انٹرنیشنل سپیس سٹیشن2031 میں سمندر میں گر کر تباہ ہو جائے گا، مگر خلا میں اس کا متبادل کیا ہو گا؟
- مصنف, جوناتھن او کیلاہن
- عہدہ, بی بی سی فیچرز
انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (تمام اقوام عالم کے لیے خلائی سٹیشن) کو قائم ہوئے دو نسلیں گزر چکی ہیں اور یہ اب ہماری اجتماعی یادداشت کا ایک جزو بن چکا ہے۔ تاہم جب سنہ 2031 میں یہ ختم ہو جائے گا تو اس کا متبادل کیا ہو گا؟
خلائی سٹیشن اب عملاً ختم ہو چکا ہے۔
اس سٹیشن کی عظیم خدمات ہیں۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (آئی ایس ایس) جو مختلف قوموں کے اکھٹے ہو کر خلا میں مشترکہ تحقیقی کوششوں کا ایک عظیم مشن رہا ہے، اگلے آٹھ برسوں میں ختم ہو جائے گا۔
تاہم اس سٹیشن کے ڈرامائی انداز میں اختتام پر ہمیں افسوس کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس کی وجہ سے نسلِ انسانی خلائی سفر کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی، جس پر پہلے ہی سے کام شروع ہو چکا ہے۔
آئی ایس ایس (ISS) پروجیکٹ کا آغاز 1998 میں روس کے زاریا ماڈیول سے ہوا تھا، جو اِس سٹیشن کا پہلا جزو تھا۔ اس سٹیشن پر درجنوں قوموں نے مل کر کام کیا ہے اور اسے استعمال کیا ہے۔
اس لحاظ سے یہ خلا میں انسان کا تعمیر کیا گیا ایک ایسا سٹیشن ہے جس پر کئی ممالک کے سائنسدانوں نے مل کر کام کیا ہے۔ خاص طور پر اس نے سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے زوال کے بعد دو شدید دشمن طاقتوں، امریکہ اور روس کے درمیان شراکت داری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع پیدا کیا تھا۔
امریکی فضائیہ کے سکول آف ایڈوانسڈ ایئر اینڈ سپیس سٹڈیز کی خلائی پالیسی کے ماہر وینڈی وائٹ مین کوب کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت بڑا (پراجیکٹ) تھا۔ یہ واقعی سرد جنگ کے بعد کے تعاون کی ایک عظیم کہانی ہے۔ روس کی خلائی صنعت شدید مشکلات کا شکار تھی۔ یہ امریکہ اور روس کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کا موقع تھا۔‘
اکھٹے مل کر کام کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بڑا خلائی سٹیشن وجود میں آیا جو فٹ بال کی گراؤنڈ کے سائز کے برابر ہے اور اندازاً اس کا وزن 400 ٹن سے زیادہ ہو گا، جو ہمارے سیارے کے گرد 18,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتا رہا ہے۔
اس کی تعمیر پر لاگت کم از کم 150 ارب ڈالر آئی ہو گی۔ اس پر پہلے عملے کی تعیناتی نومبر 2000 میں ہوئی تھی اور تب سے اب تک اس پر مسلسل ایک نہ ایک فرد موجود رہتا ہے۔ تاہم سٹیشن کا ہارڈویئر اب کافی پرانا ہو چکا ہے، اس لیے 2031 میں اسے مدار سے نکال دیا جائے گا، زمین کے ماحول میں واپس لایا جائے گا اور پھر یہ سمندر میں گر کر تباہ ہو جائے گا۔
آئی ایس ایس کی تعمیر 1998 میں شروع ہوئی، جس میں روس کا تعمیر شدہ زاریا ماڈیول اس کا پہلا جزو تھا۔ (کریڈٹ: ناسا)
امریکہ اور روس دونوں جانب کے سائنسدانوں نے آئی ایس ایس پر ہزاروں سائنسی تجربات کیے ہیں، جن میں یورپی اور جاپانی ساخت کے ماڈیولز بھی استعمال کیے گئے۔ اس سٹیشن پر الزائمر اور پارکنسنز جیسی بیماریوں پر تحقیقات، مادے کی نئی حالتوں کا مطالعہ اور خلا میں خوراک جیسے سلاد کے پتے اور مولیاں وغیرہ کو اگانے کے طریقے دریافت کرنا بھی شامل ہیں۔
فرینک ڈی وِن، جو یورپی خلائی ایجنسی کے ایک خلاباز ہیں جنھوں نے 2002 اور 2009 میں سٹیشن کا دو بار سفر کیا اور پھر وہاں پر قیام کیا، وہ کہتے ہیں کہ وہاں کام کرنا ’بین الاقوامی شراکت داری میں انسانیت کو آگے بڑھانے کا ایک شاندار تجربہ تھا۔ ایسا تجربہ زندگی میں ایک بار ہی ملتا ہے۔‘
