امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تعینات وہ اہلکار، جسے اپنی ہی ملک بدری کے خلاف مقدمہ لڑنا پڑا
اپریل 2018 کو ایک دن، تقریباً دو دہائیوں کی بے عیب سروس کرنے کے بعد امریکی سرحدی ایجنٹ راؤل راڈریگوئز کو ان کے افسران نے ٹیکساس میں کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے دفاتر بلایا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے وہاں کچھ خوش گپیاں ماری لیکن مجھے وہاں کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ ایک افسر نے دوسرے کو دروازہ بند کرنے کو کہا اور پھر میں جانتا تھا کہ انھیں مجھے کچھ بتانا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ سنجیدہ بات ہے لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا ہے۔‘
ایک کسٹم افسر کے طور پر ان کا شاندار سروس ریکارڈ تھا اور انھیں امریکی حکومت سے اس پر اعزاز بھی ملا تھا۔ اس سے قبل انھوں نے امریکی بحریہ میں خدمات انجام دی تھیں۔
اپنی سروس کے دوران انھوں نے ٹیکساس میکسیکو کی سرحد پر ایسے ہزاروں معاملات سے دیکھے تھے جس میں لوگ بنا دستاویزات کے امریکہ داخل ہونا چاہتے تھے۔
بعض اوقات انھیں اپنے جاننے والے مردوں، خواتین اور بچوں جنھیں مدد کی ضرورت تھی کے بارے میں سخت اور مشکل فیصلے کرنے پڑے تھے۔ انھیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی انھیں کسی ایسے واقعے نے مخمصے میں ڈال دیا ہوں کہ آیا انھیں ان لوگوں کو بنا دستاویزات کے امریکہ داخلے کی اجازت دینی چاہیے جو بہتر زندگی کے خواہاں ہیں۔
لیکن اپریل 2018 میں اپنے افسران سے ملاقات میں راڈریگوئز کو ایک ایسی خبر ملی جس نے اس کی زندگی ہی بدل دی۔ ان کی غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے پر تحقیقات کی جا رہی تھیں۔
یہ وہ حقیقت تھی جو اس کے کچھ ہی عرصے بعد درست ثابت ہوئی۔
راڈریگوئز نے افسوس کا اظہار کرتے اور بحریہ اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن میں اپنے شاندار سروس ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے مجھے ملک بدر کرنے اور مجھے اس ملک سے نکالنے کی بہت کوشش کی، اس کے باوجود کہ میں نے کیا کیا اور میں نے اس ملک کے لیے کیا قربانیاں دی۔‘
انھوں نے اپنی کہانی بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام آؤٹ لک کو سنائی ہے۔
،تصویر کا ذریعہRaul Rodriguez
’تم امریکی ہو‘
راؤل راڈریگوئز اپنے بچپن سے ہی ریاست ٹیکساس میں رشتہ داروں کے ساتھ رہتے تھے۔ اس کے والدین ہمیشہ میکسیکو میں سرحد کے قریب ایک قصبے میں رہتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میکسیکو میں زندگی مشکل تھی۔ وہ ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ اگلے دن کھانا کہاں سے آئے گا۔ یہ کوئی آسان بچپن نہیں تھا۔‘
پانچ برس کی عمر میں ان کی والدہ نے ان سے کہا کہ انھیں امریکہ جا کر رہنا ہے کیونکہ وہ وہیں پیدا ہوئے ہیں اور وہ وہاں بہتر رہیں گے۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں بہت زیادہ گھبرا گیا تھا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھے جو وجہ بتائی وہ یہ تھی کہ میں میکسیکو میں سکول نہیں جا سکتا تھا کیونکہ میں امریکی تھا۔ میں سمجھ گیا۔ تو جب میری بہن میرے ساتھ گئی تو میں خوش تھا لیکن تین دن کے بعد، وہ واپس چلی گئی اور میں وہیں رہا۔‘
