اپنے والدین کے قتل کے ناکردہ جرم میں 17 سال قید کاٹنے والا نوجوان جو جیل سے وکیل بن کر نکلا

  • مصنف, رافیل ابوچابے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

مارٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

17 سالہ امریکی نوجوان مارٹی ٹینکلیف سکول کے پہلے دن جب صبح سو کر اٹھے تو انھوں نے اپنی والدہ کو مردہ حالت میں پایا جبکہ ان کے والد زیادہ خون بہہ جانے کے باعث اپنی موت کے قریب تھے۔

اس نوجوان نے وہی کیا جو ایسی صورتحال میں کوئی بھی عقلمند شخص کرتا ہے، یعنی انھوں نے ایمرجنسی سروس 911 کو کال کی۔  

ٹینکلیف نے بی بی سی آؤٹ لک پروگرام کو بتایا کہ ’میں صدمے سے ہوش کھو بیٹھا تھا، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ بتا سکوں اس وقت مجھے کیا ہوا تھا اور خدا کرے کہ کوئی کبھی ایسی صورتحال سے نہ گزرے جس سے میں گزرا۔‘

مارٹی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایمرجنسی سروس کو کال کرنے کے بعد وہ اپنے والدین کے قتل کے مرکزی ملزم بن جائیں گے اور یہ کہ انھیں اس ناکردہ جرم کے لیے 17 سال جیل میں گزارنا پڑیں گے۔

مارٹی کو اپنے والدین کے قتل کے الزام میں سنہ 1990 میں جیل ہوئی تھی اور وہ سنہ 2007 میں جیل سے اس وقت رہا ہوئے جب عدالت نے اس مقدمے کو دوبارہ جائزہ لیا اور ان پر لگے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کا کیس خارج کر دیا۔

مارٹی ٹینکلیف نے رہائی اور زندگی کا دوبارہ آغاز کرنے سے متعلق اپنی کہانی بتائی ہے۔

ایک خوشگوار بچپن

مارٹی کے والدین ارلین اور سیمور ٹینکلیف نے مارٹی کو اس کی پیدائش سے پہلے ہی گود لے لیا تھا، ان کی پرورش نیویارک کے مضافاتی علاقے لانگ آئی لینڈ میں ہوئی۔

وہ کہتے ہیں ’میرے والد کے پاس بچپن میں کچھ نہیں تھا، لیکن جب میں بڑا ہو رہا تھا تو وہ مالی طور پر مستحکم تھے، اس لیے کچھ چیزیں جو میرے والد یا والدہ بچپن میں چاہتے تھے، وہ مجھے دی گئیں۔‘

تاہم مارٹی آج تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ستمبر کی اس خوفناک صبح جب اس کے والدین شدید زخمی حالت میں پائے گئے تھے تو پولیس اسے ہسپتال لے جانے یا گھر پر رکھنے کے بجائے اسے وحشیانہ تفتیش کے لیے کیوں لے گئی تھی، اور جس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس وقت محسوس ہوا کہ شاید وہ مجھے اس واقعے سے متاثرہ شخص کے طور پر دیکھ رہے تھے لیکن بعدازاں مجھے پتا چلا کہ وہ تو مجھے اس واقعے میں ایک ملزم سمجھ رہے تھے۔‘

مارٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پولیس تفتیش

مارٹی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پولیس کی پوچھ گچھ توقع کے مطابق شروع ہوئی تھی، افسران کی جانب سے ایسے سوالات پوچھے گئے جن کے ذریعے نوجوان کے اس کے والدین کے ساتھ تعلقات کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، یا یہ پتا چلانے کی کہ کون ممکنہ ملزم ہو سکتا ہے۔

مارٹی نے اپنے والد کے کاروبار میں ان کے ساتھی جیری سٹیورمین کا نام لیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ شخص اس جرم کے پیچھے ہو سکتا ہے۔

دسمبر 1988 کے ایک مقدمے میں سیمور ٹینکلیف کے وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ سٹیورمین، مارٹی کے والد کے تقریباً 900,000 ڈالرز کا مقروض ہے۔

