اسرائیل کا ’ڈراؤنا خواب‘ اور لبنان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے حماس کے رہنما صالح العاروری کون تھے؟
اسرائیل کا ’ڈراؤنا خواب‘ اور لبنان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے حماس کے رہنما صالح العاروری کون تھے؟
،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
بیروت میں حماس کے اہم رہنما کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ حملہ حماس پر کیا گیا نہ کہ لبنان پر تاہم اس کے بعد حماس اور اس کے اتحادی حزب اللہ کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔
اس کارروائی سے متعلق اسرائیلی ترجمان کا کہنا تھا کہ صالح العاروری حماس کی قیادت کے خلاف سرجیکل سٹرائیک میں ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی ترجمان مارک ریگیو نے اس بات کی تصدیق کرنے سے تو گریز کیا کہ آیا اسرائیل نے یہ قتل کیا ہے لیکن انھوں نے امریکی ٹی وی چینل ایم ایس این بی سی کو بتایا کہ ’جس نے بھی ایسا کیا، یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ لبنانی ریاست پر حملہ نہیں تھا۔‘
حماس نے اس ہلاکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جبکہ ان کی اتحادی حزب اللہ نے اسے لبنان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
دریں اثنا لبنان کے وزیر اعظم نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ لبنان کو اس ’محاذ آرائی میں گھسیٹنے‘ کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنانی ذرائع ابلاغ کے مطابق حماس کے نائب سیاسی رہنما صالح العاروری جنوبی بیروت میں ایک ڈرون حملے میں چھ دیگر افراد کے ساتھ ہلاک ہوئے، جن میں حماس کے دو فوجی کمانڈر اور چار دیگر ارکان شامل ہیں۔
صالح العاروری سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ حماس کے مسلح ونگ قاسم بریگیڈ میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے قریبی اتحادی اور ساتھی تھے۔ وہ لبنان میں اپنے گروپ اور حزب اللہ کے درمیان رابطے کے طور پر کام کر رہے تھے۔
صالح العاروری 19 اگست 1966 کو رام اللہ کے شمال مغرب میں ارورا گاؤں میں پیدا ہوئے اور انھوں نے حبرون یونیورسٹی سے شریعت کی تعلیم حاصل کی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
صالح العاروری نے کم عمری میں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی اور پھر 1987 میں حماس کے کارکنوں میں شمولیت اختیار کی اور 1991 سے 1992 کے درمیان مغربی کنارے میں القاسم برگیڈ کے قیام میں حصہ لیا۔
اسرائیل کی جیلوں میں 20 سال گزارنے والے عصمت منصور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 1994 سے لے کر اب تک کئی سال تک صالح العاروری کے ساتھ رہے ہیں۔
منصور کا کہنا ہے کہ العاروری نے طویل عرصہ اسرائیل کی حراست میں گُزارا تاہم کسی مقدمے میں ’ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔‘
اطلاعات کے مطابق 2007 میں گرفتاری کی ایک دہائی بعد صالح العاروری کو رہا کر دیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے انھیں 2010 میں انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
اس تناظر میں منصور کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر سے العروری نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت 1027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں غزہ میں حماس کے موجودہ رہنما یحییٰ سنوار بھی شامل ہیں۔
منصور نے کہا کہ ’العاروری اور سنوار نے نیگیو جیل میں حماس کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انھوں نے حتمی معاہدے کی تفصیلات طے کیں۔ بیرون ملک تحریک کے رہنماؤں کے لیے اس میں رکاوٹیں تھیں۔ اس کے بعد معاہدہ مکمل ہونے سے کئی ماہ قبل ہی انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ شاید انھیں تبادلے کے معاہدے کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے جگہ دی جائے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس کے بعد، اسرائیلی سپریم کورٹ نے صالح العاروری کو فلسطینی علاقوں سے ہٹانے کا فیصلہ سنایا، جہاں سے وہ شام چلے گئے اور پھر وہاں سے ترکی اور قطر کے بعد لبنان کے جنوبی مضافات پہنچ گئے جو بیروت میں حزب اللہ کا سب سے اہم گڑھ ہے۔
صالح العاروری سنہ 2010 میں حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور پھر 2017 میں نائب صدر کے طور پر منتخب ہوئے تھے، جسے اس وقت حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ کی توثیق کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا تھا جو مغربی کنارے میں فوجی کارروائی کی قیادت کرے گی اور تحریک کے دوسرے سب سے بڑے عہدے پر ایران کے قریب ہے۔
اس وقت فلسطینی نیوز رپورٹس کے مطابق، اپنے انتخاب کے چند دن بعد، صالح العاروری نے تہران کا دورہ کیا اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ سے عوامی طور پر ملاقات کی۔
صالح العاروری کو 2021 میں مغربی کنارے میں حماس کا سربراہ بھی منتخب کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں حماس کی قیادت میں اسرائیل پر ہونے والے حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہونے کے بعد العاروری کو نصراللہ اور فلسطینی اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخلہ سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
حزب اللہ کے المنار ٹی وی کے مطابق تینوں رہنماؤں نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔
العاروری طویل عرصے تک اسرائیل کو سب سے مطلوب شخص رہے، انھیں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے خلاف حملوں کے ’معمار‘، غزہ اور لبنان سے راکٹ فائر کرنے کا اہم کردار قرار دیا جاتا ہے، اور اسرائیلی میڈیا نے انھیں اسرائیل کا ڈراؤنا خواب اور ایران اور حزب اللہ کے تعلقات کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز نے گزشتہ اکتوبر کے اواخر میں العاروری کے گھر کو مسمار کر دیا تھا اور ان کے بھائی اور بھتیجوں سمیت 20 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
Comments are closed.