ایران میں امریکہ کا وہ خفیہ آپریشن جس پر صدر جمی کارٹر کو پچھتاوا رہا
- ریحان فضل
- بی بی سی نمائندہ، دہلی
ایک زمانے میں امریکہ اور ایران کے درمیان گہری دوستی ہوا کرتی تھی۔ یہ رشتہ اس وقت بگڑ گیا جب اسلامی انقلاب کے بعد شاہ ایران 16 جنوری 1979 کو اپنے ملک سے چلے گئے اور برسوں سے فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے آیت اللہ خمینی کی وطن واپسی ہوئی۔
22 اکتوبر سنہ 1979 کو در در بھٹکنے والے ایرانی شاہ کو امریکی صدر جمی کارٹر نے کینسر کے علاج کے لیے امریکہ آنے کی اجازت دے دی۔
دو نومبر کو تہران کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے دس بجے امریکی سفارتخانے کی پولیٹیکل آفیسر الزبتھ این سوئفٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ کے آپریشن سینٹر کو ایک ہنگامی فون کال کی جس میں بتایا گیا کہ ‘ایرانیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم دیوار پھلانگ کر ان کے احاطے میں داخل ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
‘کسی بھی وقت بھیڑ کا سفارتخانے پر قبضہ ہوسکتا ہے، لہذا ہمارے عملے نے تمام خفیہ دستاویزات نذر آتش کرنا شروع کر دیا ہے۔’ دوپہر تک ایرانیوں نے سفارتخانے کی پہلی منزل میں آگ لگا دی تاکہ تمام ملازمین خوفزدہ ہو کر باہر آجائیں۔
12 بج کر 20 منٹ پر سفارتخانہ کے عملہ کو مرکزی دروازہ کھولنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ مستقل رابطے میں سوئفٹ کے آخری الفاظ یہ تھے: ‘وی آر گوئنگ ڈاؤن’ یعنی ہم نیچے جارہے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد پوری دنیا نے امریکی سفارتکاروں کا پریشان کن منظر دیکھا جس میں ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اور وہ ہزاروں لوگوں کے سامنے پریڈ کر رہے تھے۔
ایران پر امریکی دباؤ کا کوئی اثر نہیں ہوا
امریکی صدر جمی کارٹر نے 53 امریکی یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
جمی کارٹر نے اپنی سوانح عمری ‘اے فل لائف ریفلیکشن ایٹ نائنٹی’ میں لکھا: ‘میں نے آیت اللہ کو متنبہ کیا کہ اگر کسی یرغمالی کو نقصان پہنچا تو میں بیرونی دنیا سے ایران کا رابطہ ختم کروا دوں گا۔ اگر ایران نے کسی بھی یرغمالی کو مارنے کی جسارت کی تو امریکہ ایران پر حملہ کردے گا۔
‘انھوں نے میرے انتباہ کو سنجیدگی سے لیا اور امریکی یرغمالیوں کی دیکھ بھال میں احتیاط برتی۔ ایک یرغمالی کے ہاتھ پر فالج کا اثر ہوا تو ایرانیوں نے اسے فورا رہا کردیا۔’
جب تمام یرغمالیوں کو رہا کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، تو کارٹر نے انھیں رہا کرنے کے لیے فوجی آپشن کا انتخاب کیا۔ اس مہم کا نام ‘آپریشن ایگل کلا’ رکھا گیا۔
کرنل چارلی بیک ود کو اس مہم کا سربراہ بنایا گیا۔ بعد میں ان کی ٹیم کے ایک رکن ویڈ ایشیموٹو نے ایک انٹرویو میں کہا: ‘ذاتی طور پر مجھے اس مہم کے کامیاب ہونے کی بہت کم امید تھی۔
’لیکن میں نے اسے عام نہیں کیا کیونکہ جب امریکہ کے صدر آپ سے کہتے ہیں کہ ‘جاؤ’ تو آپ جاتے ہیں۔’
،تصویر کا ذریعہOSPREY PUBLISHING LTD.