مگر وقوع کے وقت سٹیورمین اپنے گھر میں والدین اور دیگر مہمانوں کے ہمراہ علی الصبح تک پوکر کھیل رہے تھے۔

’لیکن یہاں ایک اہم موڑ تھا، وہ کہتے ہیں کہ سوالات کو تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا گیا، اور الزام تراشی سے کام لیا گیا۔‘

ٹینکیلف کیس میں مرکزی تفتیش کار جاسوس جیمز میک کریڈی تھے جو سنہ 2015 میں فوت ہوئے اور جنھوں نے متعدد مواقعوں پر پریس سے اس کیس سے متعلق بات کی تھی۔

امریکی نیٹ ورک سی بی ایس کو ایک انٹرویو میں میک کریڈی نے تفتیش کے دوران استعمال کیے گئے حربوں میں سے ایک کے متعلق بات کی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’تفتیش کے دوران ایک موقع پر میں نے ٹیلیفون سے قریبی دوسری ٹیلیفون ایکسٹینشن پر کال کی اور خود ہی اسے اٹھانے چلا گیا اور یوں ظاہر کیا کہ میں ایک دوسرے جاسوس سے بات کر رہا ہوں۔‘

میک کریڈی نے سی بی ایس کو بتایا تھا کہ اس جھوٹی کال کو بند کرنے کے بعد وہ تفتیش والے کمرے میں گئے اور مارٹی سے جھوٹ بولا کہ اس کے والد کو ایڈرینالین سے ہوش میں لایا گیا تھا اور اس نے اپنے بیٹے پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

مارٹی ان جھوٹوں کو یاد کرتے ہوئے جو ان سے بولے گئے کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں تفتیش کاروں کو ملزمان سے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور انھوں نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا۔‘

’انھوں نے کہا کہ انھیں میری والدہ کے ہاتھ میں میرے بال ملے ہیں جو کہ درست نہیں تھا، انھوں نے کہا کہ انھوں نے میرے والد کو ایڈرلین دوا دی اور انھوں نے مجھے بطور حملہ آور شناخت کیا ہے جبکہ یہ حقیقت نہیں تھی۔‘

سٹیورمین کو واقعے کے ایک ہفتے بعد کیلیفورنیا واپس آنے اور قتل میں ملوث ہونے کے الزام کے باعث خوف سے بھاگ جانے کا بیان دینے کے بعد پولیس نے اسے متشبہ قرار نہیں دیا تھا۔

مارٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مقدمے کی سماعت

جیسا کہ مارٹی نے بتایا کہ ان کے مقدمے میں تفتیش کاروں کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ اسے ’ٹوٹنے پر مجبور‘ کر دیں اور وہ وہی بیان دے جو تفتیش کار اس سے کہلوانا چاہتے تھے۔

اس کا مظاہرہ مقدمے کے سماعت کے دوران بھی ہوا تھا جو واقعے کے دو برس بعد شروع ہوئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے جو ثبوت پیش کیے ان میں سے ایک اہم وہ دستاویز تھی، جسے جاسوس میک کریڈی نے لکھا تھا لیکن اس پر مارٹی کے دستخط نہیں تھے مگر اسے اعتراف جرم قرار دیا گیا تھا۔

مارٹی کہتے ہیں کہ اسے اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ اس نے تفتیش کے دوران کیا کہا تھا مگر وہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس دوران کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کسی ایسے نوجوان مشتبہ شخص کو تفتیش کے لیے لے جاتے ہیں جس نے حال میں کچھ صدمہ خیز واقعہ برداشت کیا ہو، اور اسے تنہا رکھتے ہیں، ڈانٹتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں تو آپ اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کمرے سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کہہ دو یہ کہلوانا چاہتے ہیں۔‘

سٹیورمین نے بھی مقدمے کی سماعت کے دوران گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ’کیونکہ مارٹی نے اسے ملزم قرار دیا تھا، تو وہ جیل جانے کے خوف کی وجہ سے اپنی بیمہ پالیسی کی رقم لینے چلا گیا تھا تاکہ قید ہونے سے قبل وہ اسے اپنے خاندان کو دے سکے۔ اور میں نے یہ قتل نہیں کیا ہے۔‘  

