسن کون تھیں
یکم جولائی 1903 کو برطانوی علاقے حل میں پیدا ہونے والی ایمی جانسن بچپن ہی سے باغی شخصیت کی مالک تھیں اور اُن کی شخصیت کا یہ پہلو ابتدائی تعلیم کے دوران ہی سب کے سامنے تھا۔
گو کہ انھوں نے معاشیات میں ڈگری حاصل کی اور پھر چھوٹی موٹی نوکریاں کیں مگر ہوابازی میں اُن کی دلچسپی کے نتیجے میں اُن کی ساری توجہ اس طرف ہو گئی اور سنہ 1929 میں انھوں نے پائلٹ کا لائسنس حاصل کر لیا۔ وہ پائلٹ تو بن گئیں مگر یہ اُن کے لیے ذریعہ معاش ثابت نہیں ہو سکا، لہذا وہ برطانوی فضائیہ کے امور کے لیے قائم وزارت کے تحت سند یافتہ گراؤنڈ انجینیئر بن گئیں۔
یہ بھی ایک غیر معمولی کامیابی تھی کیونکہ وہ پہلی خاتون تھیں جو اس عہدے پر فائز ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے
مگر ہوا بازی سے لگن نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے معرکہ آرا سفروں پر نکلیں۔
اس کے لیے انھوں نے اپنے والد اور لارڈ ویکفیلڈ، جنھوں نے تیل کی مشہور کمپنی کیسٹرل آئل قائم کی، کو راضی کیا کہ وہ اُنھیں ایک طیارہ خرید کر دیں۔ ڈی ہاویلینڈ موتھ نامی طیارہ چھ سو برطانوی پاؤنڈ کا ملا۔ انھوں نے اس طیارے کا نام اپنے والد کے مچھلیوں کے کاروبار کے نام پر ’جیسن‘ رکھا۔
،تصویر کا ذریعہKeystone-France
ایمی جانسن پانچ مئی 1930 کو کرائیڈن ایروڈروم سے آسٹریلیا کے اپنے سفر پر تنِ تنہا روانہ ہوئیں
وہ سفر جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا
اب انھوں نے سنہ 1928 میں برٹ ہنکر نامی ہواباز کے ریکارڈ کو توڑنے کا منصوبہ بنایا جس کے تحت انھوں نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک کا سفر تنہا 15 دن میں مکمل کیا۔ ایمی جانسن نے پانچ مئی 1930 کو کرائیڈن ایروڈروم سے اپنے معرکہ آرا سفر کا آغاز کیا۔
کچھ رپورٹس کے مطابق جو بات غیر معمولی ہے وہ یہ ہے کہ اس سفر پر جانے سے پہلے ایمی کے پاس طیارہ اڑانے کا صرف 75 گھنٹوں کا تجربہ تھا۔ اس سفر میں زیادہ لوگوں کو دلچسپی نہیں تھی اور اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھیں الوداع کہنے کے لیے صرف ان کے والد اور چند اور لوگ آئے تھے۔
مگر جب وہ کراچی میں اپنے پہلے سٹاپ پر پہنچی تو وہ عالمی سطح پر شہرت حاصل کر چکی تھیں۔
آسٹریلیا سے واپسی پر کثیر تعداد میں لوگوں نے اُن کا استقبال کیا
طیارے میں مکینیکل خرابیوں اور خراب موسم کی وجہ سے وہ ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہیں۔ انھیں اس سفر میں 19 دن لگے اور وہ گیارہ ہزار میل (18000 کلومیٹر) کا سفر طے کر کے آخر کار 24 مئی کو آسٹریلیا کے شہر ڈارون پہنچیں۔
اگرچہ انھوں نے ریکارڈ تو نہیں توڑا مگر وہ اکیلے آسٹریلیا تک سفر کرنے والی پہلی خاتون بننے کے بعد توجہ کا مرکز بن گئیں۔ ان کی شہرت میں اضافہ ہوا اور انھوں نے چھ ہفتوں تک آسٹریلیا کے اندر مختلف جگہوں کا دورہ کیا اور عوامی پروگراموں میں شرکت کی جس میں ان کا بڑے جوش و خروش سے استقبال ہوا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