وہ ایک ایسے سکول گئے جہاں زیادہ تر بچے سفید فام اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تھے۔ جس کی وجہ سے انھیں بچپن میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اپنی تضحیک کی وجہ سے میری بہت لڑائیاں ہوتی تھیں۔‘
اپنی کم سنی میں راڈریگوئز نے امریکی بحریہ کی ملٹری پولیس میں شمولیت اختیار کر لی۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب میں فوج میں شامل ہوا اور تین ماہ بعد فوجی وردی میں اپنی والدہ سے ملنے گیا تو انھیں بہت فخر ہوا۔ میں امریکی فوجی وردی میں میکسیکو میں داخل ہوا تھا۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں ایک بچے کے طور پر گیا تھا اور ایک افسر بن کر واپس آیا۔‘
تاہم انھیں ایک جسمانی چوٹ کے باعث بحریہ کو چھوڑنا پڑا، اس وقت انھوں نے کسٹمز اینڈ بارڈر سکیورٹی کا انتخاب کیا۔
’آپ اپنے کام کی وجہ سے دوستوں اور خاندانوں کو کھو دیتے ہیں‘
امریکہ اور میکسیکو کی سرحد ملک کی وہ سرحد ہے جہاں سرحدی اہلکاروں کو بعض اوقات ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ قانون کی تعمیل کریں، یا انسانی بنیادوں پر رعایت کریں۔
راڈریگوئز نے یہ یقین دلایا کہ انھوں نے ہمیشہ اس صورتحال میں قانون کی تعمیل کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’آپ اپنے دوستوں کو کھو دیتے ہیں اور گھر پر کام کرنے اور کام کی نوعیت کے باعث اپنے گھر والوں کو بھی۔ یہ اس نوکری کی سب سے مشکل بات تھی کہ کبھی کبھار آپ کو اپنے جاننے والوں اور قریبی رشتہ داروں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔‘
سب سے مشکل کیس جو انھیں یاد ہے اور آج بھی ان کے لیے ایک بھیانک خواب کی طرح ہے، ایک ہائی سکول طالبعلم کا تھا جو 16 یا 17 برس کے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ امریکہ میں رہتے تھے اور یہاں سکول جایا کرتے تھے۔ انھیں ادارے کی جانب سے امیگریشن کا سٹیٹس چیک کرنے کے لیے بھیجا۔ ہم آپس میں عام گفتگو کر رہے تھے جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ امریکی شہری نہیں تھے۔ بلکہ وہ میکسیکو میں پیدا ہوئے تھے اور اس وقت 18 سال سے کم عمر تھے۔‘
’مجھے میکسیکو کے قونصلٹ فون کرنا پڑا تاکہ وہ اسے یہاں سے لے جا سکیں۔ انھیں سرحد پار سے ایک امیگریشن افسر بھیجا اور اس بچے کو میکسیکو میں ریلیز کیا گیا لیکن بچے نے دوبارہ سرحد پار کرنے کا فیصلہ کیا اور پل کے نیچے سے دریا میں تیر کر اس طرف آنے کی کوشش کی۔‘
’اگلے روز اس کی لاش دریا سے نکالی گئی۔‘
راڈریگوئز کو افسوس ہے کہ جس بچے سے انھوں نے گھنٹوں گپ شپ کی تھی اور اس کے اتنے سارے خواب تھے وہ اس طرح ہلاک ہو گیا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’وہ ایک اچھا کریئر بنانا چاہتا تھا تاکہ میکسیکو میں اپنے خاندان کی امداد کر سکے اور جب وہ میکسیکو گیا تھا، جس سے ہمیں شک ہوا، وہ اس لیے گیا تھا کیونکہ اس دادی کی وفات ہو گئی تھی اور وہ ان کے جنازے میں شرکت کرنا چاہتا تھا۔ وہ انگریزی خاصی اچھی بولتا تھا تو اسے ایسا لگا کہ وہ امریکہ میں دوبارہ آرام سے داخل ہو سکتا ہے اور اسے دستاویزات دکھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اسے روکا گیا، واپس بھیجا گیا اور اس کہانی کا اختتام اس کے ڈوبنے سے ہوا۔‘
