امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، چین
- سام کاربل
- بی بی سی نیوز، واشنگٹن
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے ممکنہ دورے کی خبروں نے چین کو مشتعل کر دیا ہے جس نے وائٹ ہاؤس کو شدید جغرافیائی سیاسی مخمصے میں الجھا دیا ہے۔ یہ مخمصہ کتنا بڑا مسئلہ ہے؟
چین نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کرنے کا پروگرام جاری رکھا تو اس کے ‘سنگین نتائج’ برآمد ہوں گے۔ امریکی ریاستی نظام میں صدارت کے عہدے کے بعد دوسرے نمبر پر، نائب صدر اور اس کے بعد سپیکر کا عہدہ آتا ہے۔ نینسی پیلوسی سنہ 1997 کے بعد سے اس جزیرے کا سفر کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی سیاست دان ہوں گی۔
تائیوان میں کسی قسم کی امریکی مداخلت چین کو مشتعل کر دیتی ہے کیونکہ چین خود مختار تائیوان کو ایک الگ صوبے کے طور پر اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ چین نے اسے حاصل کرنے کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو مسترد نہیں کیا ہے۔
یہاں تک کہ بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ طور پر کیلیفورنیا سے منتخب ڈیموکریٹ پارٹی کی اس لیڈر کو تائیوان جانے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر جو بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ‘فوج کے خیال میں یہ اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔’ لیکن ان کے وائٹ ہاؤس نے ایسے کسی بھی سفر کے خلاف چینی بیان کو ‘واضح طور پر بے سود اور غیر ضروری’ قرار دیا ہے۔
محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ نینسی پلوسی نے کسی سفر کا اعلان نہیں کیا ہے اور تائیوان کے لیے امریکی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اگرچہ امریکہ تائیوان کے بارے میں اپنی اس پالیسی کو برقرار رکھتا ہے جسے وہ تائیوان کے ساتھ ‘مضبوط، غیر سرکاری تعلقات’ کہتا ہے، لیکن اس کے چین کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو ہیں لیکن تائیوان کے ساتھ نہیں ہیں۔
نینسی پلوسی کا دورہ، اگر یہ واقعی ہونا تھا، واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اور امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی رہنما شی جن پنگ کے درمیان متوقع فون کال سے پہلے پیش آیا ہے۔
پلوسی تائیوان کیوں جانا چاہیں گی؟
امریکی عوام اور امریکی کانگریس میں تائیوان سے تعلقات کے لیے دونوں جماعتوں، ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن، کے درمیان ایک مشترکہ حمایت موجود ہے اور 35 سال پر محیط کانگریسی کیریئر کے دوران، سپیکر پلوسی چین کی ایک بھرپور نقاد رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
سپیکر پلوسی نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی ہے اور تائیوان کے جمہوریت کے حامیوں سے ملاقات کی ہے۔ سنہ 1989 کے قتل عام کے متاثرین کی یاد منانے کے لیے بیجنگ میں تیانن مِن سکوائر کا دورہ بھی کیا ہے۔
سپیکر پلوسی کا اصل منصوبہ اپریل میں تائیوان کا دورہ کرنا تھا لیکن کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے مثبت آنے کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے سفر کی تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ‘ہمارے لیے تائیوان کی حمایت کا اظہار کرنا اہم ہے۔‘
چین دورے کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟
چین تائیوان کو اپنے علاقے کے طور پر دیکھتا ہے، اور بار بار یہ بیان دیتا رہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اسے طاقت کے ذریعے ضم کر لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
چینی حکام نے اس بات پر غصے کا اظہار کیا ہے جسے وہ تائپے (تائیوان کا دارالحکومت) اور واشنگٹن (امریکہ کا دارالحکومت) کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس میں اپریل میں چھ امریکی قانون سازوں کا اس جزیرے کا اچانک دورہ کرنا بھی شامل ہے۔
پیر کے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے متنبہ کیا کہ اگر نینسی پلوسی اپنے دورے کے پروگرام کو عملی جامع پہناتی ہیں تو ان کا ملک ‘مضبوط اور غیر لچکدار اقدامات’ کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘اور ان تمام سنگین نتائج کا امریکہ ذمہ دار ہو گا۔’
چینی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔
چینی فوجی ترجمان کرنل ٹین کیفی نے چائنا ڈیلی کو بتایا کہ ‘اگر امریکی فریق آگے بڑھنے پر اصرار کرتا ہے، تو چینی فوج کبھی بھی خالی نہیں بیٹھے گی اور ‘تائیوان کی آزادی’ کے لیے کسی بھی بیرونی مداخلت اور علیحدگی پسندوں کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سخت اقدامات کرے گی۔’
سپیکر پلوسی نے بیجنگ میں سنہ 1989 میں تیانن مِن سکوائر میں چینی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے چینی شہری کے مجسمے کی واشنگٹن میں چینی منحرفین کے ہمراہ سنہ 2019 میں تقریبِ رونمائی میں شرکت کی تھی۔
ملے جلے اشارے
روپرٹ ونگ فیلڈ-ہیز۔ بی بی سی نیوز کے تائی پے میں نامہ نگار:
اگر آپ ایک چھوٹے جزیرے کی ریاست ہیں جس کے چند اتحادی ہیں، جن کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا ہے اور ایک بہت بڑے اور زیادہ طاقتور پڑوسی کی طرف سے حملے کی دھمکی دی گئی ہے، تو امریکہ میں تیسرے طاقتور ترین سیاست دان کا دورہ کرنے کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ تائیوان کی حکومت امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی سے دور رہنے کو نہیں کہے گی۔
تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے طویل عرصے سے امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطح کی مصروفیات پر زور دیا ہے۔ لیکن اس بارے میں تشویش بھی ہے کہ محترمہ پلوسی اب کیوں آرہی ہیں، اور کیا ان کا سفر کسی فائدے کے بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
پچھلے سال میں تین بار صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ امریکہ چین کے حملے کی صورت میں تائیوان کی مدد کے لیے مداخلت کرے گا مگر ہر مرتبہ ان کے عملے کو امریکی صدر کے ان بیانات کو واپس لینا پڑا اور یہ وضاحت دینا پڑی کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
جب سپیکر پلوسی کے تائیوان کے دورے کی خبریں لیک ہوئیں تو صدر بائیڈن کا ردعمل ان کی حمایت میں نہیں تھا بلکہ یہ کہنا تھا کہ ‘محکمہ دفاع کا خیال ہے کہ یہ اچھا آئیڈیا نہیں ہے۔‘
چین میں امریکہ کا ایسا رویہ کمزوری لگتا ہے۔ تائی پے میں یہ کنفیوژن سمجھی جاتی ہے کہ تائیوان کے بارے میں امریکی حکومت کی اصل پالیسی کیا ہے؟
نینسی پلوسی اب 82 سال کی ہیں اور توقع ہے کہ وہ موسم خزاں میں ریٹائر ہو جائیں گی۔ کیا وہ یہاں حقیقی حمایت کی پیشکش کرنے کے واضح ارادے کے ساتھ آ رہی ہیں، یا یہ ایک سیاسی ڈرامے بازی ہے؟ یہ سب کچھ فی الحال بہت غیر واضح ہے۔
اگر یہ دورہ ہوا تو کشیدگی کیسے گہری ہو گی؟
اس سال کے آخر میں چینی کمیونسٹ پارٹی مسٹر ژی کو غیر معمولی تیسری مدت کے لیے دوبارہ صدر منتخب کرنے کے لیے تیار ہے۔
صدر بائیڈن نے، جنہوں نے مارچ میں صدر ژی جن پنگ سے آخری مرتبہ ٹیلی فون پر بات کی تھی، کہا ہے کہ وہ اگلے چند دنوں میں تائیوان اور دیگر ‘کشدگی کے مسائل’ سمیت متعدد موضوعات پر دوبارہ فون پر بات کریں گے۔
نینسی پلوسی کے دورے پر جوابی کارروائی کی دھمکیوں نے چین کے ممکنہ ردعمل پر تشویش کو جنم دیا ہے۔
جب سنہ 2020 میں اس وقت کے امریکی وزیر صحت الیکس آزر تائیوان گئے تھے تو چینی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے تائی پے کے میزائلوں کی حدود میں آبنائے تائیوان کے مرکز میں لائن کو عبور کیا۔ آبنائے تائیوان جزیرے اور اس کے بڑے پڑوسی چین کے درمیان ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے۔
گزشتہ ہفتے چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر نے تجویز پیش کی کہ نینسی پلوسی کے لیے ‘چونکا دینے والا فوجی ردعمل’ ہو سکتا ہے۔
ہُو زن جن نے لکھا کہ ‘اگر پلوسی تائیوان کا دورہ کرتی ہیں تو، (پیپلز لبریشن آرمی) کا فوجی طیارہ جزیرے میں داخل ہونے کے لیے پلوسی کے طیارے کے ساتھ جائے گا اور پہلی بار سرزمین سے فوجی طیاروں کے ذریعے جزیرے کی تاریخی کراسنگ کرے گا’۔
ابھی تک واشنگٹن کی ‘سٹریٹجک ابہام’ کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ آیا وہ جزیرے پر بڑے پیمانے پر حملے کی صورت میں تائیوان کا دفاع کرے گا یا نہیں۔
اس پس منظر میں میڈیا پر چینی حکام کے حوالے سے بدھ کو یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلی مرتبہ اس کے ڈرونز تائیوانی سیکیورٹی کو پتہ لگے بغیر جزیرہِ تائیوان کا مکمل چکر کاٹ کر لوٹ آئے ہیں۔
Comments are closed.