برطانیہ ، امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان ہوئے نئے ایٹمی آبدوز معاہدے پر لفظوں کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ تینوں ممالک کے اس معاہدے کا مقصد چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ بیجنگ نے مغربی دنیا کی ‘سرد جنگ کی ذہنیت’ کی سخت مذمت کی ہے لیکن اس معاہدے سے متاثر اور ممالک بھی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے ڈیلی میل کے مطابق فرانس اس معاہدے کے نتیجے میں آسٹریلیا کے ساتھ اپنے 90 بلین ڈالر کے ذیلی معاہدے کے ٹوٹنے پر بھڑک اٹھا۔ جبکہ اس معاہدے سے نیوزی لینڈ اور کینیڈا کو بھی الگ رکھا گیا۔
نئے معاہدے جسے AUKUS کہا جاتا ہے، کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کا پہلا ایٹمی آبدوز بیڑہ بنانے میں تعاون کریں گے جو کم از کم آٹھ جہازوں پر مشتمل ہوگا۔ اس کے علاوہ تینوں ممالک دیگر فوجی ٹیکنالوجیز ، مصنوعی ذہانت ، سائبر ڈیفنس ، کوانٹم کمپیوٹنگ اور طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیتوں کو بھی آپس میں شیئر کریں گے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے اس ‘خارجی بلاک’ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘علاقائی امن اور استحکام کو سنجیدگی سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کرے گا۔’
فرانس نے بھی ردعمل ظاہر کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ وزیر خارجہ یویس لی ڈریان نے شکایت کی کہ یہ ہماری ‘پیٹھ میں چھرا’ گھونپنے کے برابر ہے کیونکہ فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان ہوئے 12 آبدوزوں کے 90 بلین ڈالر کے معاہدے کو ردی سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے بھی اس حوالے سے کہا کہ نئے معاہدے پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی- لہٰذا ملک کی ’نیوکلیئر فری‘ پالیسی کے تحت نیوزی لینڈ کے پانیوں میں آسٹریلیا کی نیوکلیئر آبدوزوں کے داخلے پر پابندی ہوگی۔
Comments are closed.