واپسی کے سفر میں ایمی کشتی کے ذریعے مصر پہنچیں اور وہاں سے فضائی سفر کرتے ہوئے گھر لوٹیں۔ کرائیڈن ایروڈوم آمد پر ایک زبردست ہجوم نے اُن کا استقبال کیا۔ انھیں بنا چھت والی گاڑی میں لندن کی سڑکوں پر پریڈ کروایا گیا اور ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ افراد کا ہجوم راستے میں ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے کھڑا تھا۔
ان کی واپسی پر برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے انھیں سی بی ای کے اعزاز سے نوازا اور ان کی بہادری اور کارنامے پر ڈیلی میل کی جانب سے انھیں دس ہزار برطانوی پاؤنڈ کا تحفہ پیش کیا گیا۔ سنہ 1931 میں ایمی نے ساتھی ہواباز جِم مولیسن سے شادی کی اور انھوں نے اپنے شوہر کے ہمراہ اپنی مہم جوئی جاری رکھی۔
سنہ 1931 میں ایمی جانسن نے ساتھی ہواباز جِم مولیسن سے شادی کی
ایمی جانسن کے غیرمعمولی سفر
- سنہ 1931 میں وہ ایک دن کے اندر لندن سے ماسکو پہنچنے والی پہلی پائلٹ بنیں۔ انھوں نے 1760 میل طویل پرواز تقریبا 21 گھنٹوں میں مکمل کی
- سنہ 1932 میں انھوں نے لندن سے کیپ ٹاؤن فلائٹ کا ریکارڈ توڑا جو اس سے پہلے اُن کے شوہر نے قائم کیا تھا۔ انھوں نے یہ سفر پہلے ریکارڈ سے 11 گھنٹے کم وقت میں مکمل کیا
- سنہ 1933 میں انھوں نے مشرق سے مغرب تک کے سفر میں اپنے شوہر کے ساتھ بحر اوقیانوس عبور کرنے کی نان سٹاپ فلائٹ مکمل کرنے کی کوشش کی۔ برج پورٹ کنیٹیکٹ میں ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے اُن کا طیارہ گر گیا
- سنہ 1936 میں انھوں نے 1932 میں اپنا لندن سے کیپ ٹاؤن تک تیز ترین سفر کرنے کا ریکارڈ جسے فلائٹ لیفٹیننٹ ٹومی روز نے توڑ دیا تھا دوبارہ قائم کیا۔ یہ ان کا آخری لمبا سفر تھا
ایمی جانسن کی دلیرانہ ہوابازی نے انھیں انتہائی مقبول بنا دیا اور انھوں نے متعدد ریکارڈ توڑے
وہ ایک لمبے عرصے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہیں مگر آہستہ آہستہ عوام میں اُن کی پروازوں میں دلچسپی کم ہونے لگی اور جم مولیسن سے ان کی شادی بھی طلاق پر ختم ہو چکی تھی۔
مزید پڑھیے
ایمی جانسن نے جنگ کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کے لیے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ سنہ 1940 میں انھوں طیاروں کو فیکٹریوں سے رائل ایئرفورس کی ایئربیسز تک پہنچانے کا کام شروع کیا۔ دی رائل ایئر فورس ہسٹری ویب سائٹ کے مطابق اُس وقت انھیں ایک ہفتے کے کام کے لیے چھ پاؤنڈ کی تنخواہ دی جاتی تھی جو اُس وقت کے مطابق کافی بڑی رقم تھی۔
بدقسمتی سے ایمی جانسن کے لیے اس نوکری کے دوران اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہی اُن کی زندگی کے خاتمے کی وجہ بنا۔
جنوری 1938 میں اپنی ہلاکت سے چند سال قبل ایمی جانسن ایک پریزنٹیشن دیتے ہوئے
حیرت انگیز انکشافات
اس واقعے کے ساٹھ سال بعد ایک اہم عینی شاہد کی گواہی بی بی سی کے پروگرام انسائیڈ آؤٹ میں پیش کی گئی۔
ڈیرک رابرٹس رائل ایئر فورس کے فلائیٹ آفس میں ایک کلرک تھے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُس روز ایک شخص پیرا شوٹ کے ذریعے پانی میں اُترا تھا۔ اُن کے دوست کارپورل بل ہال بحری جہاز ایچ ایم ایس ہیزلمیئر پر موجود تھے۔ جب ایمی جانسن کا طیارہ گرا تو بحری جہاز کے عملے نے انھیں پیراشوٹ سے نیچے آتے دیکھا اور انھیں بچانے کے لیے روانہ ہوئے۔
