افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور 1989 کے واقعات کی بازگشت
- لیسے ڈوسٹ
- چیف بین الاقوامی نامہ نگار
سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں کابل کی سخت سردی میں ایک کاغذ کے ذریعے مجھے ’آخری تنبیہ‘ دی گئی۔ برطانوی سفیر نے کہا ’میں آپ کو تجویز دوں گا کہ جب تک پروازیں دستیاب ہیں بلاتاخیر افغانستان سے نکل جائیں۔‘
اس کے 11 روز بعد 30 جنوری 1989 کو برفباری کے دوران ہم نے دیکھا کہ امریکی سفیر نے اپنے ملک کے سفارت خانے سے امریکہ کا پرچم ایک چھوٹی سی تقریب میں اُتارا، اس عمل کے بڑے اہم سیاسی معنی تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین کے آخری فوجی دستے افغانستان سے واپس جا رہے تھے اور ایک دہائی تک چلنے والی تباہ کن جنگ کا اختتام ہو چکا تھا۔ مغربی محاذ کا مطلب کابل میں ماسکو کی حمایت یافتہ حکومت کو ہلانا تھا۔
برطانیہ نے بھی اپنے سفارتخانے کے دروازے بند کر لیے تھے۔ اس سفید عمارت کو ’ایشیا کی بہترین‘ عمارت سمجھا جاتا تھا۔
سابق برطانوی سفیر سٹیفن ایونز یاد کرتے ہیں کہ ’برطانوی وزرا سمجھتے تھے کہ احکامات کی پیروی کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، اگرچہ سفارت خانے کا عملہ وہاں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے پُرعزم تھا۔‘ سٹیفن ایونز اس وقت برطانوی دفتر خارجہ میں افغانستان ڈیسک آفیسر تھے۔
افغانستان چھوڑتے وقت لندن اور واشنگٹن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد واپس آئیں گے۔ لیکن ان کے افغانستان میں مشنز 2001 میں امریکی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمے تک معطل رہے۔
اب نیٹو فوج کا قریب 20 سال جاری رہنے والا مشن ختم ہو رہا ہے اور اس کے غیر ملکی فوجی دستے واپس جا رہے ہیں۔ اس موقع پر سفیر دوبارہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ افغانستان میں رہا جائے یا واپس جانے کا وقت آ گیا ہے۔
ایونز کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اپنا سفارتخانہ بند کر کے اس سے ملتا جلتا اشارہ نہیں دینا چاہیے، جب تک اس کی سکیورٹی وجوہات نہ ہوں۔‘ یہ آرا کئی سفارتخانوں کی محفوظ دیواروں اور خار دار تاروں کے اندر بسنے والے عملے کے علاوہ ملکی دارالحکومتوں میں سرگوشی کر رہی ہے۔
مگر امریکی انخلا کی تیز رفتار کی طرح افغانستان کی کئی ریاستیں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ طالبان کے قبضے میں جا رہی ہیں اور کووڈ 19 کی عالمی وبا سے بھی ملک متاثر ہوا ہے، جس سے بے یقینی کا ماحول برقرار ہے۔
دفاتر سے ہنگامی بنیادوں پر نکلنے کے منصوبے مسلسل اپ ڈیٹ کیے جاتے ہیں اور عملے کی تعداد درج ہوتی ہے، اس کی وجہ کووڈ کے علاوہ سکیورٹی کا خطرہ بھی ہے۔ اور صورتحال کے مطابق سامان کے کچھ بیگ ہمیشہ پیک رہتے ہیں یعنی ہمہ وقت تیار۔ کچھ دن سکون تو کبھی تشویش چھائی رہتی ہے۔
ایک یورپی سفارتکار کا کہنا ہے کہ ’ہمارے دارالحکومتوں کو اس وقت صرف سکیورٹی میں دلچسپی ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں سے ہم کابل میں سکیورٹی پر ہی بات چیت کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہاں مصروف ہیں اور ادھر رہنا چاہتے ہیں۔‘
بیلجیئم کے سفارتکار رواں ہفتے واپس روانہ ہو چکے ہیں جبکہ آسٹریلیا کا عملہ مئی میں ہی اپنے دفاتر بند کر چکا ہے۔ فرانسیسی تقریباً جا چکے ہیں اور دوسروں کی طرح برطانوی افواج صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔
