ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

انڈونیشیا کا نیا بالی: سیاحتی مرکز کے لیے زمینوں کا حصول اور زبردستی بے دخلی کے الزامات

انڈونیشیا کا نیا بالی: سیاحتی مرکز کے لیے زمینوں کا حصول اور زبردستی بے دخلی کے الزامات

  • وادیہ باراپتری اور اندریس المر
  • بی بی سی نیوز

Beach at Mandalika

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تصور کریں ذرا کسی ایسی جگہ کا جہاں صاف ستھرا نیلگوں پانی ہو، تاحد نگاہ ساحل سمندر ہو جس پر کھجور کے درخت ایک طویل قطرہ میں لہلہا رہے ہوں اور پس منظر میں سر سبز و شاداب پہاڑ ہوں۔

کووڈ 19 کی عالمی وبا میں جب بہت سے لوگوں کے لیے دور دراز کے ملکوں کی سیاحت ایک پرانی یاد ہی بن کر رہ گئی، یہ سب کچھ ایک خواب ہی لگتا ہے۔

انڈونیشیا کی حکومت مینڈالکا کو ایک نئے سیاحتی مرکز کے طور پر تعمیر کرنے کا سوچ رہی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ دوسرا بالی ہو گا۔

لیکن حکومت کا یہ بڑا منصوبہ کہ اسے ایک پرتعیش سیاحتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے ابتدا ہی میں متنازع ہو گیا ہے اور وہاں تعمیراتی کام کے دوران انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیوں کے الزام لگنا شروع ہو گئے ہیں۔

مینڈالکا انڈونیشیا کے لیے سرمایہ کاری کا ایک بڑا منصوبہ ہے اور اس میں بین الاقوامی سرمابہ کار بھی دلچسپی رکھتے ہیں جن میں سب سے بڑھ کر ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) بھی شامل ہے۔

مینڈالکا کا ساحلی علاقہ بالی سے مشرق کی جانب لومبوک کے جزیرے پر طویل فاصلے تک پھیلا ہوا ہے اور یہ بلاشبہہ بہت ہی خوبصورت ہے۔

اسے سیاحوں کے لیے اور زیادہ پرکشش بنانے کے لیے حکومت عالمی معیار کے فائیو سٹار ہوٹل چلانے والی کمپنیوں کو یہاں لانا چاہتی ہے۔

یہاں پر پہلے ہی ایک موٹر سائیکلوں کی دوڑ کرانے کی بہت بڑی جگہ تعمیر کی جا رہی ہے گو کہ شاید بہت سے لوگ اس کھیل کو ساحل سمندر پر سیاحت سے جوڑ کر نہ دیکھ سکیں۔

بالی

مقامی لوگوں کو ڈراوے اور دھمکیاں

لیکن مارچ کے آخر میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس منصوبے کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے اور زور زبردستی بغیر معاوضے کے ان کو زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ بیان اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل کی طرف سے دیا گیا تھا۔

اس شدید تنقید کا براہ راست نشانہ اے آئی آئی بی اور فرانسیسی گروپ ونچی کو بھی بنایا گیا جو اس منصوبے میں بڑے سامایہ کار ہیں جو ریس سرکٹ، کے علاوہ کئی ہوٹل اور ایک ہسپتال بھی تعمیر کر رہے ہیں۔

لیکن مقامی حکام اور پولیس ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ زمین پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے حتی کہ اقوام متحدہ میں انڈونیشیا کے مشن نے اقوام متحدہ کے ماہرین پر جھوٹا بیانیہ گھڑنے کا الزام لگایا۔

اے آئی آئی بی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی اور سماجی ہدایت ناموں اور قواعد پر مکمل طور پر عملدر آمد کرتے ہیں اور اس ضمن میں کی جانے والی شکایت کا فوری ازالہ کرتے ہیں۔

اے آئی آئی بی نے ایک بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی حتمی رپورٹ میں زمین حاصل کرنے میں مبینہ زور زبردستی، ڈرانے دھمکانے اور طاقت کے استعمال کے کسی بھی الزام کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

بی بی سی کی انڈونیشین سروس کے نامہ نگار جب مینڈالکا پہنچے اور انھوں نے مقامی لوگوں سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ وہاں مختلف لوگوں کا مختلف تجربہ ہے۔

Mandalika circuit

درجنوں خاندان اپنے مال مویشیوں سمیت کوتا نامی گاؤں میں موجود تھے اور ناریل کے درختوں سے پرے تعمیراتی مشینری جو یہاں موٹر سائیکل ریس کی جگہ بنانے کے لیے لائی گئی تھی پڑی تھی۔

صورت حال بڑی پیچیدہ تھی کیونکہ سارے گاؤں والوں کے پاس زمین کی ملکیت کے کاغذات نہیں تھے۔ کئی سو خاندانوں میں سے 180 خاندان ایسے تھے جن کے پاس زمین کی ملکیت کے کوئی کاغذ نہیں تھے اور عدالت میں اپنی بے دخلی کو روکنے کے لیے کوئی قانونی جواز نہیں پیش کر سکتے تھے۔

