بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اپنے گھر کے باغ میں بیٹھے شخص پر طیارے نے انسانی فضلہ کیوں گرایا؟

کیا پرواز کرتے طیارے کے ٹوائلٹ سے ہم پر فضلہ گر سکتا ہے اور اس کے ہم پر گرنے کے کتنے امکانات ہیں؟

An aeroplane lands in a beautiful sunset

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانوی شہریوں کو اکثر موسم کی فکر رہتی ہے مگر لندن کے مغرب میں برکشائر کے ایک رہائشی کو اپنے اوپر آسمان سے متعلق ایک خاص شکوہ ہے۔

یہ شخص اپنے باغ میں آرام کر رہا تھا جب ایک جہاز سے انسانی فضلہ اس پر آگرا۔

یہ واقعہ جولائی کے وسط میں پیش آیا تھا مگر اس بارے میں ایک مقامی کونسل میٹنگ کے دوران پتا چلا۔

ایوی ایشن کے مقامی فورم سے بات کرتے ہوئے کونسلر کیرن ڈیوس نے بتایا کہ ان کے حلقے کے ایک شخص نے رابطہ کیا تھا اور وہ اس خوفناک واقعے کے بارے میں سن کر خوفزدہ ہو گئیں۔

کونسلر کیرن ڈیوس نے وضاحت کی کہ کس طرح اس شخص کا پورا باغ، باغ کی چھتریاں اور وہ خود طیارے سے گرنے والے فضلے میں لت پت ہو گئے۔

مگر یہ سب کیسے ہوتا ہے اور کیا ہم سب کو اب آسمان کی طرف دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے؟

ہوا کیا تھا؟

Windsor from the air, showing Windsor Castle

،تصویر کا ذریعہGetty Images

متاثرہ شخص ونڈزر کا رہائشی ہے، جو ملکہ کے محل کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ یہ علاقہ ہیتھرو ایئرپورٹ کی جانب جانے والی پروازوں کا روٹ بھی ہے۔ ہیتھرو ان پانچ بڑے فضائی اڈوں میں سے ایک ہے جو لندن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔

کیرن ڈیوس کہتی ہیں کہ ہر سال طیاروں سے جمے ہوئے فضلے کے پھینکے جانے کے کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہ فضلہ جما ہوا نہیں تھا اور یہ فضلہ پورے باغ پر پھیل گیا۔

’یہ شخص اس وقت باغ میں تھا۔ حقیقی معنوں میں اسے انتہائی خوفناک قسم کے تجربے کا سامنا کرنا پڑا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے کہ آئندہ ان کے کسی شہری کے ساتھ ایسا واقع پیش نہیں آئے گا۔

ایک دوسرے کونسلر جان بوڈن نے کہا ہے کہ ایسا واقعہ شاز و نادر ہی پیش آتا ہوگا۔

ان کے مطابق گرم موسم میں اس واقعے کے پیش آنے کا مطلب یہی ہے کہ یہ فضلہ مزید پگھل کر گرا۔

یہ واقعہ پیش کیسے آیا؟

طیاروں کے ٹوائلٹ میں خصوصی طور پر بنائی گئی ٹینکیوں میں انسانی فضلے کو جمع کر دیا جاتا ہے اور عام طور انھیں اس وقت خالی کیا جاتا ہے جب طیارہ اپنا سفر مکمل کر کے واپس ایئرپورٹ پر اتر جاتا ہے۔

تاہم انٹرنیشنل ایوی ایشن حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ٹوائلٹ میں اس طرح کی لیکس سے ایسے حادثات پیش آ سکتے ہیں۔

اس متعلق بی بی سی برکشائر نے ایوی ایشن کے ماہر جولیان برے سے بات کی کہ اس طرح جہاز سے کتنی مقدار میں فضلہ گر سکتا ہے۔

ان کے مطابق جدید طیاروں میں ’ویکیوم ٹوائلٹ‘ ہوتے ہیں جو نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں اور قدرے بہتر سیل کیے ہوتے ہیں۔ جولیان برے کے مطابق مسئلہ ٹوائلٹ میکنزم اور سٹوریج ٹینک کے درمیان ویکیوم جنکشن ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اس فضلے کو مکمل مضبوطی سے سیل نہیں کیا جا سکتا اور اسے قدرے لچکدار بھی رکھا جاتا ہے کیونکہ جہاز نے کئی طرح کے دباؤ سے گزرنا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اس واقعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاز زمین کی طرف آ رہا ہے اور یہ کوئی چھ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچتا ہے اور پھر دباؤ میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ جہاز کا ٹوائلٹ والا ٹینک لیک کر جاتا ہے اور بدقسمتی سے باغ میں موجود شخص پر فضلہ گر جاتا ہے جس سے اس باغ کا فرنیچر بھی خراب ہوا۔

