بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اقوام متحدہ کے ’آر ٹو پی‘ اصول کی تشریح پر وزیر اعظم کی وضاحت

اقوام متحدہ کے ’آر ٹو پی‘ اصول کی تشریح پر وزیر اعظم کی وضاحت

  • سارہ عتیق
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

عمران خان وزیر اعظم پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو افغانستان میں عالمی برادری کی مداخلت کے حوالے سے ٹوئٹر پیغام پر اعتراضات سامنے آنے کے بعد وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے اصول ‘آر ٹو پی’ کا ایک پہلو یہ ہے کہ طویل عرصے سے جنگ سے متاثرہ ملک کے لوگوں کو انسانی المیے سے بچانے کی کوشش کی جائے۔

یاد رہے کہ اس وضاحت سے قبل وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں عالمی برادری سے ایک بار پھر اپیل کی تھی کہ افغانستان میں کسی بڑے انسانی بحران سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کے فراہمئ تحفظ کے اصول (R2P) کے تحت ہنگامی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کا یہ پروگرام (Responsibility to Protect) تحفظ فراہم کرنے کی اجتماعی ذمہ داری یعنی ‘آر ٹو پی’ کہلاتا ہے۔

آسان الفاظ میں یہ ایک نظریہ ہے جس کے مطابق شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت کی اولین ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور اگر ریاست یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوتی ہے اور اپنے شہریوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہے تو اس ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہو جاتی ہے اور اس کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا، جس میں فوجی کارروائی بھی شامل ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے افغانستان کی مدد کی اپیل کی ہو تاہم اس مرتبہ انھوں نے اقوام متحدہ کے جس اصول کے تحت عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے، اس کے تحت اقوام متحدہ فوجی کارروائی کے ذریعے کسی ملک میں انسانی بحران جیسا کہ نسل کشی کو روک سکتا ہے۔

عمران خان نے اپنے اس بیان کی جو وضاحت چند گھنٹے بعد جاری کی اس میں مزید کہا کہ ‘فی الوقت کروڑوں افغان باشندے بھوک جیسے خطرے سے دوچار ہیں۔ ایسے میں انسانی بنیادوں پر (افغان عوام کو) امداد کی فراہمی عالمی برادری کے ذمے ہے۔’

تاہم عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اصول تو دراصل جنگ اور اس کی وجوہات سے منسلک ہے اور اس کا امداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے قبل وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی ‘آر ٹو پی’ کے تحت عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی تھی جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ پاکستان کی حکومت خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان جو افغانستان میں فوجی حل کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں تو یوں اچانک آر ٹو پی کے تحت افغانستان میں مداخلت کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟

کیا وزیراعظم عمران خان ایک اور فوجی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا پاکستان نے افغانستان اور آر ٹو پی سے متعلق اپنی خارجہ پالسی تبدیل کر لی ہے یا انھیں آر ٹو پی کے اصول کی اصل معنی سمجھنے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے؟

‘پاکستان سمیت دنیا کہ بہت سے ممالک آر ٹو پی پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں’

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کروڑوں افغان اب عالمی ادارہ خوراک سے ملنے والی خوراک پر منحصر ہو گئے ہیں

اقرا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر تصور حسین کا کہنا تھا کہ ‘آر ٹو پی کا تعلق امداد سے نہیں بلکہ جنگ اور اس کی وجوہات سے ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگ صرف چند ہی صورتوں میں جائز ہے۔ ایک اپنے دفاع میں، اپنے خلاف ہونے والے حملے کو روکنے کے لیے یا پھر انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے جسے آر ٹو پی کہا جاتا ہے۔’

ڈاکٹر تصور کا کہنا ہے کہ ‘آر ٹو پی کے تحت کارروائی بھی تب ہی کی جا سکتی ہے اگر اس ملک میں نسل کشی ہو رہی ہو یا انسانیت کے خلاف بڑی پیمانے پر جنگی جرائم کیے جا رہے ہوں۔

‘بھوک یا غربت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے موجود ہیں جس کے ذریعے افغانستان کی امداد کی جا سکتی ہے لیکن آر ٹو پی کے کسی بھی جزو کا تعلق اس امداد سے نہیں ہے جس کی اپیل وزریر اعظم عمران خان افغانستان کے بارے میں کرنا چاہ رہے ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘وزیر اعظم پہلے بھی جغرافیہ اور تاریخ سے متعلق غلط حوالے دے چکے ہیں اور لگتا ہے کہ انھوں نے اس بار بھی آر ٹو پی سے متعلق بغیر مکمل معلومات کے حوالہ دے دیا۔’

ڈاکٹر تصور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘پاکستان سمیت دنیا کہ بہت سے ممالک آر ٹو پی پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ صرف ایک زیر بحث نظریہ ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کا بھی باقاعدہ حصہ نہیں بنایا گیا۔’

