بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے؟

افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے؟

  • اعظم خان
  • بی بی سی اردو

عمران خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ نئی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور افغانستان سے افواج کی واپسی کے لیے تاریخ طے کرنے کے امریکی فیصلے سے طالبان پر پاکستان کا اثر کم ہو کر رہ گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے فوج کی انخلا کی تاریخ دینے کے بعد سے طالبان پر ہمارا اثر ختم ہو گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب امریکہ نے وہاں سے نکلنے کی تاریخ دی تو بنیادی طور پر طالبان نے فتح کا دعویٰ کردیا۔

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ مستقبل میں طالبان کی جانب سے افغانستان پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کے حوالے سے کہا کہ ‘ہم سرحد سیل کردیں گے کیونکہ اب ہم کر سکتے ہیں لیکن پاکستان تنازع نہیں چاہتا، دوسری بات ہم مہاجرین کی ایک مرتبہ پھر آمد نہیں چاہتے۔’

طالبان کے قبضے کو تسلیم کرنے کے متعلق عمران خان نے کہا کہ ‘پاکستان صرف ایک ایسی حکومت کو تسلیم کرے گا جس کا انتخاب افغانستان کے عوام کرتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ پچھلی مرتبہ 90 کی دہائی میں پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

یہاں دو اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ کون سی بنیادیں ہیں جن پر پاکستان اب امریکہ کے ساتھ اپنے نئے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ طالبان کی ممکنہ کابل میں حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا پاکستان کی ماضی کی پالیسیوں میں واضح تبدیلی ہے؟

امریکہ پاکستان تعلقات پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ‘اب امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد بنیادی طور پر پاکستان ایک مہذب تعلقات کی خواہش کرے گا، جو آپ کے دیگر ممالک کے مابین ہیں اور ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔‘

عمران خان نے مزید کہا ہے کہ وہ ایسے تعلقات کے خواہش مند ہیں جیسے تعلقات امریکہ اور برطانیہ یا امریکہ اور انڈیا کے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے انٹریو میں کہا کہ ‘بدقسمتی سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران تعلقات کا جھکاؤ یکطرفہ تھا، امریکہ نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان کو امداد فراہم کررہا ہے اس لیے پاکستان وہ کرے جس کے بارے میں واشنگٹن ہدایت دے اور پاکستان نے ایسا ہی کیا اور اس کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے اور 120 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا کیونکہ ملک بھر میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہوئے۔’

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس تعلقات کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی حکومتوں نے وہ کام کیے جس کے وہ قابل نہیں تھے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں نے محسوس کیا کہ انھوں نے اس تعلق کی بھاری بلکہ بہت بھاری قیمت ادا کی ہے اور امریکہ کا خیال تھا کہ پاکستان نے کافی کام نہیں کیا ہے۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئی بھی محب وطن پاکستانی یہی چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات باہمی احترام اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوں۔ ان کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم کا یہ نکتہ بہت درست ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔

عابدہ حسین کے مطابق امریکہ سے جیسے سفارتی تعلقات ہیں ایسے ہی چلتے رہیں تو بہتر ہوگا کیونکہ ویسے بھی امریکہ اس وقت پاکستان کی کوئی مدد وغیرہ تو کر نہیں رہا ہے۔

امریکہ سے تعلقات کے بارے میں عابدہ حسین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی خواہشات اپنی جگہ مگر امریکی اپنے مفادات کے تحت تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان سے بہتر تعلقات کی ضرور خواہاں ہو سکتی ہے مگر امریکہ کا زیادہ جھکاؤ انڈیا کی طرف ہی نظر آتا ہے۔

ادھر افغانستان کے سوال پر اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ ’افغانستان کے حوالے سے بھی وزیر اعظم کی تشویش بجا ہے۔ اگر وہاں کسی بھی قسم کی خانہ جنگی ہوتی ہے تو اس کا افغانستان کے بعد سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہو گا۔ ان کے مطابق دوحہ طرز پر ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھا کر افغانستان کے اندر قیام امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘

تاہم عابدہ حسین کے مطابق افغانستان کو ہمیشہ پاکستان سے گلے شکوے ہی رہتے ہیں لہٰذا بہتر ہو گا کہ پاکستان اب افغانستان کے اندرونی معاملات میں کم سے کم دلچسپی لے۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا پاکستان، امریکہ کے ساتھ کوئی سٹریٹجک تعلق برقرار رکھے گا؟

اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم، میں نے اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک مطابقت رکھنی چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ‘امریکی انخلا کے بعد میں نہیں جانتا کہ یہ کس طرح کے فوجی تعلقات ہوں گے لیکن ابھی تعلقات کو اس مشترکہ مقصد پر مبنی ہونا چاہیے کہ امریکہ کے جانے سے پہلے ہی افغانستان میں ایک سیاسی حل موجود ہو۔‘

عابدہ حسین کے مطابق امریکہ اپنے مقاصد کے لیے یہ تو ضرور چاہے گا کہ پاکستان چین سے دوری اختیار کر لے اور سی پیک جیسے منصوبوں سے بھی باہر نکل آئے مگر اس کے بدلے میں امریکہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔

طالبان

،تصویر کا ذریعہEPA

پاکستان طالبان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا: عمران خان

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے سوا ہر کام کریں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کہا کہ نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے کے تمام طبقات نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین کوئی سرحد نہیں تھی لیکن اب پاکستان نے سرحد کا تقریباً 90 فیصد باڑ کا کام مکمل کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سابق لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے بی بی سی بتایا کہ پاکستان نے اپنی سرحد کو مضبوط بنانے کے لیے کچھ اچھے اقدامات اٹھائے بھی ہیں اور اب انھیں مزید بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں اور بالخصوص بکوچستان اور خیبر پختونخوا میں انٹیلیجنس کو مزید بہتر کرنا ہوگا تاکہ کوئی تنظیم یا شدت پسند ایسی صورتحال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کے مطابق افغان طالبان افغانی ہیں اور وہ افغان میں ہی موجود ہیں۔ ان کے خلاف جنگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر دیں گے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ پاکستان شفٹ کر دی جائے جو کہ سمجھداری نہیں ہو گی۔ ان کے مطابق بہتر یہی ہو گا کہ امریکہ اور پاکستان مل کر افغانستان میں کوئی بھی سیٹلمنٹ اور سیاسی معاہدہ کرا دیں یا وہاں کوئی عارضی سیٹ اپ قائم کر دیا جائے تاکہ خون خرابے سے بچا جا سکے۔

انھوں نے یہ تجویز دی کہ اس حوالے سے افغان حکومت کو بھی آگے بڑھنا ہو گا اور انھیں اس طرف توانائیاں خرچ کرنی چائییں اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چائیے۔ طالبان کو بھی تشدد کی راہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور تشدد میں کمی کرنی چائیے کیونکہ پرتشدد کارروائیوں کے ہوتے ہوئے معاملہ سدھرے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.