یہ کتنی عام بات ہے؟

An aeroplane toilet showing blue disinfectant

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جولیان برے کے مطابق یہ بہت ہی کم پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ ان کے مطابق پرانے زمانے میں ’بلیو آئس‘ نامی یہ فضلہ گرنے کے واقعات کثرت سے پیش آتے تھے۔

ان کے مطابق یہ پیشاب اور جراثیم کش عناصر کا مرکب ہوتا ہے جس وجہ سے اس کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے اور اسے ’بلیو آئس‘ کہا جاتا ہے۔

جولیان کا کہنا ہے کہ یہ باقاعدگی سے تو نہیں ہوتا مگر پھر بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ برف کے گولوں کی طرح نیچے آتا ہے اور یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔

آئیور کی رہائشی پال نے حقیقت میں آسمان سے ’بلیو آئس‘ کو گرتے دیکھا ہے اور انھوں نے بی بی سی ریڈیو برکشائر سے اپنے اس تجربے سے متعلق بات کی ہے۔

اپنے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے پال نے کہا کہ ’میں پرِنسسز مارگریٹ ہسپتال سے باہر آرہا تھا اور ایئر کینیڈا کا ایک طیارہ ہیتھرو کی طرف بڑھتے ہوئے بہت کم اونچائی پر پرواز کر رہا تھا۔ میرے سامنے یہ آئس جہاز کے نچلے حصے سے گری اور درخت کی تین شاخوں چیرتی ہوئی مجھ سے 12 فٹ کی دوری پر آ گری۔‘

یہ بھی پڑھیے

پال اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور ان کے خیال میں برکشائر کے رہائشی شخص کو بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ وہ بچ گئے۔

ان کے مطابق وہ شخص جس پر جہاز سے فضلہ گرا ہے اس وجہ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اگر یہ ٹھوس بلیو آئس ہوتی تو پھر اس شخصں کی ہلاکت کا بھی سبب بن سکتی تھی۔

برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سنہ 2016 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ برطانیہ کی فضا میں سالانہ 25 لاکھ پروازوں میں سے ہر سال ’بلیو آئس‘ گرنے کے تقریباً 25 واقعات پیش آتے ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کے واقعات ہر جگہ ہی پیش آتے ہیں۔

عالمی واقعات کی تفصیلات

ایسے افراد جنھوں ںے جہاز سے ایسے انسانی فضلے کے اخراج کے بعد کے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان میں سے کچھ بدقسمت امریکی ریاست پینسلوینیا میں ایک پارٹی میں شامل تھے۔

جوئے کیمبرے لیوٹ ٹاؤن نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ان کی سوتیلی بیٹی کی 16 ویں برتھ ڈے پارٹی اس وقت تہس نہس ہو گئی جب مہمانوں پر کچھ عجیب سا مادہ گرا۔

خوش قسمتی سے اس پارٹی کے لیے جو کینوپی نصب کی گئی تھی اس نے کئی مہمانوں کو اس فضلے سے محفوظ رکھا۔

سنہ 2018 میں شمالی انڈیا کی ریاست ہریانہ کے ایک گاؤں میں آئس بال گرا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی جہاز سے گرنے والا جما ہوا انسانی فضلہ تھا۔

دس سے 12 کلو کا وزنی انسانی فضلہ ایک زوردار آواز سے فضل پور بادلی گاؤں میں جا گرا۔

The 10-12kg chunk of ice fell on Fazilpur Badli village in Gurgaon district on Saturday with a "big thud".