کرنل چارلی بیک ود کو اس خفیہ مشن کا سربراہ بنایا گیا تھا
رات کی تاریکی میں ہرکولیس طیارہ ایرانی صحرا میں اترا
24 اپریل 1980 کو امریکی فضائیہ کے ہرکولیس طیارے نے عمان کے جزیرے مسیرہ سے پرواز بھری۔ اس ہوائی جہاز کو سیاہ رنگ میں رنگا گیا تھا۔ لہذا وہ سیاہ رات اور سمندر کے سیاہ پانی پر اُڑتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا۔
مارک باوڈن اپنی کتاب ‘گیسٹس آف دی آیت اللہ’ میں لکھتے ہیں: ‘طیارے کی کوئی لائٹس نہیں جل رہی تھی۔ اندر امریکی فوج کے 74 فوجی طیارے کے فرش پر لیٹے تھے۔ طیارے کے صرف 11 رکنی عملے کو بیٹھنے کے لیے نشستیں دی گئی تھیں۔
’ہوائی جہاز میں موجود فوجیوں کے علاوہ ایک جیپ، پانچ موٹرسائیکلیں، ہیوی ایلومینیم کی پانچ بڑی چادریں بھی تھیں۔ طیارے نے ڈھائی سو فٹ کی بلندی پر ایران کے ساحل کو عبور کیا تاکہ ایرانی ریڈار کی گرفت میں نہ آسکے۔ طیارہ ساحل عبور کرتے ہی 5000 فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا۔’
ہر فوجی کے پاس دس ہزار ڈالر مالیت کی ایرانی کرنسی تھی
ایک گھنٹہ کے بعد اسی جگہ سے مزید تین طیاروں نے اُڑان بھری۔ ان میں سے ایک طیارے میں بیک وڈ کے دستے باقی افراد سوار تھے۔ فوجیوں کی کل تعداد اب 132 ہوگئی تھی۔ باقی طیاروں کے اندر ربڑ کے غباروں میں 18000 گیلن ایندھن بھرے ہوئے تھے۔
جسٹن ولیمسن اپنی کتاب ‘آپریشن ایگل کلا ڈیزاسٹرس بِڈ ٹو ایںڈ ایران ہوسٹیج کرائسس’ میں لکھتے ہیں: ‘ہر فوجی کو جعلی پاسپورٹ اور ویزا دیا گیا تھا۔’
سرورق ‘گیسٹس آف آیت اللہ’
اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہ مہم ناکام ہو جاتی ہے تو یہ لوگ اپنی مہارت سے ایران سے نکل سکیں۔ ان فوجیوں نے دانستہ طور پر اپنی وردی نہیں پہنی تھی۔ ان میں سے بیشتر کے لمبے بال اور داڑھیاں تھیں۔ انھوں نے نیلی جینز پر خاکی یا سیاہ قمیض پہنی ہوئی تھیں۔
انھوں نے قمیض پر سیاہ جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر چھوٹا سا امریکی پرچم بنا تھا، جسے سیاہ برقی ٹیپ سے چھپایا گیا تھا۔
انھیں یہ حکم تھا کہ مہم ختم ہونے کے بعد وہ ٹیپ کو ہٹا دیں تاکہ پرچم نظر آنے لگے۔ ہر فوجی کو ایک کار، 15 رائفل اور ایک پوائنٹ 45 کیلبر کی ایم 1911 پستول دی گئی تھی۔
ان میں سے ہر ایک کے پاس کیلر آرمڈ ویسٹ، چاقو، بولٹ کٹر، ماسک، راشن اور ایرانی کرنسی ریال میں دس ہزار امریکی ڈالر تھے۔
اس ٹیم میں دو سابق ایرانی جرنیل، چھ ایرانی ٹرک ڈرائیور اور سات فارسی بولنے والے امریکی ڈرائیورز بھی شامل تھے۔
اچانک پہنچنے والی بس پر دستی بم پھینکا گیا
ہرکولیس طیارہ نامزد جگہ پر دس بج کر45 منٹ پر بہت آرام سے اترا۔
امریکی دستے کے ایک کمانڈر لوگان فتھ نے اُڑنے والی دھول سے بچنے کے لیے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی۔ اسی دوران انھوں نے دائیں طرف دیکھا کہ ایک بس ان کی طرف دوڑی آرہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہOSPREY PUBLISHING LTD.