ہر کوئی اس بات سے متفق نہیں ہے کہ سٹیشن اتنا کامیاب رہا ہے۔ برطانیہ کے ماہر فلکیات لارڈ مارٹن ریز کا کہنا ہے کہ صرف سائنسی تحقیق کے لیے خلا میں کام کرنا ایک بہت ہی مہنگا سودا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ یقینی طور پر صرف خالص سائنس کے لیے کارآمد نہیں ہے۔‘ وہ تجویز کرتے ہیں کہ قوموں کو روبوٹک مشنز پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے، جیسے کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ یا مریخ پر مشن پر روبوٹس کو استعمال کیا جا رہا ہے ’لوگوں کو خلا میں بھیجنا بہت مہنگا ہے۔ میرے خیال میں انسانی خلائی پرواز کا مستقبل ارب پتیوں اور مہم جوئیوں کا شوق ہے۔‘
ہم خلائی سٹیشن کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے تھے: فرینک ڈی وین
تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تحقیق کے بجائے سٹیشن کا بنیادی کارنامہ انسانیت کو خلائی سفر کرنے والی مخلوق کے طور پر کائنات میں ایک مضبوط و مستحکم مقام دینا تھا۔
امریکی مشاورتی فرم ’آسٹرالِٹیکل‘ (Astralytical) کی خلائی تجزیہ کار لورا فورسزیک کا کہنا ہے کہ روسی خلائی مسافر اپنے میر خلائی سٹیشن پر ایک سال سے زیادہ کا وقت لگاتے تھے اس لیے لانچ سے پہلے ہم نے اس خلائی سفر کے لیے کافی طویل انتظار کیا تھا، لیکن آئی ایس ایس ایک اور سطح پر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے خلائی سفر کے بارے میں ہمارے ذہنوں کو بدل دیا۔‘
ڈی وائین اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم خلائی سٹیشن کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ بہت کچھ ہے جو ہم نے سیکھا ہے۔ اسے ختم کرنے والا دن ایک افسوسناک دن ہوگا۔‘
شاید آئی ایس ایس (ISS) کا خاتمہ انسانی تعاون کے ایک متاثر کن ثبوت کا خاتمہ کرے گا۔ ہماری دنیا اس وقت طویل جنگیں اور تنازعات کا شکار ہے۔ روس کے یوکرین پر حالیہ حملے نے اس منصوبے کو اب تک کا سخت ترین آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
اگرچہ تعاون ابھی تک قائم ہے، لیکن مستقبل قریب میں اس طرح کی شراکت داری کا دوبارہ امکان نظر نہیں آتا۔ امریکہ میں نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم کی خلائی تاریخ دان کیتھی لیوئس کہتی ہیں کہ ’روسی اب مزید شرکت نہیں کریں گے۔ انھوں نے اپنے راستے جدا کرنے کی بات کی ہے اور یوکرین پر ان کے حملے کے بعد انھیں قبول نہیں کیا جائے گا۔‘
تاہم آئی ایس ایس کا متبادل ہوگا؟ اس پر پہلے سے ہی کام جاری ہے۔
ناسا جو رقم ہر سال آئی ایس ایس (ISS) پر خرچ نہ کرنے کے بعد بچاتا ہے وہ آرٹیمس پروگرام جیسے دوسرے پروجیکٹوں میں لگایا جا سکتا ہے
امید ہے کہ زمین کے مدار میں نئے تجارتی خلائی سٹیشنز آئی ایس ایس (ISS) کے متبادل ہوں گے۔ ناسا پہلے ہی امریکہ میں سپیس ایکس اور بوئنگ کمپنیوں کے ذریعے زمین کے نچلے مدار میں انسانوں کی نقل و حمل کو آؤٹ سورس کر چکا ہے۔
ناسا نے نئے خلائی سٹیشن تیار کرنے کے لیے کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے دینا بھی شروع کر دیے ہیں۔ یہ ہمارے سیارے کے گرد مدار میں انسان کی موجودگی کو برقرار رکھتے ہوئے خلائی سیاحوں کے لیے چھوٹی ریسرچ لیبارٹریز یا پڑاؤ کی منزلیں بن سکتی ہیں۔
ان کمپنیوں میں سے ایک ’ایگزیوم سپیس‘ (Axiom Space) پہلے ہی ’سپیس-ایکس‘ (SpaceX) راکٹوں کے ذریعے خلابازوں کو مدار میں لے جا رہی ہے۔ اس کمپنی کو امید ہے کہ سنہ 2025 میں آئی ایس ایس کے ساتھ ماڈیولز منسلک کرنے کا کام شروع ہو جائے گا جنھیں آخر کار اپنا سٹیشن بنانے کے لیے الگ کیا جا سکتا ہے اور مستبقل میں صارفین کو کرائے پر دیا جا سکتا ہے۔
ہر کوئی اس خیال سے متفق نہیں ہے۔ امریکہ میں ہارورڈ اینڈ سمتھسونین سنٹر فار آسٹرو فزکس کے ماہر فلکیات جوناتھن میک ڈویل کہتے ہیں کہ ’مجھے وہاں کے کاروباری معاملات پر شک ہے۔ میں اس بات پر قائل نہیں ہوں کہ آپ ایک منافع بخش خلائی سٹیشن چلا سکتے ہیں۔‘
بہر حال، ناسا اور آئی ایس ایس کے دیگر شراکت دار ان مواقع کو تلاش کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کے سربراہ جوزف سچبچر کا کہنا ہے کہ ’ہم ان تمام کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم آئی ایس ایس کے خاتمے کے بعد کام جاری رکھنے کا راستہ تلاش کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