،تصویر کا ذریعہGURGAON POLICE

ایک سینیئر مقامی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ گاؤں والوں نے یہ سوچا کہ یہ خلا سے کوئی غیر معمولی چیز گری ہے۔ ’میں نے سنا کہ لوگ اس کے نمونے بھی گھر لے گئے تھے۔‘

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سنہ 2015 میں ایک 60 برس کی خاتون پر مشکوک بلیو آئس کا ٹکڑا گرا جو ایک فٹ بال کے سائز جتنا تھا۔

انڈیا سمیت دنیا بھر میں جب آپ پر کسی پرندے کا فضلہ گرے تو اسے خوش قسمتی تصور کیا جاتا ہے لیکن اس بدقسمت انڈین خاتون کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور قسم کا فضلہ گرنا کبھی اچھی قسمت کا باعث نہیں ہو سکتا۔

اس خاتون کے کندھے پر شدید چوٹیں آئیں مگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ اس وجہ سے زندہ بچ گئیں کہ ’آئس بال‘ پہلے ایک مکان کے چھت پر گر کر تباہ ہوا اور اس کے بعد خاتون پر گرا۔

خطرے میں اضافہ

مقامی کونسلر جولیان برے کے پاس ونڈزر کے متاثرہ شخص سے متعلق ایک اچھی خبر ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہم میں سے کئی اب گھبراہٹ میں آسمان کی طرف دیکھتے رہیں گے۔

سول ایوی ایشن کے حکام نے ایئرپورٹ کی طرف آنے والے جہازوں کے راستے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔

وہ ایک ’فنل نظام‘ متعارف کرانے جا رہے ہیں۔ جولیان برے کے مطابق اس وقت لینیئر سسٹم رائج ہے جس کے تحت جہاز ایک دوسرے کے راستے پر چلتے ہوئے ائیرپورٹ کی طرف آتے جاتے ہیں۔

’آسمان میں ایک چمنی تصور کیجیے۔۔۔ وہ (حکام) اسمیں کسی بھی جہاز کو لے جائیں گے، اور اس طرح طیارے فضا میں پھیلے رہیں گے۔‘

جولیان برے کے مطابق ’پروازوں کے ایک انتہائی مصروف راستے پر نہ جانے سے خطرہ پھیل جاتا ہے‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایئرپورٹ کی طرف آنے والے طیاروں کے روٹ پر رہنے والے افراد اس طرح کے واقعات میں کمی کی امید کر سکتے ہیں۔

تاہم ایسے لوگ جو ائیرپورٹ سے قدرے فاصلے پر رہتے ہیں وہ خطرے میں ہو سکتے ہیں۔

جولیان کے مطابق ایسے میں ونڈزر کے متاثرہ شخص معاوضے طلب کر سکتے ہیں۔

حالیہ واقع میں شامل ائیر لائن کا نام ابھی بی بی سی کو نہیں بتایا گیا ہے۔ تاہم کیرن ڈیوس کا کہنا ہے کہ اس شخص نے ایئرلائن سے رابطہ کیا ہے اور اس کمپنی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس وقت اس کا جہاز اس علاقے میں موجود تھا۔ مگر جب شہری نے طیاروں کے روٹ کا پتا چلانے والی ایپ کی مدد سے اس جہاز کے بارے میں تصدیق کر دی تو پھر اس کمپنی نے بھی تسلیم کر لیا کہ جہاز اس کا ہی تھا۔

’ذمہ داری خود تسلیم کر لی‘

رہائشی اینڈریو ہال جو کونسل کے آن لائن اجلاس میں موجود تھے کا کہنا ہے کہ اس شخص کو مناسب معاوضہ حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

ان کے مطابق پانی کی کمپنیوں کو سمندر میں یہ فضلہ گرانے پر کروڑوں کا جرمانہ ہوتا ہے اور جب ایک جہاز یہ سب لوگوں کے سروں پر گرا دے تو پھر ایسے میں میرے خیال میں یہ اور بھی بہت سنگین ہو جاتا ہے۔

One plane flies through the turbulence in clouds caused by the plane in front

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم کیرن ڈیوس کے مطابق اس شہری نے معاوضہ نہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کے مطابق وہ یہ سب باغ میں خراب ہونے والے فرنیچر کے لیے نہیں کر رہا تھا۔

بی بی سی نے برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا مگر کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔

ایک اور شخص جو اس بدقسمت معاملے پر بات کرنے سے گریزاں ہے وہ اس بحث کا مرکز اور متاثرہ شخص ہے۔

اس کہانی میں برطانوی جریدوں کی دلچسپی کے باوجود اس شخص نے اس بارے میں کوئی تفصیلات بتانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.