الجیریا اور مراکش کے درمیان سرحد کی بندش کا سبب بننے والا تنازعہ کیا؟
- ماہر میزاہی
- صحافی
افریقی صحافیوں کی طرف سے خطوط پر مشتمل ہماری سیریز میں کینیڈا میں بسنے والے الجیریا کے صحافی ماہر میزاہی نے یہ سوال اٹھایا کہ الجیریا اور مراکش کے درمیان کئی دہائیوں سے سرحد کیوں بند پڑی ہے۔
مراکش اور الجیریا کے درمیان کراسنگ ’زوج بیغال‘ کہلاتی ہے جس کا مطلب دو خچر بنتا ہے۔ ایک مقامی کہاوت کے مطابق ایک خچر کے جوڑے کو باندھ کر مشرق کی طرف چلنے کا کہا اور بالآخر وہ اس جگہ پر پہنچ گئے جو مراکش اور الجیریا کی سرحد بنتی ہے۔
ایک براعظم میں جہاں ہماری اکثریت کی سرحدیں من مانی ہوتی ہیں تو ایسے میں اس کہاوت کی سچائی پر مجھے ذرا بھی شبہ نہیں ہوتا۔
قدرتی طور پر یہ سرحد جو تقریباً 2000 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی یہ دونوں ملکوں کے لیے تناؤ کا باعث بنی ہوئی ہے، جس کی شروعات مراکش کے الجیریا میں علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے کے بعد سنہ 1963 کی ’سینڈ وار ‘سے ہوئی تھی۔
جب الجیریا نے مراکش سے مغربی صحارا کی آزادی کے لیے پولیساریو فرنٹ کی مہم کی حمایت کی تھی تو ایسے میں پھر دونوں ممالک کا مقابلہ دوبارہ ہو گیا اور اس کا نتیجہ 1975-1991 کی مغربی صحارا جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔
اس کے بعد 1994 میں یہ سرحد پھر سے بند کردی گئی تھی۔ اس بار سکیورٹی وجوہات کو اس پابندی سے جوڑا گیا کیونکہ مسلم شدت پسندوں مراکش کے شہر ماراکیش میں ایک ہوٹل کو ہدف بنایا۔
شمالی افریقہ کے دو ممالک کے مابین تعلقات کی مکمل تفصیلات انتہائی پریشان کن اور انتہائی پیچیدہ ہیں مگر دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی بندش پر میں اپنی نسل کی طرف سے مایوسی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
خفیہ طریقوں سے سرحد پار کرنا
ایک ایسے الجیرین کی طرح جس کی پرورش اپنے ملک سے باہر ہوئی ہو میں نے یہ بات بہت جلد ہی جان لی تھی کہ دونوں ممالک کے لوگوں میں بہت کم ہی فرق پایا جاتا ہے۔
اپنے ممالک سے باہر ہم ایک ہی طرح کی مساجد میں نماز پڑھتے ہیں، ایک دوسرے کی شادیوں میں مددگار بن جاتے ہیں اور انتہائی انہماک سے فٹ بال میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہو جاتے ہیں۔
مغربی الجیریا کے رہائشیوں کی اپنے ہی ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ مراکش کے لوگوں سے بڑی حد تک روایات، ثقافت اور زبان ملتی ہے۔
سرحد کے ساتھ رہنے والے کسی سے بھی زیادہ ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے خفیہ طریقے سے اس سرحد کو پار کرتے ہیں۔
تاہم اس برس لہجے میں تبدیلی ضرور واقع ہوئی ہے۔
مارچ میں مراکش کے علاقے فگیگ کے کھجور کی پیداوار والے کسانوں کی ایک کمیونٹی جس نے الجیریا کے علاقے ال اجرہ میں ایک باغ کی کاشت کی تھی مگر اب انھیں الجیریا کے حکام نے بتایا ہے کہ وہ اب ایسا نہیں کر سکیں گے۔
مراکش میں بسنے والے چند خاندانوں کا یہ کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے اوئل میں نوآبادیات کے خاتمے سے قبل یہ زمینیں ان کی ملکیت تھیں اور ان کے پاس اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
الجیریا کی حکومت اقوام متحدہ کی نشان زدہ سرحد کی مکمل پاسداری کرتی ہے اور حکومت کے مطابق منشیات سمگلنگ کی وجہ سے ان کھجوروں کے کسانوں کو ان سرحدی علاقوں سے نکالا گیا۔ فگیگ میں کئی خاندانوں کے مطابق زراعت ان کا واحد ذریعہ روزگار ہے اور سرحد بند کرنے سے ان کی معاشی خوشحالی کی موت واقع ہو جائے گی۔