اس پر سامان لدا تھا، اندر 44 مسافر بیٹھے تھے۔ امریکی فوجیوں نے بس کے سامنے 40 ایم ایم کا گرنیڈ پھینک کر اس کے سامنے والے دائیں ٹائر کو پنکچر کردیا۔ جیسے ہی بس رکی تمام مسافروں کو نیچے اتار لیا گیا۔
کچھ منٹ کے بعد ایک ایندھن کا ٹینکر ان کی طرف آتا نظر آیا۔ جب ان کے چیخنے پر بھی ٹینکر نہیں رکا تو کندھے کے راکٹ سے ان پر فائر کیا گیا۔
اس کی وجہ سے ٹینکر میں بیٹھے ایک شخص کی موت ہوگئی لیکن ڈرائیور ٹینکر سے باہر نکل کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ جیسے ہی راکٹ ٹینکر سے ٹکرایا اس میں بھرے 3000 گیلن ایندھن میں آگ لگ گئی اور ایسا لگا جیسے رات میں سورج طلوع ہو گیا ہو۔
آٹھ ہیلی کاپٹرز بھی ایران کے لیے روانہ ہوئی
دوسری طرف لیفٹیننٹ کرنل ایڈورڈ سیفرٹ کی سربراہی میں آٹھ ہیلی کاپٹر ایرانی ساحل سے 58 کلو میٹر جنوب میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس نیمٹز سے روانہ ہوئے۔ انھوں نے چابہار کے ساٹھ میل مغرب میں صرف 200 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ایرانی فضائی حدود کو پار کیا۔
ایرانی سرحد کے 140 کلومیٹر اندر بلیو برڈ 6 انجن میں خرابی آنے لگی۔ بلیڈ انسپیکشن میتھڈ کی وارننگ لائٹ روشن ہوتے ہی پتا چلا کہ ہیلی کاپٹر کے پنکھوں سے پریشرائزڈ نائٹروجن لیک ہونے لگی ہے جس سے اس کے گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
مجبوراً ایرانی سرزمین پر بلیو برڈ 6 کو نیچے لانا پڑا۔ اس کے ساتھ پیٹے بلیو برڈ 8 بھی اترا۔ بلیو برڈ 6 میں سوار فوجی بلیو بارڈ 8 میں سوار ہوئے اور اپنے ہدف کی طرف بڑھنے لگے۔ مارک باوڈن نے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘ایرانی سرحد کے 200 کلومیٹر اندر اڑنے والے ساتوں ہیلی کاپٹروں نے اپنے سامنے ٹیلکم پاؤڈر کی دیوار سی دیکھی۔
امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس نیمٹز
اسے فارسی میں ‘حبوب’ کہتے ہیں۔ سیفرٹ اپنے ہیلی کاپٹر کو اس دیوار کے اندر لے گئے۔ اندر داخل ہونے پر جب انھوں نے اپنے دانتوں کے اندر موجود خاک کے ذرات کو محسوس کیا تو انھیں احساس ہوا کہ وہ اس ریت کے اندر چل رہے ہیں جو ہوا میں رک گیا ہے۔
اچانک ہیلی کاپٹر کے اندر کا درجہ حرارت 100 ڈگری تک بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر میں یہ دھول اچانک اسی طرح غائب ہوگئی جیسے آئی تھی۔’
ایک اور بڑے ‘حبوب’ میں تمام ہیلی کاپٹر پھنسے
سیفرٹ کو اندازہ نہیں تھا کہ تقریبا 50 میل آگے ایک دوسرا بڑا حبوب ان کا منتظر ہے۔ اس بار دھول پہلے کی نسبت زیادہ گھنی تھی اور تقریبا 100 کلو میٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی تھی۔ جسٹن ولیمسن لکھتے ہیں: ‘نائٹ ویژن عینک کے باوجود ہیلی کاپٹرکے عملوں کو کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
‘انھیں اپنے ساتھ پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ چونکہ ڈرائیور ریڈیو پر ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے تھے، لہذا انھیں ایک دوسرے کی حالت کا علم نہیں تھا۔ پھر کرنل چک پٹمین کی سربراہی میں اڑنے والے بلیو برڈ 5 کا برقی نظام ناکام ہوگیا۔