ڈاکٹر تصورسمجھتے ہیں کہ ‘ایسے حساس معاملات جن کا تعلق آپ کی خارجہ پالیسی کے معاملات سے ہوتا ہے وزیراعظم اور ہمارے وزرا کو ان پر بیانات جاری کرنے سے پہلے مکمل معلومات حاصل کر لینی چاہیے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا مذاق نہ بنے اور لوگ ان کے پالیسی بیانات کو سنجیدگی سے لیں۔’

‘جس نے خطرناک تشریح کی ہے اس کے خلاف کارروائی کریں’

اس ٹویٹ پر سابق سفیر سمیت متعدد لوگوں نے وزیراعظم عمران خان کی تصحیح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے ان سے اپنے بیان کی مزید وضاحت مانگی تو کسی نے ان سے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سرے سے ٹویٹ ہی واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ‘آر ٹو پی کا تعلق افغانستان کی صورت حال سے نہیں اس لیے گزارش ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کریں جس نے آر ٹو پی کی یہ خطرناک تشریح کی۔’

صحافی حمزہ سلمان سلام کا کہنا تھا کہ ‘سمجھ نہیں آ رہا آیا وزیر اعظم عمران خان افغانستان میں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا دعویٰ کر رہے ہیں یا انھیں آر ٹو پی کی بالکل سمجھ ہی نہیں۔’

وزیر اعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی خارجہ امور پر مشاورتی کمیٹی کی رکن ڈاکٹر ربیہ اختر نے بھی وزیر اعظم سے اپنی ٹویٹ کو ڈلیٹ کرنے کی درخواست کی۔

لیبیا میں آر ٹو پی کا اطلاق

لیبیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اقوام متحدہ کے زیر سربراہی اب تک ایک ہی ملک لیبیا کے خلاف آر ٹو پی کا نفاذ کیا گیا ہے، جس کے بعد لیبیا میں پیدا ہونے والے حالات نے اس نظریہ پر بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

فروری 2011 میں عرب سپرنگ کے دوران لیبیا کے عوام بڑی تعداد میں فوجی آمر معمر قذافی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے تو اس وقت کے حکمران نے اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کیا تھا، جس میں مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے لیبیا کی حکومت کی جانب سے اپنے ہی عوام کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے آر ٹو پی کے تحت کارروائی کرنے کی اجازت دی ہے، جس کے تحت فرانس، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سمیت کئی ممالک کی افواج نے لیبیا میں قذافی کی افواج کے خلاف کارروائی کی۔

اگرچہ آر ٹو پی کے تحت اقوام متحدہ کا مینڈیٹ صرف حکومتی فورسز کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف مظالم سے روکنا تھا تاہم اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ قذافی کی موجودگی میں لیبیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لہٰذا جب تک وہ اقتدار نہیں چھوڑ دیتے فوجی آپریشن جاری رہے گا۔

معمر قذافی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

معمر قدافی کو اکتوبر 2011 میں ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن لیبیا میں امن قائم نہ ہو سکا۔

بلکہ اس کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے۔ جس کے بعد بہت سے ممالک کی جانب سے جن میں روس، چین اور انڈیا سر فہرست ہیں یہ تنقید کی گئی کہ آر ٹو پی کے نام پر طاقتور ممالک دوسرے ممالک میں اقتدار کی تبدیلی اور من پسند حکومت قائم کر رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور ممالک کی خودمختاری کے خلاف ہے۔

لیبیا میں حالات کا مزید بگڑ جانا ہی ایک وجہ ہے کہ اقوام متحدہ شام اور میانمار میں انسانیت کے خلاف جرائم سامنے آنے کے باوجود آر ٹو پی کے تحت کارروائی کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

روانڈا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آر ٹو پی کی تاریخ

آر ٹو پی کے نظریے اور اس میں موجود کمزوریوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ سمجھنا ضروری ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے بعد علمی طاقتوں کے سربراہان جس میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، روس اور چین شامل ہیں نے مستقبل میں کسی ایسے بڑے فوجی تنازعے سے بچنے کے لیے ایک ایسے ادارے کے قیام پر اتفاق کیا، جو تمام ممالک کے درمیان تنازعات کا پر امن حل تلاش کرے تاکہ اس کے حل کے لیے جنگ کی نوبت نہ آئے۔

اس کے لیے سنہ 1945 میں اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا اور اس کے چارٹر کے تحت اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ اس دنیا کی تمام ریاستیں خودمختار ہیں اور ان کی خودمختاری کا احترام ہر ملک پر فرض ہے لہٰذا ایک ملک کی جانب سے کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کے اندر فوجی مداخلت کسی صورت جائز نہیں۔