یہ ایک ایسا کیس تھا جس سے انھیں اپنے ماضی کی کہانیاں یاد آئیں جب انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ سرحد پار کی تھی اور وہ اپنی بہترین انگریزی کو امریکہ میں داخلے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ان بہت سارے کیسز میں سے ایک تھا جس میں آپ دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ یہ اس طرح ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’ہمیں اس بار جانے دو‘، لیکن میں اپنے خاندان کی کفالت کو خطرے میں ڈال کر یا کسی اور کے لیے جیل جانے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میرا خاندان زیادہ اہم ہے۔‘
انٹیگریٹی ایوارڈ
راڈریگوئز کا کہنا ہے کہ ایک سی بی پی ایجنٹ کی نوکری بہت ذہنی دباؤ والی ہوتی ہے اور اس دوران آپ کو بہت دیکھ بھال کر چلنا پڑتا ہے اور اس دوران قانون سے انحراف کرنے کے بہت خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں تاہم ان کے لیے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو امریکہ قانونی طور پر آنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب میں سرحد پار کی تھی تو مجھے یاد ہے کہ انھوں نے میرے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا، مجھے کس طرح دیکھا تھا اور مجھ سے کس طرح بات کی تھی۔ اس وقت مجھے جو محسوس ہوا تھا کیونکہ وہ مجھے میکسیکو اس لیے بھیجنا چاہتے تھے کیونکہ میرے چہرے کے خدوخال مخصوص قسم کے تھے۔ میری ظاہری شکل و صورت نے مجھے پوری زندگی کے لیے خوفزدہ کیے رکھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں شاید تبدیلی لانا چاہتا تھا۔‘
راڈریگوئز کو سی بی پی کے نئے اہکاروں کی ٹریننگ کرنا پڑی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے ان افراد سے جب پہلی مرتبہ بات کی تو اس بات پر زور دیا کہ ’آپ نے رویہ شائستہ رکھنا لیکن آپ نے انصاف کرنا ہے۔ لوگوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کرنا، ان کے ساتھ مجرموں کی طرح برتاؤ نہیں کرنا۔ 99 فیصد لوگ اچھے ہوتے ہیں۔‘
ایک مرتبہ انھیں ایک ایسی خاتون کا کیس ملا جس نے ان سے ایک سٹور پر مدد مانگی۔ اس نے کہا کہ ’میں اپنا ایک بچہ یہاں لانا چاہتی ہوں۔‘ راڈریگوئز نے مدد کرنے سے انکار کر دیا لیکن اس خاتون نے اپنا فون نمبر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ دیا۔‘
انھوں نے اپنے افسران کو اس کیس کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا کہ آپ اس خاتون کو دوبارہ کال کریں اور پیسوں کے عوض ان کے بیٹے کو ملک میں لانے کی حامی بھر لیں لیکن انھیں ایسا ایک ٹیپ ریکارڈر اور ٹریکنگ آلات کی مدد سے کرنا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس خاتون نے کہا کہ میرے بہت سارے بچے ہیں جنھیں میں یہاں لانا چاہتی ہوں۔ متعدد کالز اور ملاقاتوں کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے باس مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس گروہ کی پناہ گاہیں سرحد پار بھی تھیں اور امریکہ میں بھی اور وہ لوگوں کو سمگل کر رہے تھے۔ وہ کم عمر بچوں کو لانا چاہتے تھے۔ پھر وہ موقع آ گیا جب وہ بچوں کو لے آئے اور میں نے انھیں جانے دیا۔ ایک میل اندر آنے کے بعد انھیں پکڑ لیا گیا اور پھر اس گروہ کا قصہ تمام ہوا۔‘
اس کیس کے لیے راڈریگوئز کو انٹیگریٹی ایوارڈ سے نوازا گیا جو ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کا دوسرا سب سے اہم ایوارڈ ہے اور یہ واشنگٹن ڈی سی میں دیا جاتا ہے۔ راڈریگوئز فخر سے بتاتے ہیں کہ ’آپ کو ایک خوبصورت میڈل ملتا ہے، ایک پِن اور پانچ ہزار ڈالر۔‘
