بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

میانمار: وہ لوگ جنھوں نے اپنے مقصد کے لیے جان دے دی، اب ان کی بیویاں مشن جاری رکھیں گی

میانمار میں سزائے موت پانے والے جمہوریت پسندوں میں دو کی بیویوں کا عزم

  • گریس ٹساؤ اور بی بی سی برمی سروس
  • بی بی سی نیوز

Ko Jimmy and Phyo Zeya Thaw
،تصویر کا کیپشن

میانمار کی فوج نے جمہوری تحریک کے چار میں سے دو نمایاں کارکنوں، مصنف اور سماجی کارکن کو جمی (بائیں) اور سابق قانون ساز پھیو زیا تھا (دائیں) کو پھانسی دے دی ہے۔

میانمار میں پیر کو علیٰ الصبح اس خبر نے سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ ملک کی فوجی جنتا نے چار جمہوریت پسند کارکنوں کو پھانسی دے دی ہے، جن میں سابق قانون ساز پھیو زیا تھا اور احتجاجی رہنما کو جمی بھی شامل ہیں۔

بی بی سی نے ان دونوں افراد کو سزائے موت دیے جانے سے ہفتوں پہلے ان کے اہل خانہ اور دوستوں سے بات کی تھی۔

3 جون کی رات کو یاد کرتے ہوئے تھازین نیونٹ آنگ کہتی ہیں کہ ‘مجھے ستاروں کو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس وقت میں جانتی تھی کہ ہمارے لیے بات چیت کرنے کا واحد ذریعہ آسمان ہے۔’ اُس دن تھازین نیونٹ نے کہا تھا کہ اُسے حکام نے آگاہ کردیا تھا کہ اس کے منگیتر پھیو زیا تھا کی پھانسی کی توثیق ہو گئی ہے اور اس پر عملدرآمد ہو گا۔ اسے جنوری میں سزا سنائی گئی تھی۔

وہ ان چار کارکنوں میں سے ایک تھا جن کی سزائے موت کی اس دن توثیق کی گئی تھی۔ ان چار کارکنوں میں پھیو زیا تھا کے علاوہ کو جمی، جن کا اصلی نام کیا مِن یو ہے، ہلا میو آنگ اور آنگ تھورا زاؤ ہے۔ ان سب کو گزشتہ ہفتے کے آخر میں کسی وقت پھانسی دی گئی تھی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ انھیں کب سزائے موت دی گئی تاہم ایک سرکاری میڈیا ادارے نے پیر کی صبح ان کی موت کی اطلاع دی۔

لیکن ایک ہفتے پہلے، تھازین نیونٹ آنگ، ایک مختلف نتیجے کے لیے پر امید تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم جڑے ہوئے ہیں اور وہ مضبوط رہے گا۔’

تھازین کی امید کی وجہ یہ تھی کہ میانمار نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کسی کو پھانسی نہیں دی تھی۔ آخری بار کسی سیاسی کارکن کو پھانسی سنہ 1988 میں دی گئی تھی۔

گلوکاری سے مزاحمت تک

پھیو زیا تھا اُن 120 سے زیادہ افراد میں شامل تھے جنہیں فوج کی جانب سے گزشتہ سال فروری میں میانمار کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور رہنما آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے بعد سے ایک خونی بغاوت کے بعد موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

انھیں نو ماہ بعد نومبر میں گرفتار کیا گیا اور فوجی جنتا کے خلاف حملوں کی ایک سیریز کا منصوبہ بنانے کا الزام لگایا گیا۔

تھازین نیونٹ آنگ رنگون میں اپنا گھر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے محفوظ گھر میں چلی گئیں اور تب سے وہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس نے سونے سے پہلے فیس بک استعمال کرنا چھوڑ دیا کیونکہ اس کی فیڈ میں ساتھی مظاہرین کی گرفتاریوں اور فوج کے مظالم کی خبروں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

Phyo Zeya Thaw performs on stage

،تصویر کا ذریعہHandout

،تصویر کا کیپشن

پھیو زیا تھا اکثر بین الاقوامی دوروں پر آنگ سان سوچی کے ساتھ جاتے تھے۔

جب اُنھیں اپنی سزائے موت کے بارے میں پتہ چلا تو تھازین نے کہا کہ اس کی آنکھیں میں آنسو آ گئے اور اس کا جسم کانپنے لگا۔ اسے سردی لگ رہی تھی۔ اسے سیف ہاؤس سے باہر نکلنا اور کسی خاص منزل کو ذہن میں رکھے بغیر چلنا یاد آیا۔

خود کو پرسکون کرنے کے لیے، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھیو زیا تھا کے لیے بدھ مت کی دعائیں پڑھنی شروع کردیں۔

تھازین نے کہا کہ ‘میں نے اسے محبت بھرے پیغامات بھیجے اور اپنے آپ سے ہمت نہ ہارنے کا عہد کیا۔ ہم ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم آخر تک لڑیں گے۔’

