امریکہ میں کساد بازاری کا خدشہ: کیا اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا؟
- بلال کریم مغل
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
عالمی معیشت پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں کیونکہ امریکی معیشت مسلسل دوسری سہ ماہی میں سکڑی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے اقتصادی کساد بازاری تصور کیا جاتا ہے تاہم امریکہ اس کا حتمی اعلان کرنے کے لیے اضافی ڈیٹا پر انحصار کرے گا۔
امریکی معیشت کے سکڑنے کی شرح، جولائی تک کی سہ ماہی میں 0.9 فیصد رہی ہے اور اب معاشی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی دوران اشیائے خور و نوش، پیٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں سنہ 1981 کے بعد سے اب تک کا تیز ترین اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی کرنسی کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے اس لیے اس کی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ کیا امریکہ کی معیشت میں کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر بھی محسوس کیے جائیں گے؟
پاکستان میں اس وقت زرِ مبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں اور مرکزی بینک کے پاس اس میں سے صرف تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالر کی بلند سطح پر ہے اور ڈالر کی قیمت میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سنہ 2008 میں بھی امریکہ کساد بازاری کی زد میں آیا تھا اور وہاں پر کئی مالیاتی ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی تھیں لیکن پاکستان کے مالی مسائل اس وقت بھی ملکی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے باعث تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
امریکہ کی صورتحال
امریکی محکمہ تجارت کے مطابق کاروباری سرمایہ کاری، ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں سست روی دیکھی گئی جبکہ لوگوں کی آمدن میں کمی ہوئی اور اُنھوں نے اپنے اخراجات بھی کم کیے ہیں۔
امریکی مرکزی بینک نے معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کیا ہے تاکہ قیمتوں پر سے دباؤ کم کیا جا سکے، چنانچہ ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ اگر کساد بازاری تاحال شروع نہیں ہوئی تو بس ہونے ہی والی ہے۔
امریکہ میں جون میں شرحِ مہنگائی 9.1 فیصد رہی جو چار دہائیوں کی بلند ترین شرحِ افراطِ زر ہے۔
بدھ کو مرکزی بینک نے شرحِ سود میں غیر معمولی طور پر 0.75 فیصد کا اضافہ کر دیا جس سے اسے امید ہے کہ گھروں اور گاڑیوں کی خریداری میں کمی آئے گی۔ اس اقدام سے قیمتوں میں اضافہ روکنے میں مدد مل سکتی ہے مگر طلب میں کمی کا مطلب اقتصادی سرگرمی میں کمی بھی ہے۔
خطرہ کہاں ہے؟
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری فرینکل نے کہا ہے کہ ’کساد بازاری کے امکانات کسی بھی دوسرے برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔‘
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سب سے زیادہ دباؤ بیرونی جانب سے ہے۔ چین اور یورپ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی دیگر ممالک میں سنگین مسائل ہیں۔ ان کے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس کا نتیجہ ہم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔‘
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تکنیکی گفتگو تو ہو سکتی ہے کہ کساد بازاری کیا ہے مگر موجودہ صورتحال کا حقیقی خطرہ یہ ہے کہ ایک معیشت میں کساد بازاری کا اثر دوسری معیشتوں پر بھی پڑتا ہے اور یوں پوری دنیا تک پھیل سکتا ہے۔
کچھ ماہرین کے نزدیک امریکی معیشت میں کساد بازاری کے دوسرے ممالک تک پھیلنے کا خطرہ فوری طور پر موجود نہیں۔
اکنامک انٹیلیجنس یونٹ نامی تھنک ٹینک میں ماہرِ معیشت کیلین برچ نے بی بی سی مُنڈو سروس کو بتایا کہ ’فی الوقت ہمیں توقع نہیں کہ امریکی معیشت اتنی گراؤٹ کی شکار ہو گی کہ دنیا بھر میں سلسلہ وار ردِعمل پیدا ہو۔‘
