امریکی ڈالر اور دیگر کرپٹو کرنسیوں کو چینی ’ڈیجیٹل یوان‘ سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟
- فرنینڈا پال
- بی بی نیوز ورلڈ
سینکڑوں برس پہلے ایک ایسی ایجاد ہوئی تھی جس نے دنیا کی تجارت کا رُخ ہی بدل دیا تھا، وہ ایجاد تھی کاغذی رقم یا بینک نوٹ۔
اس ایجاد نے ہمیشہ کے لیے انسانوں کے کاروبار اور اشیا کی تجارت کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا آغاز چین سے ہوا تھا اور اسے اس وقت ‘اُڑنے والا پیسے’ کا نام دیا گیا تھا۔
اس قدیم ایجاد کی تاریخ ساتویں صدی کی ہے۔
آج یہی ملک ایک بار پھر دنیا کی معیشت کو بدلنے والی ڈیجیٹل کرنسی میں سبقت لے چکا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں حکومت نے سرکاری مالیاتی ادارے پیپلز بینک آف چائنہ کے ذریعے دارالحکومت بیجنگ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ڈیجیٹل یوان کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس حقیقت کے برعکس کے ڈیجیٹل کرنسی کی اس دوڑ میں دنیا کے دیگر ممالک بھی شامل ہیں، چین کا یہ ‘پائلٹ پلان’ عام عوام تک ڈیجیٹل کرنسی کی رسائی کے لیے ایک سنجیدہ کوشش لگتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اور اب وہ اس کو پھیلانے کا سوچ رہے ہیں۔ اتوار کو چین کے سرکاری بینک کے ڈپٹی گورنر لی بو کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈیجیٹل یوان کے استعمال کے ابتدائی تجربات میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس کا اجرا اور تقسیم ملک کے موجودہ معاشی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
اب اس ڈیجیٹل یوان کو ملک کے دیگر شہروں تک پھیلایا جائے گا۔ چین میں ڈیجیٹل یوان کے نظام کو ای-سی این وائے بھی کہا جاتا ہے۔
ایشیا کی معاشی طاقت کے فیصلے کے اثرات دنیا کی دیگر معیشتوں پر بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر امریکہ کی بات کریں تو دہائیوں تک مسلسل دنیا پر اپنی عالمی طاقت کی حاکمیت برقرار رکھنے کے بعد اس اسے چین کی بڑھتی طاقتور معیشت سے مستقل خطرہ لاحق ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل یوان امریکی طاقت کو جھنجھوڑ سکتا ہے اگر وہ برسوں سے دنیا میں ڈالر کی تاریخی حاکمیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور اگر چینی حکام اس کے قواعد مزید سخت کر دیں تو اس کے اجرا سے کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں بھی ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔
لیکن پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ڈیجیٹل یوان کیا ہے اور یہ پہلے سے موجود ورچوئل کرنسیوں سے کیسے مختلف ہے۔
ڈیجیٹل یوان کی خصوصیات
ڈیجیٹل یوان مارکیٹ میں پہلے سے موجود گردشی بینک نوٹس اور سکوں کی جگہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا کنٹرول چین کے سرکاری بینک کے پاس رہے گا جو اس نئے الیکٹرونک پیسے کے جاری کرنے کا انچارج ہو گا۔
سستی اور تیز تر بین الاقوامی ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ محفوظ ٹرانزیکشن اس کے فوائد میں سے ہیں۔
دنیا میں کمرشل بینکنگ کےلیے کرپٹو کرنسیوں یا کسی اور قسم کی استعمال کی جانے والی ڈیجیٹل کرنسی کے برعکس، اس ڈیجیٹل کرنسی کی اصل دنیا میں بھی وقت ہے۔ یعنی اسے نقدی کی شکل میں بھی حمایت حاصل ہے اور یہ ایشیائی معاشی طاقت چین کے قواعد و ضوابط سے مشروط ہے۔
ڈیجیٹل یوان میں کرپٹو کرنسی خفیہ رکھنے جیسی صلاحیت سے بھی محفوظ ہے، دیگر کرپٹو کرنسیوں کو کسی ایک مرکزی نظام کے تحت نہیں چلایا جا سکتا اور نہ ہی اس کی مدد سے کسی انسان کی ذاتی معلومات مل سکتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ کہ اس نے وہ رقم ماضی میں کہاں اور کس مقصد کے لیے استعمال کی کا پتا چل سکتا ہے۔
اس طرح ماہرین کو یقین ہے کہ ڈیجیٹل یوان چینی حکومت کو اپنی معیشت اور عوام کے پیسے کے لین دین کی نگرانی کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
چینی حکومت نے سنہ 2014 میں اپنی کرنسی کو ڈیجیٹل کرنے کے حوالے سے کام کا آغاز کیا تھا تاہم سنہ 2017 تک اسے کرنسی کو ڈیجیٹل کرنے کی باقاعدہ اجازت نہیں ملی تھی۔
مگر آج وہ ایک واضح مقصد کے ساتھ حقیقت کے بہت قریب ہیں۔اور وہ یہ کہ اس ڈیجیٹل یوان کی رسائی کو اگلے برس فروری میں ہونے والے ونٹر اولمپکس تک تمام چینی شہریوں اور غیر ملکی سیاحوں تک ممکن بنا سکیں۔
ڈالر کو اس سے خطرہ کیوں ہو سکتا ہے؟
چین ڈیجیٹل یوان کو بین الاقوامی سطح پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جہاں برسوں سے ڈالر کی حاکمیت برقرار ہے۔
بلومبرگ نیوز ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس کرنسی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ کچھ عہدیداروں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ یہ ڈیجیٹل یوان دنیا کے کچھ ممالک کے لیے ایک طویل مدتی پیشکش کے طور پر سامنے آ سکتا ہے اور دنیا میں ڈالر کے بطور ریزرو کرنسی پر غالب آ سکتا ہے۔