مراکش میں بھنگ کو طبی وجوہات، کاسمیمٹک اور صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت دینے سے متعلق مجوزہ قانون سازی کے چند ہفتے بعد یہ تناؤ پیدا ہوا۔ اس کے بعد الجیریا کی فوج نے مراکش سے منشیات کی بلا روک ٹوک سمگلنگ پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس نے سنہ 2018 سے لے کر اب تک تقریباً 200 ٹن چرس اور 63 لاکھ نفسیاتی امراض سے متعلق گولیوں کو ضبط کیا۔
ایک بیان میں الجیریا کی حکومت کا کہنا تھا کہ مراکش کی حکومت نے سرحد کی دوسری اطراف پڑوسی ممالک کی سلامتی اور استحکام کو نظر انداز کر کے اپنی منشیات فروخت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
جون میں الجیریا کے صدر عبدالمجید تبونے نے سرحد دوبارہ کھولنے کے امکان کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ ہم ایسے ملک کے ساتھ اپنی سرحد نہیں کھول سکتے جو روز ہم پر حملہ آور ہوتا ہے تاہم انھوں نے اپنی اس بات کی تفصلی وضاحت نہیں دی۔
فگیگ میں کئی خاندانوں کے مطابق زراعت ان کا واحد ذریعہ روزگار ہے اور سرحد بند کرنے سے ان کی معاشی خوشحالی کی موت واقع ہو جائے گی
واضح رہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اکثر میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے پر حملے کرتی ہیں۔ فگیگ کی کہانی نے مجھے براہ راست متاثر کیا کیونکہ مجھے یہ صاف یاد ہے کہ کیسے اس نے چند برس قبل اوران سے بیچار تک ٹرین کے حیرت انگیز ٹریک پر اپنے تخیلات کو میرے اندر سمو دیا تھا۔
بحیرہ روم کے ساحل پر ناہموار قسم کی سرسبز و شاداب سطح پر سو کر میں دوسری صبح صحارا کے صحرا میں فگیگ بینی اونیف کے مقام پر جاگا تھا جو سرحد پار کرنے کی جگہ ہے۔
ہوٹل کے کمرے سے کئی سو کلومیٹر دور تک مراکش کے پولیس اہکار اور بارڈر پٹرول کو گشت کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
میرے ساتھیوں نے کبھی بھی زمینی سرحد عبور کرنے کا تجربہ نہیں کیا اور بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ جلد ہی صورتحال کسی بھی وقت بدل جائے گی۔
عام خیال یہی ہے کہ دونوں حکومتیں مذاکرات اور سمجھوتے پر راضی نہیں اور یہاں تک کہ بعض اوقات بین الاقوامی قانون کا بھی احترام کرنے سے قاصر ہیں۔
افریقہ میں دوسرے علاقوں جیسے مشرقی افریقی برادری کی معاشی کامیابی کے مقابلے میں یہ ضد خاص طور پر تکلیف دہ ہے۔
عرب تنظیموں کے نزدیک بند سرحدوں کا مطلب آنسو اور شدید نقصانات ہیں۔
یہ بلاک جو موریتانیا، مراکش، الجیریا، تیونس اور لیبیا پر مشتمل ہے، براعظم اور خطے کی سپر پاور میں شامل ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے شمالی افریقہ میں سرحد کے بند ہونے کے نقصانات کا اندازہ سالانہ اربوں ڈالر لگایا ہے۔
انفراسٹرکچر منصوبے جیسے ٹرانس مغرب ہائی وے جو 55 شہروں، 50 ملین افراد اور 22 ہوائی اڈوں کو نوکچوٹ سے طرابلس تک ملائے گی، بھی مکمل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
اس دور میں جب متعدد ممالک بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر رہے ہیں، میرا خواب ہے کہ افریقہ کے دوسرے ورلڈ کپ کے لیے مغرب بولی لگائے۔
لیکن یہ خواب تب تک خواب ہی رہے گا جب تک مراکش اور الجیریا کی دو حکومتیں اپنے طریقے تبدیل نہیں کریں گی۔
ہماری نسل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے، اگر ہم کبھی بھی ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مہنگی پروازوں میں سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
لیکن اگر میری زندگی میں سرحدیں کھل گئیں تو میں زوج بیگل سے گزرنا یقینی بناؤں گا اور معلوم کروں گا کہ آخر وہ خچر کیا سوچ رہے تھے۔
Comments are closed.