41 سال کے پھیو زیاتھا، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) کے ایک قانون ساز اسمبلی کے رکنِ تھے۔ بغاوت سے پہلے میانمار پر این ایل ڈی کی حکومت کی۔

وہ معزول رہنما آنگ سان سوچی کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ وہ سنہ 2015 سے سنہ 2020 تک آنگ سانگ سوچی کے ہمراہ تقریباً تمام بیرون ملک دوروں پر اس کے ساتھ جاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

تاہم اس فوجی بغاوت سے پہلے پونے والے انتخابات میں انھوں نے حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ اپنے ایک اور شوق یعنی ‘ریپنگ’ گلوکاری کی جانب واپس جانا چاہتے تھے۔

تھازین نیونٹ آنگ نے کہا کہ ‘وہ گانے لکھنا اور دوبارہ سٹیج پر پرفارم کرنا چاہتا تھا۔ بطور فنکار ہم نے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ ہر ایک کے بہت سے مقاصد اور خواب ہوتے ہیں لیکن وہ سب بغاوت کے ذریعے تباہ ہو گئے۔ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور انہیں قتل کیا گیا اور قید کر دیا گیا۔’

میانمار کی فوج نے الزام لگایا کہ این ایل ڈی کی بھاری اکثریت سے جیت میں دھاندلی کی گئی تھی۔ اس الزام کی الیکشن حکام نے تردید کی۔ فوج نے جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو تشدد کے ذریعے کچل دیا، کچھ مظاہرے تو ایسے بھی تھے جن میں دسیوں ہزار لوگ شریک ہوئے تھے۔

پھیو زیاتھا کو پہلی بار سنہ 2000 میں میانمار کے پہلے پاپ موسیقی کے ‘ہِپ ہاپ’ گروپوں میں سے ایک’ایسِڈ’ (ACID) کے شریک بانی کے بعد قومی سطح پر شہرت ملی تھی۔

ان کا پہلا البم ‘سا ٹِن گِائن’ (SaTin Gyin)، جس کا مطلب ہے ‘آغاز’، کئی مہینوں تک میوزک چارٹ میں سرفہرست رہا، اور ایک ایسے ملک میں توقعات کے برعکس مقبول رہا جو کافی قدامت پسند تھا۔ لیکن’ایسِڈ’ کی موسیقی اس وقت کے فوجی آمر تھان شوے کے دور میں رہنے والے مایوس نوجوانوں میں بہت مقبول تھی۔

پھیو زیاتھا ملک کے لیے مزید کچھ کرنا چاہتے تھے۔

چنانچہ انھوں نے سنہ 2007 کے ‘زعفرانی انقلاب’ کے بعد ہائی اسکول کے تین دوستوں کے ساتھ ‘جنریشن ویو’ کے نام سے نوجوانوں کے ایک گروپ کی مشترکہ بنیاد رکھی۔ جس کی قیادت راہبوں نے کی۔ اس تحریک کا آغاز ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہوا تھا۔

گروپ نے جمہوریت کے حامی نعرے بازی اور دیوارں پر بنائے گئے سیاسی پیغام والے نقش و نگار (گرافٹی) کے ساتھ ساتھ اسٹیکرز اور پمفلٹ وغیرہ بھی تقسیم کیے۔ ان پر فوری طور پر پابندی لگا دی گئی اور پھیو زیاتھا کو سنہ 2008 میں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن تین سال بعد انہیں عام معافی کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

Phyo Zeya Thaw and Aung San Suu Kyi

،تصویر کا ذریعہBBC Burmese

،تصویر کا کیپشن

پھیو زیاتھا میانمار میں ‘ریپ’ موسیقی کے علمبردار تھے۔

ان کے دوست اور جنریشن ویو کے شریک بانی من یان نینگ کہتے ہیں کہ ‘زیاتھا شروع سے ہی فوجی آمریت اور ناانصافی سے نفرت کرتے تھے۔ ان کا فوجی آمریت کے خاتمے کا یقین اتنا مضبوط تھا کہ وہ ہر وقت کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔’

‘وہ (فوجی جنتا) لوگوں کو دہشت زدہ اور خوفزدہ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح زیاتھا نے سزائے موت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔’

‘اگرچہ وہ اندر سے کچھ محسوس کر سکتے ہیں، لیکن وہ انہیں (فوجی جنتا) اپنے اندر کے خوف کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ زیاتھا کی شخصیت ایسی تھی۔’

ایک نامکمل انقلاب

کیاو من یو جو ‘کو جمی’ کے نام سے معروف تھے، ان کے لیے بھی جیل کی سلاخیں کوئی اجنبی بات نہیں تھی۔

53 سالہ کو جمی نے دو دہائیوں سے زیادہ وقت جیل میں گزارا۔ ایک بار انھوں نے جیل کو اپنا ‘دوسرا گھر’ کہا تھا۔ انھیں گرفتار کیا گیا اور 20 سال کی سخت قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

انھیں گزشتہ سال اکتوبر میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر فوجی مخبروں کے قتل اور پاور سٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں پر حملوں کے ماسٹر مائنڈ میں سے ایک ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان الزامات کی ان کی اہلیہ نے تردید کی تھی۔