ایک مقامی عورت جو زمین خالی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اس کا کہنا تھا کہ اس کے خاندان والوں نے کبھی یہ زمین حکومت کو فروخت ہی نہیں کی۔ جب کہ باقی لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی زمین پہلے ہی سرکاری ملکیت میں ہے۔

بہت سے دوسرے لوگ جن کے پاس ملکیت کے کوئی کاغذ نہیں تھے انھیں اس جگہ سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک اور جگہ آباد کر دیا گیا ہے۔

لیکن انسانی حقوق اور غربت کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اولیور ڈی شٹر کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو دوسری جگہ پر آباد کیا گیا ہے وہ تعمیراتی جگہ کے بہت قریب ہے اور انھیں وہاں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جس جگہ پر ہوٹل اور موٹو گرینڈ پرکس کے لیے تعمیراتی کام ہو رہا ہے وہاں یہ کام لوگ کو ہٹائے بغیر اور انھیں مناسب ماحول میں آباد کرے بغیر شروع کر دیا گیا ہے۔

ڈی شٹر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے لوگوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ آباد کر دینا کافی نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کا روزگار ان کے پرانے گاؤں سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘گھر، بجلی کی سہولت اور خوراک دستیاب ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ آپ کو ذرائعے آمدن بھی حاصل ہونے چاہیں بصورت دیگر ان لوگوں کی زندگی مشکل میں پڑ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ صرف معاوضہ ادا کر دینا بھی کافی نہیں ہے۔

دامر ایک دیہاتی ہیں جن کو معاوضہ ادا کیا جا چکا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔

کوتا گاؤں کے ایک سابق رہائشی کا کہنا ہے کہ جہاں ریسنگ سرکٹ تعمیر کیا جا رہا ہے وہ اُس جگہ سے صرف پانچ سو میٹر دور پیدا ہوئے تھے اور اس جگہ ساڑھے تین ایکڑ زمین ان کی ملکیت تھی جس کے ثبوت بھی ان کے پاس موجود تھے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے جب سنہ 2019 میں حکام نے ان سے ایک ملاقات میں کہا کہ اگست میں یہ جگہ خالی کرنی ہو گی۔

The 2.5 hectares relocation area provided by ITDC

انہوں نے کہا وہ شدید پریشان ہوئے کیونکہ نہ تو اس سے پہلے انھیں بتایا نہ کوئی گفت و شنید ہوئی اور نہ ہی کوئی باہمی رضامندی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی زمین کا تخمیہ ایک آزاد گروپ نے لگایا اور انھیں معاوضہ ادا کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاوضہ نئی زندگی شروع کرنے اور اپنا گاؤں چھوڑنے کی اذیت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس لیے معاوضہ قبول کرنے پر تیار ہو گئے کہ ان کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

پائیدار ترقی کا سوال

اس منصوبے کے حوالے سے اس بات پر بھی تنقید کی جا رہی کہ اس طرح کے عظیم منصوبوں کی اکیسویں صدی میں بھی ضرورت ہے۔

بالی کے جنوبی علاقے نوسا دعا کو بھی ایک سرکاری کارپوریشن ہی نے تعمیر کیا تھا۔

لیکن وہ سنہ 1970 کی بات ہے جب اس علاقہ میں سیاحت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس وقت اس منصوبے کی وجہ سے بالی ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز بن گیا۔

Damar in front of ruins that once his home

لیکن ماہرین کے خیال میں اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بڑے منصوبے جن سے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے وہ پائیدار ترقی کے تصور سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ وقت نہیں رہا کہ ریسنگ سرکٹ اور سیاحتی ڈھانچے کے بڑے بڑے منصوبے تعمیر کیے جائیں جو صرف چند لوگوں کے سود مند ثابت ہوتے ہیں ان سے عام لوگوں کو کوئی معاشی فائدہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ کووڈ کے بعد کی دنیا میں معیشت کو ان خطوط پر استوار کیا جانا چاہیے جن سے مقامی لوگوں بااختیار ہوں، ان کے روزگار میں اضافہ ہو اور وہ فیصلہ اور پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

دریں اثنا اس منصوبے پر کام جاری ہے۔ موٹر سائیکل سرکٹ تقریباً تیار ہو گیا ہے اور اس سال جولائی میں اس پر کام ختم کر لیا جائے گا۔ ورلڈ سپر بائیک کے مقابلے اس سال نومبر میں کرائے جانے کا ارادہ ہے جب کہ ورلڈ موٹو جی پی کے مقابلے اگلے سال جولائی میں کرائے جانے کا پروگرام ہے۔

مقامی لوگوں کے لیے اس علاقے میں رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.