اس چارٹر کے تحت اقوام متحدہ کے عالمی امن کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے ایک امن فورس بھی وجود میں آئی جسے اقوامِ متحدہ کی امن قائم کرنے والی فوج کہا گیا اور اس کا مقصد مقامی حکومت کی اجازت سے جنگ بندی اور کارروائیوں کی نگرانی کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ طاقتور ممالک کمزور ممالک کی خودمختاری کو پامال نہ کریں۔

بوسنیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اس میں سنہ 1994 میں افریقہ کے ملک روانڈا میں توتسیوں اور سنہ 1995 میں بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی سر فہرست ہے۔ دونوں ہی مواقع پر اقوام متحدہ کی امن فوج ان مملک میں تعینات تھی لیکن مقامی تنازعے میں مداخلت نہ کرنے اور ناکافی ہتھیاروں کی وجہ سے تاریخ کے ان بدترین جرائم کو روکنے میں ناکام رہی

سنہ 1960 اور سنہ 1970 کی دہائی میں اقوام متحدہ کی اس امن فوج نے افریقہ کے ممالک میں امن قائم کرنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ سنہ 1960 میں اقوام متحدہ کے اب تک کے سب سے بڑے فوجی دستے کو کانگو میں تعینات کیا گیا، جس کی ایک وقت میں تعداد بیس ہزار فوجیوں تک جا پہنچی تھی۔

اقوام متحدہ کے اس آپریشن کا مقصد نئی قائم شدہ ریاست کانگو سے بیلجیم کی افواج کا انخلا اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے ملک میں کسی متوقع خانہ جنگی کو روکنا تھا۔

اقوام متحدہ کا امن مشن ایسا کرنے میں کامیاب ہوا اور کانگو میں امن قائم ہوا لیکن بہت سے مواقع ایسے بھی تھے، جب اقوام متحدہ کی فوج بروقت کارروائی کرنے اور امن قائم کرنے میں ناکام رہی اور اس کے نتیجے میں ان ممالک میں ایسی نسل کشی ہوئی اور انسانیت کے خلاف ایسے جرائم کیے گئے جس پر عالمی دنیا آج بھی شرمسار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس میں سنہ 1994 میں افریقہ کے ملک روانڈا میں توتسیوں اور سنہ 1995 میں بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی سر فہرست ہے۔ دونوں ہی مواقع پر اقوام متحدہ کی امن فوج ان مملک میں تعینات تھی لیکن مقامی تنازعے میں مداخلت نہ کرنے اور ناکافی ہتھیاروں کی وجہ سے تاریخ کے ان بدترین جرائم کو روکنے میں ناکام رہی۔

اقوام متحدہ کے پاس ایسا ہی ایک اور چیلنج سنہ 1999 میں ایک بار پھر آیا، جب ماضی کے یوگوسلاویہ میں سربیا کی افواج کی جانب سے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے والے کوسوو کے باشندوں کا قتل عام کا خطرہ پیدا ہوا لیکن اقوام متحدہ ایک بر پھر اس کش مکش میں مبتلا رہی کہ آیا اسے اس تنازعے میں مداخلت کرنی چاہیے یا نہیں۔

اس دوران نیٹو فوجی اتحاد نے امریکہ کی سربراہی میں فوجی آپریشن کرتے ہوئے سربیا پر بمباری کی جسے بہت سے ممالک کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن نیٹو ممالک کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک اور انسانی حقوق کے بحران سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔

اس کے نتیجے میں سربیا کے حکام مذاکرات پر آمادہ بھی ہوئے۔

اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایک بحث چھڑ گئی کہ اگرچہ اقوام متحدہ کا چارٹر کسی بھی ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس صورت میں جب ایک ریاست ہی اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے جو کہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور خود ہی اپنے شہریوں کے خلاف جنگی جرائم جیسا کہ نسل کشی اور قتل عام کی مرتکب ہو تو ایسے میں کیا کیا جائے؟ اور روانڈا اور بوسنیا جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کیا کردار ادا کرے۔؟

کوسوو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اقوام متحدہ کے پاس ایسا ہی ایک اور چیلنج سنہ 1999 میں ایک بار پھر آیا، جب ماضی کے یوگوسلاویہ میں سربیا کی افواج کی جانب سے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے والے کوسوو کے باشندوں کا قتل عام کا خطرہ پیدا ہوا لیکن اقوام متحدہ ایک بر پھر اس کش مکش میں مبتلا رہی کہ آیا اسے اس تنازعے میں مداخلت کرنی چاہیے یا نہیں

سنہ 2005 میں اقوام متحدہ کے 60 ویں سالانہ اجلاس کے دوران آر ٹو پی یعنی فراہمی تحفظ کی ذمہ داری کے نظریے کی حمایت کی گئی۔

اس نظریے کے مطابق شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت کی اولین ذمہ داری ریاست کی ہے اور اگر ریاست یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوتی ہے اور اپنے شہریوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہے تو اس ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہوتی ہے اور اس کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا جس میں فوجی کاروائی بھی شامل ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.