نئے سی بی پی ایجنٹس کے کورسز کے لیے راڈریگوئز کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ نئے آنے والوں کو اپنے جذبات گھر چھوڑ کر آنے کے بارے میں کہتے ہیں تاکہ انھیں قانون کے نفاذ میں مشکل نہ ہو۔
وہ اس موقع پر یہ تقریر دہراتے ہیں کہ ’آپ کے جذبات کا آپ کے کام سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ آپ بہت سارے غلط فیصلے کرنے والے ہیں اور آپ کو بالآخر کوئی ایسا کیس ملے گا جس سے آپ کو لوگوں کے بارے میں برا محسوس ہو گا اور آپ کچھ غلط کر بیٹھیں گے۔‘
’مجھے لگا میرا کریئر ختم ہو گیا ہے‘
سنہ 2018 میں ان کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے راڈریگوئز کے افسران نے انھیں سی بی پی کے دفتر بلایا اور انھیں کچھ دستاویزات تھمائے جن سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے انھیں اپنا بیج اور پستول جمع کروانی پڑے گی اور انھیں معطل کر دیا گیا۔
انھیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کس بارے میں ہے لیکن کچھ دیر بعد انھیں سی بی پی کے انٹرویو روم میں بلا لیا گیا جہاں افسران نے انھیں ان کے حقوق پڑھ کر سنائے۔ اس کے بعد انھیں ایک میکسیکو کا برتھ سرٹیفیکیٹ دکھایا گیا جس پر ان کا، ان کے والدین اور ان کے دادا، دادی کا نام بھی درج تھا۔
انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’کیا آپ کو پتا تھا کہ آپ میکسیکو کے شہری تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے کہا نہیں مجھے یہی پتا تھا کہ میں ہمیشہ سے ایک امریکی شہری رہا ہوں۔‘
اس کے بعد انھوں نے میرے والد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
ایک کیفے میں ایجنٹس نے مارگریٹو راڈریگوئز سے پوچھا کہ کیا ان کا بیٹا واقعی میکسیکو میں پیدا ہوا تھا۔ ’انھوں نے زمین کی جانب دیکھتے ہوئے سر ہلایا اور کہا کہ ’ہاں تم میکسیکو میں پیدا ہوئے تھے۔‘
’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرا کیرئیر ختم ہو چکا ہے اور میں نے سب کچھ کھو دیا اور میں وہیں گر گیا۔‘
انھیں بطور سی بی پی ایجنٹ نوکری سے برخواست کر دیا گیا۔ ان کا نیوی کے ذریعے فورس میں آنے کا راستہ منسوخ کر دیا گیا کیونکہ دونوں نوکریاں صرف امریکی شہریوں کو دی جاتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد نے بتایا کہ میری والدہ نے یہ بات خود سے گھڑی تھی اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔‘ ان کی والدہ کی وفات کچھ عرصہ قبل ہو چکی تھی۔
راڈریگوئز کو دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ڈی پورٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ انھیں ڈر تھا کہ اگر انھیں میکسیکو بھیج دیا گیا تو وہ ایسے افراد کا نشانہ بن سکتے ہیں جو ان سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال تھا کہ میں زیادہ عرصہ میکسیکو میں نہیں رہ پاؤں گا کیونکہ انھیں معلوم ہو جائے گا کہ میں کہا کام کرتا تھا۔ جیسے ہی میں سرحد پار کروں گا وہ میرے پیچھے آ جائیں گے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کے طور پر مجھے خوف تھا کہ مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ گا۔ اس وقت میرے ذہن میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ ایسی چیزیں جو ہو سکتی تھیں۔‘