ہیلی کاپٹر نے اوپر جانے کی بہت کوشش کی لیکن حبوب نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کسی حادثے کے پیش نظر انھوں نے اپنے ہیلی کاپٹر کا رخ نیمٹز کی طرف موڑ دیا جہاں سے وہ اڑ کر آئے تھے۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ اگر وہ 25 کلومیٹر مزید آگے جاتے تو انھیں صاف آسمان مل سکتا تھا۔’
کمانڈ سینٹر کی کمی کھلی
جب باقی ہیلی کاپٹر آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچے تو ان کا دھول کے بادلوں سے پیچھا چھوٹا لیکن اچانک ہیلی کاپٹر کے اندر کا درجہ حرارت بہت سرد ہوگیا۔ سی-130 طیارے سے آنے والے فوجی ہیلی کاپٹر کے اترنے کے منتظر تھے۔ صبح کا وقت قریب آتے ہی ان کی دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں۔
جب ایک بجے سے کچھ منٹ قبل انھیں ہیلی کاپٹروں کی آواز سنی تو ان کی جان میں جان آئی۔ سیفرٹ کو اوپر سے جلتا ہو ٹینکر نظر آیا۔ وہ سمجھے کہ سی 130 حادثے کا شکار ہوگیا۔ جب انھوں نے پورے علاقے کا چکر لگایا تو دیکھا کہ چاروں 130 نیچے صحیح سلامت کھڑے ہیں۔
نیچے آتے ہی ہیلی کاپٹروں میں ایندھن بھرا جانے لگا۔ اب ایران کے صحرا میں چھ ہیلی کاپٹروں سمیت دس طیارے کھڑے تھے اور کانوں کا بہرا کردینے والا شور، تاریکی اور اڑتی ہوئی ریت ایک عجیب سا ماحول پیدا کررہی تھی۔
وہاں نہ تو کمانڈ سینٹر تھا اور نہ ہی فوجیوں نے وردی پہننے رکھی تھی کہ پتا چلے کہ انچارج کون ہے۔ پھر اچانک ایک ہیلی کاپٹر بلیو برڈ 2 کے پنکھوں نے گردش کرنا بند کردیا۔
اچانک ایک ہیلی کاپٹر خراب ہوگیا
جب کرنل جیمس کیلی نے ہیلی کاپٹر کے ڈرائیوروں سے بات کی تو انھوں نے اطلاع دی کہ ہیلی کاپٹر اب اڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔ بعد میں کرنل جیمز کیلی نے جان رابرٹس ایڈیسن کے ساتھ ملکر ‘دی گٹس ٹو ٹرائی’ نامی کتاب لکھی۔ انھوں نے لکھا کہ ‘ہائیڈرولک نظام کے خراب ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر غیر محفوظ ہوگیا تھا، لیکن بیک وڈ پھر بھی چاہتے تھے کہ پائلٹ اسے اڑنے کی کوشش کرے، لیکن میں نے ان کی بات نہیں سنی۔
‘اب صرف پانچ ہیلی کاپٹر بچے تھے اور یہ فیصلہ پہلے سے کیا گیا تھا کہ اگر ہمارے پاس چھ سے کم ہیلی کاپٹرز ہوں گے تو ہم آپریشن کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔ جب جنرل جیمز واٹ نے واشنگٹن کو یہ بری خبر دی تو وہاں بیٹھے جنرل جونز کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ جب صدر کارٹر اور ان کے سلامتی کے مشیر بریزنسکی کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا صرف پانچ ہیلی کاپٹروں سے آپریشن جاری رکھا جاسکتا ہے؟’
جسٹن ولیمسن لکھتے ہیں: ‘اس موقع پر موجود بیک ود اس بات پر ناراض تھے کہ اس معاملے پر اتنی بات کیوں کی جارہی ہے۔ انھوں نے تین ماہ قبل جنوری میں ہی جنرل واٹ پر یہ بات واضح کردی تھی کہ چھ ہیلی کاپٹروں کے بغیر آپریشن آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ آخر کار بیک وِد کو چیخ کر کہنا پڑا کہ ‘نو وے۔’