بلوم برگ کا کہنا ہے کہ امریکی حکام یہ سمجھنے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کر رہے ہیں کہ اس ڈیجیٹل یوان کی تقسیم کیسے ہوگی اور اسے امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم چین نے ان خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین کے سرکاری بینک کے ڈپٹی گورنر لی بو نے اتوار کو کہا ہے کہ ‘اس ڈیجیٹل یوان کا مقصد امریکی ڈالر یا کسی بھی بین الاقوامی کرنسی کی جگہ لینا نہیں ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارا مقصد عالمی منڈی کو انتخاب کرنے اور بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کرنے میں آسانی فراہم کرنا ہے۔’
چین کی سرکاری بینک کے ڈپٹی سیکرٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الوقت ڈیجیٹل یوان کے استعمال کی تحریک کی توجہ ‘داخلی سطح’ پر ہے البتہ انھوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ‘طویل مدت’ میں اسے بین الاقوامی سطح پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن کے چائنہ انسٹیٹویٹ کے ڈائریکٹر سٹیو تسانگ نے بتایا کہ ڈیجیٹل یوان کو متعارف کروانا چین کی جانب سے چینی کرنسی کو بین الاقوامی سطح پر رائج کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔
انھوں نے یقین دلایا کہ ‘روایتی کرنسی کے عالمگیریت میں مسئلہ یہ ہے کہ چین کو اس کی آزاد تجارت کی اجازت دینا ہوگی ، جسے کمیونسٹ پارٹی قبول نہیں کرے گی کیونکہ اس سے اس کا کنٹرول کم ہوگا۔ لیکن ڈیجیٹل ورژن کا اس کے کنٹرول کو کم کیے بنا استعمال تجارت کے لیے اسے زیادہ آسان اور وسیع تر بنائے گا۔’
البتہ تسانگ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ ڈیجیٹل یوان بین الاقوامی سطح پر ڈالر کی جگہ لے سکتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ‘حالیہ برسوں میں امریکی ڈالر پہلے ہی گراوٹ کا شکار ہے۔ اور جیسا کہ چین اس وقت ایک انتہائی اہم تجارتی ملک کی حثیت اختیار کر چکا ہے اور جو ملک اس کے ساتھ تجارت کریں گے وہ یہ سوچے گے کہ ڈیجیٹل یوان ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا لہذا وہ اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کریں گے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘چین اور صدر شی جن پنگ کے بڑے عزائم ہیں، وہ اپنے ملک کو بین الاقوامی سطح پر چوٹی کے ممالک میں لانا چاہتے ہیں جو دنیا پر فیصلہ سازی میں شامل ہو سکے اور مجھے اس پر کوئی حیرانی نہیں ہے کہ یہ (ڈیجیٹل یوان) کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔’
دیگر کرپٹو کرنسیوں کا کیا؟
اس حقیقت کے برعکس دیگر کرپٹو کرنسیاں چین کے ڈیجیٹل یوان سے مختلف سروسز فراہم کرتی ہیں لیکن پھر بھی ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ چین کا ڈیجیٹل یوان کا منصوبہ اس قسم کے پیسے کے بازار کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
یہ کہنا ہے فلپ گلیسپے کا جو اس وقت کرپٹو کرنسی ایکسچینج کرنے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک بی ٹو سی ٹو کے سی ای او ہیں۔
انھوں نے بلوم برگ کو بتایا کہ ‘ایک دفعہ ڈیجیٹل یوان متعارف ہوگیا تو یہ دیگر کرپٹو کرنسیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔’
اس خطرے کی ایک وجہ جس کی وضاحت دی جاتی ہے وہ چین کی جانب سے دیگر کرپٹو کرنسیوں پر ممکنہ پابندیاں ہیں جو ڈیجیٹل کرنسی کے پلیٹ فارمز کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی زیر غور رکھنی چاہیے کہ چین نے ستمبر 2017 میں ملک میں ملازمین اور بینکنگ اداروں کو بٹ کوائن میں ٹرانزیکشن کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ یہ اس کو فنڈز اکٹھا کرنے کا غیر قانونی طریقہ سمجھتے ہیں۔
تاہم اتوار کو چین کی سرکاری بینک کے ڈپٹی گورنر نے بٹ کوائن کو ایک ‘متبادل سرمایہ کاری’ قرار دیا۔ انھوں نے اپنے لہجے میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے مزید یہ کہا کہ وہ اب بھی اس کی چھان بین کر رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیاجا رہا ہے کہ اس کو ریگولیٹ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ کی دیگر سرکردہ کمپنیوں کا بھی کہنا ہے ڈیجیٹل یوان کے آنے سے مارکیٹ اپنا پوٹیشنل چھوڑ دے گی۔ بٹ بینک کے مالک اور بٹ کوائن کے کاروباری چھانڈلیر گیو نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایک دن سب چینی ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال کریں گے۔’
انھوں نے کچھ برس قبل بٹ کوائن کو مستقبل کی کرنسی قرار دیا تھا لیکن اب وہ چینی ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔
تاہم اب بھی ڈیجیٹل یوان کے مستقبل کے فوائد جاننے میں وقت ہے لیکن دوسری جانب بہت سے ممالک اپنی خود کی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروانے کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔
Comments are closed.