ناسا کے لیے اب تک ہر سال آئی ایس ایس ( ISS) پر تین ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے، اب یہ رقم بچے گی، یعنی اب وہ انسانی خلائی پرواز کے دیگر اہداف حاصل کرنے کے منصوبوں پر اس رقم کو خرچ کر سکے گا، جن میں خلابازوں کو چاند اور بالآخر مریخ پر واپس بھیجنے جیسے مشن شامل ہیں۔
ایجنسی اب چاند کی سطح پر واپس آنے کے لیے اپنے آرٹیمس پروگرام پر کام کر رہی ہے۔ اپولو 17 (1972 ) کے بعد پہلی بار سنہ 2024 میں چار خلاباز چاند کے گرد پرواز کریں گے، جس کی سطح پر واپسی کا منصوبہ سنہ 2025 تک مکمل ہونے کے امکانات ہیں۔
امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں خلائی پالیسی کے ماہر جان کلین کہتے ہیں کہ ’سٹیشن مہنگا ہے۔ وہ آرٹیمس پروگرام کے ذریعے (چاند تک) جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ناسا بین الاقوامی شراکت داروں کی مدد سے چاند کے قریب ایک نیا خلائی سٹیشن بھی بنانا چاہتا ہے جسے لونر گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر اس دہائی کے آخر میں شروع ہو سکتی ہے۔
اگرچہ یہ آئی ایس ایس ( ISS) جتنے بڑے نہیں ہوں گے، تاہم یہ چاند اور اس سے آگے مستقبل کی انسانی خلائی پرواز کا ایک اہم حصہ بن سکتے ہیں، جو چاند پر جانے والے خلابازوں کے لیے ایک پڑاؤ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
آئی ایس ایس (ISS) انسانیت کی اب تک کی سب سے مہنگی تعمیر ہے – اور کچھ لوگ اس تعمیر کو سمندر میں گرانا چاہتے ہیں۔
اس بات کا امکان موجود ہے کہ آئی ایس ایس کو مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جائے گا۔ کچھ کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ پورے سٹیشن کو خلائی مدار سے نکالنا ایک ضیاع ہو گا، اور یہ کہ اس کے کچھ ماڈیولز اور وسائل کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے یا یہ مکمل طور پر خلا میں دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ناسا نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ وہ اس طرح کی تجویزوں پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن جیسا کہ آئی ایس ایس کو ختم کرنے کی آخری تاریخ قریب آرہی ہے وہ اپنا ذہن بدل سکتا ہے۔
امریکہ میں ’سِس لونر انڈسٹریز‘ ( CisLunar Industries) کے سربراہ گیری کالنن کہتے ہیں کہ ’خلابازی سے جڑا کوئی بھی شخص اسے سمندر میں چھوڑنا نہیں چاہتا۔‘ 2022 کے آخر میں ’سِس لونر‘ اور کئی دیگر کمپنیوں نے وائٹ ہاؤس کو سٹیشن کے پہلوؤں کو دوبارہ استعمال کرنے کی تجویز پیش کی، جیسا کہ اس کی کچھ دھاتوں کو پگھلانا یا اس کے کچھ ماڈیولز کو دوبارہ استعمال کرنا۔
کالن کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس ان تجاویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں یہ خیال پسند آیا۔ یہ موجودہ انتظامیہ کی سیاست سے مطابقت رکھتا ہے کہ اسے دوبارہ استعمال کیا جائے اور ایک ایسی پالیسی ہے جس میں پرانی اشیا کو از سرِ نو استعمال کیا جائے گا۔‘
کسی نہ کسی طریقے سے آئی ایس ایس (ISS) پروجیکٹ 2031 میں ختم ہو جائے گا، چاہے وہ سلگتی آگ میں جل کر ختم ہو یا اسے دوسرے مقاصد کے استعمال کے لیے توڑ کر اس کے کچھ حصے دوبارہ سے استعمال کیے جائیں۔
اس کی جگہ پر دوسرے چھوٹے خلائی سٹیشن تیار ہو سکتے ہیں جو زمین کے مدار میں انسانیت کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے مشنز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان مشنز کے ذریعے خلاباز چاند پر پھر سے قدم رکھ سکیں گے۔
آئی ایس ایس اپنے پیچھے ایک متاثر کن میراث چھوڑے گا، لیکن شاید انسانی تاریخ میں یہ محض ایک اور سفر کا آغاز ہو گا۔
لیوئس کہتی ہیں کہ ’یہ اس تصور کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے کہ قوم پرستی اور سرحدوں کے بارے میں ہمارے جنون کے باوجود، ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل ہیں۔ ہم یہ کر سکتے ہیں اور یہاں سے حاصل ہونے والے فائدوں میں شراکت دار بن سکتے ہیں۔‘
Comments are closed.