‘اگر ہم پانچ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ جاتے ہیں تو ہمیں بیس یرغمالیوں کو تہران ہی میں چھوڑنا پڑے گا۔ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کن کو چھوڑ کر آئیں؟’ آخر کار جونز نے ہچکچاتے ہوئے جنرل واٹ سے کہا: ‘ہم مہم ختم کرنے کے آپ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔’
کرنل جیمز کیلی
اچانک اڑتا ہوا ہیلی کاپٹر گِر گیا
پھر ایک اور حادثہ پیش آیا۔ اڑنے کی کوشش کرنے والے ایک ہیلی کاپٹر کا پنکھا نیچے کھڑے طیارے سے ٹکرا گیا۔
ڈیلٹا کے ایک سارجنٹ مائیک وائننگ نے جسٹن ولیمسن کو بتایا: ‘میں نے زور دار آواز سنی ہے۔ ہیلی کاپٹر طیارے کے انجنوں سے ٹکرایا اور پھر طیارے کے کاک پٹ پر بائیں طرف آکر ٹھہر گیا۔
‘اس سے لگنے والی آگ 300 فٹ تک اوپر جارہی تھی۔ اس وقت جہاز میں ہمارے عملے کے 33 ساتھی اور 8 افراد سوار تھے۔
‘جب طیارے کا پچھلا دروازہ کھلا تو اندر کی ہوا کی وجہ سے شعلے مزید بھڑک اٹھے۔ میں جلتے طیارے سے نیچے کود پڑا۔ میرا ہاتھ کسی دھات سے ٹکرایا اور انگلیاں جل گئیں۔ آخر کار جہاز میں سوار 41 افراد میں سے 38 کو بچایا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ریڈ آئی میزائل طیارے کی دیوار کو چیرتا ہوا بیابان میں گم ہو گیا۔’
کارٹر کا چہرہ سفید پڑ گیا
دوسری طرف مہم کے ختم کیے جانے سے پریشان جمی کارٹر کے پاس جب جنرل جونز کا فون آیا تو ان کی آواز سنتے ہی کارٹر کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
انھوں نے آنکھیں موند لیں۔ جب انھوں نے پوچھا کہ ‘کیا کچھ لوگوں کی موت بھی ہوئی’ ہے تو کارٹر کے پاس بیٹھے لوگ سمجھ گئے کہ ‘آپریشن ایگل کلا’ ناکام ہوگیا ہے۔
اس خبر کے آنے سے پہلے ہی مستعفی ہونے والے وزیر خارجہ سائرس وانس نے کہا: ‘مسٹر پریزیڈنٹ آئم ایم ویری ساری۔’ وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف ہیملٹن اردن نے دوڑ کر صدر کا غسل خانہ کھولا اور واش بیسن میں قے کی۔
رات کے ایک بجے وائٹ ہاؤس سے اس ناکامی کے بارے میں ایک بیان جاری کیا گیا: ‘یہ مہم ایران یا اس کے عوام کے خلاف نہیں ہے۔ ہمارا ملک ان فوجیوں کا شکر گزار ہے جنھوں نے ہمارے یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے لیے پوری طاقت کا مظاہرہ کیا۔’
27 اپریل کو کارٹر اور بریزنسکی اس مہم میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملنے کے لیے ورجینیا کے کیمپ پیری گئے۔ وہاں چشم نم سے کرنل بیک ود نے کارٹر سے معافی مانگی اور کہا: ‘آئی ایم ویری ساری، وی لیٹ یو ڈاؤن۔’
پانچ دن بعد اس مہم میں مارے جانے والے آٹھ امریکی فوجیوں کی لاش لے کر انٹرنیشنل ریڈ کراس کا طیارہ جنیوا پہنچا۔
آخر کار 20 جنوری 1981 کو ایران نے ان 52 قیدیوں کو 444 دنوں تک یرغمال رکھنے کے بعد رہا کردیا۔
بعد میں جب بھی کسی نے جمی کارٹر سے پوچھا کہ ’آپ اپنے عہد صدارت کی کون سی چیز کو تبدیل کرنا چاہیں گے؟‘
تو کارٹر کا جواب تھا ‘کاش میں نے اس مشن میں ایک اور ہیلی کاپٹر بھیجا ہوتا۔’
Comments are closed.