اس سے زیادہ پریشان افغان شہری ہیں جو سفارتخانے کے عملے کی معاونت کرتے ہیں۔ وہ غیر ملکی افواج کے لیے زبان اور ثقافت کے مترجم ہیں۔ کئی شہری کابل میں تناؤ اور نہ رکنے والی لوڈ شیڈنگ سے تنگ ہیں اور سفارتخانوں پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی اقدام آنے والے وقتوں میں ہونے والی پیش رفت کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
افغانستان میں سابق نائب وزیر برائے کامرس مقدسہ یورش، جو اب کابل میں ذرائع ابلاغ کی ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، پوچھتی ہیں کہ ’اگر ملک کو بارہا کہا جائے کہ اس کے نصیب میں صرف ناکامی لکھی ہے تو متبادل کی تلاش میں نکلے افغان شہریوں کے لیے کیا امید بچے گی؟‘
شہریوں کے لیے یہ مایوس کن تھا جب مئی میں آسٹریلوی حکومت نے واپس جانے کا اعلان کیا اور کابل میں اپنا سفارخانہ بند کر دیا۔ تاہم اس نے یہ بندش عارضی ہونے کی امید ظاہر کی۔ اس بار برطانوی سفارتخانے کی طرف سے کوئی علامت، ٹویٹ یا ایسا خط برطانوی شہریوں کو موصول نہیں ہوا جس میں متنبہ کیا گیا ہو کہ ’جلد از جلد افغانستان سے نکل جائیں۔‘
یورش اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک ایکو چیمبر کی طرح ہے اور تمام قوتیں یہاں سے اپنی افواج کے انخلا کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں اور شاید اس دوران وہ یہاں انتہائی برے نتائج کی پیشگوئی کر رہی ہیں، یعنی خانہ جنگی۔‘
افغان بھی جنگ کی بڑھتی سنگینی کے باعث مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔
پہلے کی طرح برطانوی فوج امریکیوں کی جانب دیکھ رہی ہے جیسے دیگر ممالک کے مشنز دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ سینکڑوں فوجیوں کو فی الحال افغانستان میں رکھنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ اپنے سفارت خانے کو محفوظ رکھ سکے، جیسے وہ دیگر ملکوں میں کرتی آئی ہے۔
تاہم یہ بھی بظاہر ایک خطرناک منصوبہ ہے۔
اس ہفتے طالبان کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے باور کروایا تھا کہ غیرملکی افواج کی افغان سرزمین پر تھوڑی تعداد میں موجودگی کو ’قابض فوج‘ کی موجودگی سمجھا جائے گا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ اور طالبان کے درمیان کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے باعث امریکی افواج کا انخلا یقینی بنایا گیا ہے۔
جب میں نے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے اس حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ سے مذاکرات کے دوران یہ تمام موضوعات زیرِ بحث آئے تھے اور بالآخر امریکہ نے تمام فوجیوں کے انخلا کی یقین دہانی بھی کروائی تھی، جن میں مشیر اور ٹرینرز بھی شامل تھے۔‘
طالبان بین الاقوامی طور پر اپنی ساکھ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس دوران سفارتخانوں پر بھی نظر رکھنا چاہتے ہیں۔
گذشتہ ماہ جب یورپی یونین کے نئے خصوصی مندوب برائے افغانستان ٹومس نکلاسن نے طالبان رہنماؤں سے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے بات کی تھی تو طالبان کی جانب سے کچھ ہی گھنٹوں میں ایک اعلامیہ جاری کیا گیا گیا اور افغان دارالحکومت میں موجود سفارتکاروں اور امدادی مشنز کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی۔