مارٹی کو اس جرم میں دو بار عمر قید کی سنا سنائی گئی تھی۔

مارٹی کہتے ہیں کہ ’اس دن کے بارے میں مجھے جو یاد ہے کہ وہ مجھے کاؤنٹی جیل لے گئے تھے اور ذاتی سامان کے کمرے میں جیل کلرک نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہوں، تم مجرم ثابت ہوئے، یہ نہیں ہو سکتا۔‘

جیل میں اپنے وقت کے دوران مارٹی نے وکالت کی تعلیم حاصل کی تاکہ وہ خود اپنا دفاع کر سکے۔ اس کے علاوہ، اس نے متعدد ریٹائرڈ پراسیکیوٹرز کو بھی خط لکھ کر ان سے اپنے کیس کا جائزہ لینے کو کہا ہے۔

اس طرح ان کی زندگی کے 14 سال جیل میں گزرے۔

مارٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

آزادی

سنہ 2004 میں  برسوں تک معلومات اکٹھی کرنے، تقریباً 20 گواہوں کے بیانات اور نئے شواہد حاصل کرنے کے بعد وکلا دفاع نے ایک نئے مقدمے کی سماعت کا مطالبہ کیا۔

وکلا نے شواہد کے علاوہ کم از کم 20 نئی شہادتیں حاصل کیں تھی جس نے سیمور ٹینکلف کے ساتھی پر توجہ مرکوز کی تھی۔

ان میں ایک گواہی گلین ہیرس نامی شخص کی تھی جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس کار کو چلا رہا تھا جس میں کرائے کے قاتل جو کریڈن اور پیٹر کینٹ سوار تھے اور وہ ٹینکلیف کے گھر گئے تھے۔

تاہم اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔

اس کے بعد مارٹی کے وکلا نے اس مقدمے کو دوسرے دائرہ اختیار میں لے جانے کی کوشش پر توجہ مرکوز کی کیونکہ، جیسا کہ وکیل دفاع بیری پولاک نے کہا تھا کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ سفوک کاؤنٹی میں اس کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے۔‘

بروکلین کی اپیل کورٹ میں کیس کا دوبارہ جائزہ لینے اور مارٹی کی سزاختم کروانے میں مزید تین سال لگے کیونکہ واقعے میں اسے  مجرم ثابت کرنے کے لیے ’ناکافی شواہد موجود تھے۔‘

مارٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مارٹی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انھیں یہ سمجھنے میں 24 گھنٹے سے زیادہ لگے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

’اگلے دن تک مجھے پتا نہیں تھا جب جیل کا ایک گارڈ میرے پاس اخبار لے کر آیا اور میں نے اخبار کے پہلے صفحے پر اپنی تصویر دیکھی تو مجھے سمجھ آئی کہ کیا ہوا ہے۔ یہ وہ چیز تھی جس کی میں بہت عرصے سے کوشش کر رہا تھا۔ اور اس کا مجھے اس وقت پتا چلا جب میں نے اسے اخبار میں دیکھا۔‘

جب تک مارٹی کو رہائی ملی تب تک ان کی آدھی زندگی آزادی میں جبکہ آدھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر چکی تھی۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ رہائی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جو پہلے قدم اٹھائے تھے وہ بہت اہم تھے۔

’جب ہم جیل چھوڑ رہے تھے تو میں نے اپنے ساتھ چلنے والوں سے کہا کہ آہستہ چلو اور جب انھوں نے مجھ سے پوچھا کیوں؟ تو میں نے ان سے کہا تھا کہ یہ میری آزادی کی جانب پہلے قدم ہیں اور میں انھیں آہستہ آہستہ اٹھانا چاہتا ہوں۔‘

سنہ 1990 سے 2007 کے درمیان دنیا مکمل بدل چکی تھی، ان کے ساتھ کے لوگوں کی زندگیاں بھی تبدیل ہو چکی تھیں۔ مارٹی نے 35 برس کی عمر میں اپنے قانون کی تعلیم شروع کی اور ٹیکنالوجی سے بھری دنیا کو اپنایا۔  

BBCUrdu.com بشکریہ