Ko Jimmy with two other 88 leaders in Yangon in 2014

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کو جمی (مرکز میں) سنہ 1988 کی بغاوت کے دو دیگر رہنماؤں کے ساتھ۔

کو جمی سنہ 1988 کی بغاوت کے ایک طالب علم رہنما تھے، جس کے دوران لاکھوں شہریوں نے اس وقت کے آمر نی وِن کی 26 سالہ حکمرانی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔

لیکن سلاخوں کے پیچھے بھی وہ سفید اور سبز یونیفارم میں ایک ہائی اسکول کی لڑکی کو کبھی نہیں بھول سکے، انھوں نے برسوں بعد سنہ 2014 میں ایک امریکی نشریاتی ادارے این پی آر کو بتایا تھا۔

برسوں بعد اس لڑکی کو اسی جیل میں بھیج دیا گیا جس میں وہ احتجاج منظم کرنے کے لیے وقت گزار رہا تھا۔ کو جمی نے نیلر تھین کو خط لکھنا شروع کیا اور ان کا رومانس پروان چڑھا۔

حالانکہ وہ جیل میں شادی نہیں کر سکتے تھے لیکن کو جمی نے اُس سے شادی کرنے کی بات کی۔

اِس جوڑے کو سنہ 2004 میں رہا کیا گیا تھا، اُس وقت تک کو جمی نے 15 سال جیل میں گزار چکا تھا جبکہ نیلر کو جیل میں رہتے ہوئے نو برس ہو چکے تھے۔ رہائی کے بعد دونوں نے جلد ہی شادی کر لی۔

سنہ2007 میں جب میانمار میں ‘زعفرانی انقلاب’ کا خاتمہ ہوا تو اس جوڑے نے دوبارہ احتجاج شروع کیا۔

جب کو جمی کو گرفتار کیا گیا تو ان کی بیٹی صرف چند ماہ کی تھی۔ نیلر تھین فوری طور پر روپوش ہوگئیں، اپنے نوزائیدہ کے ساتھ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتی رہیں تاکہ گرفتار نہ ہوں۔

اس سے پہلے کہ وہ بھی گرفتار ہوتی، وہ اپنے بچے کو اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں چھوڑنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ یہ جوڑا 2012 میں عام معافی کی وجہ سے رہا ہونے کے بعد دوبارہ ملا تھا۔

Ko Jimmy released from prison in 2012

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کو جمی 2012 میں جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملا تھا۔

’88 جنریشن’ نامی تنظیم کے رہنما ایک اور من زیا نے کہا کہ ‘انقلاب کی تین دہائیوں کے دوران، جمی نے جیلوں کے اندر اور باہر دونوں طرح کے بدترین حالات کا تجربہ کیا ہے۔ ہم سب کو ان حالات پر بے نڈر اور دلیری کے ساتھ قابو پانا ہوگا۔‘

تازہ ترین گرفتاریوں کے بعد، بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ جنتا کارکنوں کو پھانسی نہیں دے گی، جس کی ایک وجہ بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہے۔

من زیا نے کہا کہ ‘سنہ 1988 میں فوجی آمروں کی مخالفت کرنے پر بہت سے لوگوں کو موت کی سزا دی گئی۔ میں نے ان لوگوں کے ساتھ جیل میں بھی کچھ وقت گزارا۔ لیکن کسی کو پھانسی نہیں دی گئی اور بہت سے لوگوں کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔’

پھانسیوں کی خبریں خاص طور پر چونکا دینے والی تھیں کیونکہ حکام نے جمعے کو کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ایک ورچوئل میٹنگ کا اہتمام کیا تھا – پھانسی دیے جانے کے وقت کے قریب آنے کی افواہوں کی فوجی ترجمان نے تردی کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں پانسی دینے کی کسی کو جلدی نہیں ہے۔

نیلر تھین نے حفاظتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن وہ اپنے شوہر کے علاوہ جتنے دن گزارے ہیں وہ شمار کرتے ہوئے وہ ہر روز فیس بک پر پوسٹ کر رہی ہے۔

پیر کے روز پھانسی کی خبر آنے کے بعد اس نے لکھا: ‘میری محبت، براہ کرم زندہ رہو، ہمارا انقلاب جیتنا چاہیے، تم انسین جیل میں ہو، وہاں جنگ لڑ رہے ہو’۔

اس پوسٹ کے چند گھنٹوں بعد اس نے دوبارہ پوسٹ کیا: ‘جب تک میں جمی کی لاش نہیں دیکھ لیتی ہُوں میں ماتم نہیں کرُوں گی۔’

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چاروں کارکنوں کی لاشوں کو ابھی تک سپرد خاک کر دیا گیا ہے یا نہیں۔

لیکن نیلر تھین اور تھازین نیونٹ آنگ، جو فوج کے قابو میں نہیں آنا چاہتی اور مفرور ہیں، اپنے پیاروں کی راکھ کو دفن نہیں کر سکیں گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.