کارپورل بل ہل نے ریسکیو مشن سے واپسی پر اپنی رپورٹ پیش کی۔ ڈیرک نے کارپورل ہل کی جانب سے بیان کی گئی رپورٹ ٹائپ کی تھی۔
ڈیرک کی کہانی
ڈیرک نے انسائیڈ آؤٹ کو بتایا کہ ’وہ اطلاع دینے آئے تھے کہ کیا ہوا تھا اور میں نے اسے درج کیا تھا۔ میں نے رپورٹ ٹائپ کی اور انھوں نے اسے منظور کیا اور میں نے اسے فلائٹ کمانڈر کے سامنے پیش کر دیا۔
ڈیرک نے کارپورل ہل کے بیان کے بارے میں مزید بتایا کہ ’انھوں نے کہا کہ جب وہ ڈیک پر تھے تو ایک پیراشوٹسٹ پانی میں نیچے اُترا تھا اور بہہ کر ہیزلمیئر کے نزدیک آیا۔ اس نے آواز دی کہ وہ ایمی جانسن ہیں اور یہ کہ پانی یخ بستہ ہے اور کیا وہ انھیں جلد از جلد باہر نکال سکتے ہیں۔ انھوں نے رسی پھینک دی لیکن وہ اُسے پکڑ نہیں سکیں۔ پھر کسی نے بھاگ کر جہاز کے برج پر انجنز کا رُخ پلٹ دیا جس کے نتیجے میں وہ پروپیلر کی طرف کھینچی چلی گئیں اور ٹکڑوں میں کٹ گئیں۔‘
ڈیرک نے کارپورل ہل کے بیان کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’آگے جا کر وہ اپنی زندگی میں اپنے ہمسایوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ ایمی کی موت کو سرکاری طور پر دبایا گیا تھا۔ کسی وجہ سے اس بارے میں خاموشی اختیار کی گئی تھی۔‘
ایچ ایم ایس ہیزلمیئر کے عملے نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے تھیمز ایسچوری میں دو افراد کی لاشیں تیرتی دیکھیں حالانکہ ایمی نے اکیلے ہی سفر شروع کیا تھا۔ دوسرے کسی شخص کی موجودگی ثابت نہیں ہو سکی لہذا کسی جاسوس کی موجودگی کے بارے میں افواہیں پھیلیں۔
ایمی جانسن کی کیپ ٹاؤن کے سفر پر روانگی سے پہلے سٹیگ لین ایروڈروم میں لی گئی تصویر
ایمی جانسن کی سوانح عمری کی مصنف مِج جِیلیز کا خیال ہے کہ پراسرار شخص کی وضاحت آسان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘ایمی کا پگ سکن بیگ جسے کریش کے بعد تھیمز سے نکالا گیا تھا وہ پراسرار شخصیت ہو سکتی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’دھند اور پانی پر برف کی تہہ میں تیرتے بیگ کو سر اور کندھے سمجھنے کی غلطی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔‘
ہیزلمیئر کے کیپٹن لیفٹیننٹ کمانڈر فلیچر نے ریسکیو کے دوران برفیلے پانیوں میں غوطہ لگایا تھا۔
انھیں بے ہوشی کی حالت میں پانی سے باہر نکالا گیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کسی کو بتاتے کہ انھوں نے کیا دیکھا یا کسے دیکھا وہ ہائپوتھرمیا کی وجہ سے مر گئے۔ ان کے بیان اور مزید گواہوں کی کمی کی وجہ سے امکان ہے کہ ایمی جانسن کی موت کی قطعی تفصیلات ایک ابدی راز ہی رہیں۔
ان کی موت سے متعلق سوالات کے باوجود ایمی جانسن بہت سی خواتین کے لیے عظمت کا نشان ہیں۔
ایمی جانسن کی دلیرانہ ہوابازی نے انھیں اُس دور اور آنے والے دنوں کے لیے ایک آئیکن بنا دیا مگر بدقسمتی سے اُن کی زندگی ایک المناک اور پراسرار حادثے میں ختم ہوئی۔
Comments are closed.