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں شرحِ ترقی میں کمی کا مطلب ہے کہ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئے گی جبکہ درآمدی طلب بھی کم ہو گی ’مگر یہ دیگر ممالک میں کساد بازاری کے سنگین خطرے کے بجائے صرف اُن کی شرحِ ترقی پر دباؤ کی صورت میں سامنے آئے گا۔‘
پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں
واضح رہے کہ امریکہ پاکستان سے بھی بہت سا سامان درآمد کرتا ہے اور امریکی محکمہ شماریات کے مطابق سنہ 2021 میں امریکہ نے پاکستان سے 5.2 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں جبکہ امریکہ نے پاکستان کو 3.6 ارب ڈالر سے زائد کا سامان برآمد کیا۔
سنہ 2022 میں اب تک امریکہ پاکستان سے 2.6 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کر چکا ہے اور گذشتہ 25 برسوں سے امریکہ کی پاکستان سے درآمدات ہمیشہ برآمدات سے زیادہ رہی ہیں۔
چنانچہ برچ جیسے ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر امریکہ میں معیشت کساد بازاری کی شکار ہوتی ہے تو جو ممالک امریکہ کو سامان برآمد کرتے ہیں، اُن کی اس تجارت کو دھچکا پہنچے گا۔
ورلڈ بینک کے مطابق امریکہ پاکستانی سامان کا سب سے بڑا عالمی خریدار ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی تنظیم آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور مرکزی جنرل سیکریٹری شاہد ستار نے بتایا کہ پاکستانی صنعت میں اس حوالے سے تشویش ضرور موجود ہے کہ کہیں اس صورتحال سے ہم متاثر تو نہیں ہوں گے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان اپنی سب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات یورپی یونین اور امریکہ کو برآمد کرتا ہے اور ان ممالک کی کمپنیوں نے عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کے خدشات اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث خریداری میں کمی کی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ’ان کمپنیوں نے اپنے آرڈرز میں کمی کی ہے اور پہلے سے جو آرڈرز دیے گئے تھے اُنھیں التوا میں ڈال دیا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس صورتحال کو اپنی مصنوعات کی بہتر مارکیٹنگ اور خریداروں کو اچھی پیشکش کر کے سنبھال سکتا ہے مگر مقامی سطح پر توانائی کے مسائل کے باعث انڈسٹری مسائل سے دوچار ہیں۔
شاہد ستار جو پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے رکن بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ توانائی کا بحران اس صورتحال کی سنگینی میں کردار ادا کر رہا ہے جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے لیے ’دو دھاری تلوار‘
ماہرِ معیشت عمار حبیب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں کساد بازاری کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے جو شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا ہے اس سے ڈالر مضبوط ہو گا جبکہ پاکستان میں داخلی صورتحال کی وجہ سے روپیہ کمزور ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے اسے ’دو دھاری تلوار‘ قرار دیا۔
عمار حبیب خان نے کہا کہ ایسی صورتحال میں پاکستان نے جن بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے وہ مہنگے ہو جائیں گے کیونکہ ڈالر کی قیمت اور اس پر شرحِ سود دونوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ صورتحال سنہ 2008 جیسی کساد بازاری کی طرح کے مسائل تو نہیں پیدا کرے گی تو اُنھوں نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں ایسی صورتحال پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔
تاہم اُنھوں نے ٹیکسٹائل برآمدات کے حوالے سے کہا کہ امریکہ و یورپ کے جو بڑے ریٹیلرز پاکستان سے مصنوعات خریدتے ہیں اُنھوں نے گذشتہ سال زیادہ آرڈرز کر کے اپنے سٹاک بھر لیے تھے اور اس سال اُنھوں نے خریداری میں کمی کی ہے۔
عمار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی رقم ملنے پر روپے کی قیمت میں کچھ حد تو استحکام آئے گا تاہم ترسیلاتِ زر کو پرکشش بنانے اور برآمدی شعبے کو مضبوط کرنے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں زرِ مبادلہ کی صورتحال بہتر ہو۔
Comments are closed.