تاہم ہر کوئی اس بات پر متفق نہیں ہے کہ جیسے ایک مغربی ملک کے سفیر نے کہا تھا کہ ’دوحہ کے تجربہ کار سفیروں‘ کی بات تمام طالبان فیلڈ کمانڈر مانیں گے۔ جہاں طالبان چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے آئے سفارتی مشنز کابل میں موجود رہیں، وہیں وہ ان کی افغان حکومت کے لیے حمایت کے حق میں نہیں ہیں۔
چند غیر ملکی مشنز جو اس وقت انتہائی ہائی سکیورٹی کمپاؤنڈ یعنی ’گرین زون‘ میں موجود نہیں ہیں وہ بھی اس کی متعدد چاردیواریوں میں خود کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
ناروے کی جانب سے سفیروں اور امدادی کارکنوں کے لیے کام کرنے والے سے انتہائی اہم فیلڈ ہسپتال کو اگلے سال بہار کے موسم تک چلانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس وقت تک یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ایک سویلین ہسپتال بنا دیا جائے گا۔
ان تمام میں سے سب سے زیادہ اہم بین الاقوامی ایئرپورٹ ہے جو افغان باشندوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہ انتہائی برے وقت میں ان کے لیے یہاں سے فرار ہونے کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری کو نیٹو کے سائے میں موجود ترک اور امریکی افواج سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس بات کی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ترکی افغانستان سے ایک دو طرفہ معاہدے کے تحت بعد میں بھی نبھاتا رہے گا۔
تاہم ان آخری لمحات میں بھی انقرہ سے ہونے والے مذاکرات سیاسی، سکیورٹی اور قانونی مسائل میں گھر چکے ہیں اور اس میں طالبان کا خطرہ بھی شامل ہے۔ تاہم نیٹو حکام کو امید ہے کہ اس حوالے معاہدہ ممکن ہو پائے گا۔
اس وقت زیادہ تر سفارتخانے یہ اشارہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ثابت قدم رہیں گے۔
امریکی سفارتخانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں یہ الفاظ لکھے گئے جب اس طرح کی خبریں سامنے آنے لگیں کے سفارت خانہ بھی بند ہونے کے قریب ہے: ’کابل میں امریکی سفارتخانہ کھلا اور کھلا رہے گا۔‘
ایک مغربی ملک کے سفیر نے کہا کہ ’سفارت خانے کابل میں ہی رہیں گے لیکن ہم ایک انتہائی حساس مرحلے میں ہیں اور اس صورتحال کو روزانہ کی بنیادوں پر مانیٹر کر رہے ہیں۔ سفارتی عملے کی حفاظت ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔‘
ان سفیر کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ’ہمیں اس حوالے سے برطانیہ سفارتخانے پر نظر رکھنی چاہیے۔ یہ صرف مغربی مشنز کی بات نہیں ہے بلکہ چینی سفارتخانہ بھی سکیورٹی معاملات پر مذاکرات کرنے کا خواہاں ہے۔‘
گرین زون میں برطانوی کمپاؤنڈ چند دیگر مشنز سے بڑا ہے لیکن دیگر کئی مشنز سے چھوٹا بھی ہے۔ اس لیے اسے اس حوالے سے کسی بھی پیش رفت میں پہل کرنے والے مشنز میں سے ایک دیکھا جا رہا ہے۔
افغان اور غیر ملکی نظریں ملک کی تیزی سے بدلتی سکیورٹی صورتحال پر ہیں۔
تمیم آسے جو سابق افغان ڈپٹی دفاعی وزیر ہیں اور آج کل کابل میں انسٹیٹیوٹ فار وار اینڈ پیس سٹڈیز کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں کہ ’بہت سے اضلاع جن پر طالبان قابض ہوئے ہیں ان کی سٹریٹیجک اہمیت نہیں ہے لیکن یہ پروپیگینڈا کے لیے اہم ہیں۔ اگلی لڑائی اب شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے ہو گی۔‘
ایک ایسے تنازع میں جہاں زمین پر ہونے والی پیش رفت اتنی ہی اہم ہے جتنا میڈیا پر موجود بیانیہ، یہاں موجود سفارتی مشنز پرسکون رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ بھی انتہائی مشکل ہے۔
Comments are closed.