انھیں اپنی بیوی، چار بچوں اور پانچ پوتے پوتیوں کو امریکہ میں چھوڑنا پڑ سکتا تھا۔ راتوں رات سب کچھ کھو دینے پر اب انھیں غصہ آ رہا تھا۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں جاؤں گا۔ یا میں کیا کروں گا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ میں انھیں کسی ریستوران میں دیکھتا تو وہ نظریں چرا لیتے۔ وہ آپ کو ایسا محسوس کرواتے جیسے اب آپ ان میں سے نہیں، آپ باہر سے آئے ہو۔‘
’یہ ایک انتہائی اذیت ناک احساس تھا۔‘ راڈریگوئز کہتے ہیں کہ اب انھیں اس بات کا خیال بھی رکھنا تھا کہ انھیں سڑک پر جاتے ہوئے کہیں ایجنٹس نہ پکڑ لیں جو بغیر دستاویزات کے تارکین وطن کو پکڑتے تھے اور انھیں ملک بدر کر دیتے تھے۔
’میں چھپ جاتا۔ میں ایک ایسے شخص سے جو قانون نافذ کرتا تھا سے ایک ایسا شخص بن گیا جو قانون سے چھپتا تھا۔ میں اپنے بارے میں ایسا محسوس کرنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں۔‘
امریکہ میں رہنے کی جنگ
جب وہ ماضی کے ان واقعات کے بارے میں سوچتے ہیں تو راڈریگوئز کو افسوس ہوتا ہے کہ ان کے ملک نے ’مشکل وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے دھوکہ دیا گیا۔ مجھے اس ملک نے استعمال کیا۔‘
انھوں نے امریکہ میں قانونی طور پر شہریت برقرار رہنے کے لیے دوبارہ امیگریشن کے مراحل سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک عدالت میں گئے جہاں ایک جج نے ان کے کیس کا جائزہ لیا۔
جج نے مجھے بتایا کہ ’میں نے آپ کی فائل پڑھی ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ اس ملک نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے۔ آپ ایک ماڈل شہری ہیں۔ آپ نے سب کچھ ٹھیک کیا۔ آپ نے افواج کے لیے کام کیا اور حکومت کے لیے بھی۔ مجھے آپ میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آتا سوائے اس کے جو وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے کیا لیکن آپ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ شہری نہیں۔‘
جج کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے میں معذرت کرتا ہوں جس اذیت سے آپ کو گزرنا پڑا اور جن رکاوٹوں کا آپ کو سامنا کرنا پڑا۔ مجھے یقین بھی نہیں آ رہا کہ انھوں نے آپ کے ساتھ یہ کیا ہے، اس لیے میں آپ کو امیگریشن سٹیٹس دیتا ہوں۔‘
اس فیصلے کے بعد راڈریگوئز ملک میں رہائش اور پھر اس کی شہریت اختیار کر سکتے ہیں جسے انھوں نے ہمیشہ سے اپنا گھر سمجھا تھا۔
اس سب سے گزرنے کے بعد کیا وہ اب بھی ویسے ہی سی بی پی ایجنٹ ہوں گے جب وہ تارکین وطن کے کیسز کو دیکھ رہے ہوں گے یا ان میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ راڈریگوئز اس سوال کے جواب میں اب بھی بہت واضح ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں، اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے۔ مجھے اپنی نوکری اپنی صلاحیت کے عین مطابق کرنی تھی۔ میں کچھ مختلف نہیں کروں گا کیونکہ میں نے صحیح کام کرنا ہے۔ میں قوانین نہیں توڑ سکتا کیونکہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ میرے خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر میں میکسیکو بھیج دیا جاتا اور انھوں نے مجھے ڈی پورٹ کر دیا ہوتا تو کیا یہ ٹھیک فیصلہ ہوتا؟ ہاں بالکل کیونکہ آپ میرے لیے قوانین تبدیل نہیں کر سکتے تو آپ دوسرے افراد کے لیے بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ میں چاہوں گا کہ وہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو باقی افراد کے ساتھ کرتے ہیں۔‘
تاہم وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس سے ان کی زندگی بدل گئی۔
Comments are closed.