ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری ’خفیہ جنگ‘۔۔۔’ادلا بدلی کا ایک خطرناک کھیل‘
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
خلیجِ اومان میں بحری قزاقوں کو دور رکھنے کے لیے تجارتی جہاز سکیورٹی گارڈ بھرتی کرتے ہیں
گذشتہ ہفتے ایک تجارتی ٹینکر پر ڈرون حملے کے بعد سے سخت الفاظ کا تبادلہ ہو رہا ہے، سفارت کاروں کو طلب کیا جا رہا ہے اور بدلا لینے کی دھمکیاں عوامی طور پر دی جا رہی ہیں۔
برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل تینوں ہی ایران پر الزام عائد کر رہے ہیں جبکہ ایران نے اس کی پُر زور تردید کی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ایران نے اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے والے کسی بھی اقدام کا سخت جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
تو آخر ہوا کیا ہے اور اس سب کے پیچھے کیا ہے؟
جمعرات 29 جولائی کو درمیانے سائز کا آئل ٹینکر ایم وی مرسر سٹریٹ کارگو کے بغیر تنزانیہ میں دارالسلام سے متحدہ عرب امارات کی فجیرہ بندرگاہ جاتے ہوئے اومان کے ساحل سے کچھ دور تھا۔
اس جہاز پر لائبیریا کا پرچم ہے اور یہ ایک جاپانی کمپنی کی ملکیت ہے مگر اسے زوڈیئک میری ٹائم نامی اسرائیلی کمپنی چلاتی ہے۔
بعد میں اس ٹینکر سے دھماکہ خیز مواد سے لدا ایک ڈرون ٹکرایا جو اس کے برج کے قریب پھٹا۔ اس سے رہائشی کمروں کو نقصان پہنچا۔ ایک رومانین اور ایک برطانوی سکیورٹی گارڈ اس حملے میں ہلاک ہوئے۔
بعد ازاں امریکی بحریہ کے دو جنگی جہاز اس بحری جہاز کو بندرگاہ تک لے گئے۔
رواں سال اسرائیل سے منسلک جہاز رانی پر کئی حملے ہوئے ہیں اور سب کا الزام ایران پر عائد کیا گیا ہے۔
ایران نے ان تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
اسرائیل کے بارے میں بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپریل میں بحیرہ احمر میں ایک ایرانی فوجی رسد کے بحری جہاز کے ہل کے قریب پراسرار دھماکے کے پیچھے ہے۔
یہ سب ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری ‘خفیہ جنگ’ کہلائی جانے والی لڑائی کا حصہ ہے۔
یہ ادلا بدلی کا ایک خطرناک کھیل ہے جس میں مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی جانب سے ایران کے نیوکلیئر ڈویلپمنٹ پروگراموں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ برطانوی بحری سکیورٹی گارڈ بحری قزاقوں کو ہتھیار دکھا کر دور رہنے کا اشارہ کر رہے ہیں
انٹیلیجنس کی غلطی؟
اگر برطانیہ، اسرائیل اور امریکہ کے دعووں کے مطابق واقعی ایران اس حملے کے پیچھے ہے تو یہ ایرانی انٹیلیجنس کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا جھگڑا بنیادی طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے چنانچہ ایک برطانوی شہری کو ہلاک کر کے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کو اس بکھیڑے میں کھینچ لانے سے سفارتی طور پر مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
بورس جانسن نے کہا ہے کہ ایران کو ‘اپنے اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔’
اُنھوں نے اسے ‘تجارتی جہاز رانی پر ناقابلِ قبول اور اشتعال انگیز حملہ’ قرار دیا۔
برطانیہ میں ایران کے سفیر محسن بہروند کو دفترِ خارجہ طلب کیا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ اُن کے ملک کو بین الاقوامی جہاز رانی کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات فوری طور پر روکنے ہوں گے۔
ایران نے ایک مشتعل تردید کی ہے اور حملے میں اپنے ملوث ہونے کے ثبوت دکھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کی وزارتِ خارجہ نے بھی تہران میں برطانوی ناظم الامور کو طلب کیا اور برطانیہ، اسرائیل اور امریکہ کے الزامات کو ‘بے بنیاد پروپیگنڈا’ قرار دیا۔
ایک دردناک پیغام
ان تینوں ممالک نے ردِ عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے مگر جہاں عوامی طور پر ان کا مشترکہ مؤقف ہے، وہیں ان کے مختلف مقاصد ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی چاہتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران کے سول جوہری پروگرام پر سخت حدود و قیود نافذ کر کے اس پر سے سخت اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔
مگر یہ جوہری معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو سنہ 2018 میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکال لینے کی وجہ سے مؤثر نہیں رہا۔
اس حوالے سے ویانا میں گفت و شنید جاری ہے مگر اسرائیل اس جوہری معاہدے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اسے ایران کی مبینہ جوہری تحقیق کے لیے ایک پردہ تصور کرتا ہے۔
خلیجِ اومان بحیرہ عرب کو آبنائے ہُرمُز سے منسلک کر دیتا ہے جو کہ ایک انتہائی اہم تجارتی راستہ ہے
اس لیے جب اسرائیل کہتا ہے کہ وہ ‘ایران کو ایسا پیغام بھیجے گا جو اسے سمجھ آئے گا’ تو یہ برطانیہ اور امریکہ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک پیغام ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی انٹیلیجنس سروس موساد ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں نقب زنی کرنے میں حیران کُن حد تک کامیاب رہی ہے اس لیے یہ ایسی دھمکی ہے جسے ممکنہ طور پر تہران میں سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
اور آخر میں ان مغربی ممالک کو یہ مشکل مرحلہ درپیش ہے کہ اس حملے کے متعلق کون سی انٹیلیجنس معلومات عام کی جائیں۔
ایران کا کہنا ہے: اگر آپ کے پاس ہمارے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں تو آئیں، دیکھتے ہیں۔
مگر جو بھی انٹیلیجنس اکٹھی کی گئی ہے اس میں یقینی طور پر خفیہ ذرائع اور ممکنہ طور پر کمیونیکیشن کی ریکارڈنگ (سگنلز انٹیلیجنس) ہو سکتی ہیں جس کے متعلق امریکی اور برطانوی جاسوس نہیں چاہیں گے کہ ایران کو ان کا پتا چلے۔
پر اگر وہ مبینہ طور پر ایران کی جانب اشارہ کرنے والی معلومات عام کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کئی لوگ کہیں گے، جیسا کہ وہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ایران کو ایک ناکردہ جرم کی سزا دینے کے لیے گھڑا گیا بہانہ ہے۔
Comments are closed.