سعودی عرب اور ایران تعلقات: مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک کے درمیان ’مثالی مذاکرات‘ کے آغاز کی وجوہات کیا ہیں؟
- اینگل برمیوڈز
- بی بی سی نیوز منڈو
جس وقت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پُرتشدد واقعات کا آغاز ہو رہا تھا اُسی دوران مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑی پیشرفت کی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں، مشرق وسطیٰ کے ان دو ممالک کے درمیان جو ایک دوسرے کے بڑے دشمن سمجھے جاتے ہیں یعنی سعودی عرب اور ایران۔
10 مئی کو ایران کی حکومت نے عوامی سطح پر پہلی بار تسلیم کیا تھا کہ اس نے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کا آغاز کیا ہے۔
گذشتہ 40 برسوں کے دوران دونوں ممالک نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض لوگ اسے سنی اور شیعہ اسلام کے تاریخی تنازع سے بھی جوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کافی عرصے تک تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ بعض ماہرین اسے ’مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
یمن، لبنان اور شام میں دونوں ملک حریف گروہوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن اب ایران اور سعودی عرب نے بیٹھ کر بات چیت کے آغاز سے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
یوریشیا گروپ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ ایہام کامل کا کہنا ہے کہ یہ پیشرفت ’بے نظیر ہے۔‘
یہ مذاکرات جنوری سے جاری ہیں لیکن ماضی میں بھی اس حوالے سے کوششیں کی گئی ہیں۔
ان مذاکرات کی پہلی نشانی اخبار فنانشل ٹائمز میں ملی جب اپریل کے وسط میں ایک خبر میں یہ سامنے آیا کہ دونوں ملکوں کے اہلکار بغداد میں ملے ہیں اور اس ملاقات میں تعلقات میں بحالی پر بات چیت ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حالانکہ شروع میں سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کی تھی مگر کچھ ہفتوں بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ’ایران سے اچھے تعلقات‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے الفاظ نے کئی حلقوں کو حیران کیا کیونکہ انھوں نے تین سال قبل کہا تھا کہ ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کو ’دیکھ کر ہٹلر بھی اچھا آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘
لیکن ایسا یوٹرن کیسے ممکن ہوا؟ ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بناہ پر برسوں کے دشمن براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہو گئے؟
امریکی پالیسی میں تبدیلی
سعودی عرب کی ایران کی جانب پالیسی میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی جانب نئی پالیسی ہے۔ خصوصاً صدر بائیڈن کی حکومت کی جانب سے دنیا کے اس خطے میں اپنی فوج کو کم کرنے کی خواہش شامل ہے۔
یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے کیسے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں تبدیلیاں کی ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک کے ایگزیکٹیو نائب صدر تریٹا پارسی نے فارن پالیسی جریدے کے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ’ایک چیز باقی تمام پر بھاری ہے اور وہ یہ کہ امریکہ مشرق وسطیٰ پر اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ گذشتہ برس کے امریکی صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران موجودہ امریکی صدر نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا اعادہ کیا تھا، سعودی عرب کی یمن جنگ میں حمایت کے خاتمے اور ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کا بھی کہا تھا اور وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد سے بائیڈن نے اس ایجنڈے کی تکمیل کی ہے۔
پارسی نے مضمون میں لکھا ہے کہ ’اس خطے کے اہم فریقین کو سفارتی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے والا سب سے اہم عنصر نہ صرف امریکہ کا سعودی عرب کی تہران کے خلاف حمایت یا خطے میں کوئی نئے سفارتی اقدامات ہیں بلکہ یہ ہی وہ وجہ ہے جس نے مذاکرات کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ واضح اشارے ہیں کہ امریکہ اب اس خطے سے نکل رہا ہے۔‘
یورو ایشیا گروپ کے احیام کمال سعودی عرب میں تبدیلی ایران پر صدر بائیڈن کی نئی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔
احیام کمال نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں بائیڈن انتظامیہ کی ایران کی جانب کم جارحانہ پالیسی نے سعودی عرب کو مجبور کیا ہے کہ وہ علاقائی صورتحال کے لیے متبادل حکمت عملی پر غور کرے جس میں ایران کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نیا طریقہ کار بھی شامل ہے۔ بلاشبہ اس نے سعودی عرب کو نئے حکمت عملی پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ دیکھ کر کہ امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر واپس جانے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے، سعودی عرب اس سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ایران کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کا اپنا طریقہ کار تلاش کرنا چاہتے ہیں جیسا امریکہ نے اپنے لیے کیا ہے۔‘
اسرائیل سے اتحاد کا خطرہ
اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات ایران کے جوہری معاہدے کو حاصل کرنے کے اس ہدف کی حمایت کر سکتے ہیں جو اس کے خلاف اقتصادی اور تیل کی پابندیوں کو ختم کرنے کا باعث بنے گا۔
کمال کہتے ہیں کہ تہران کا اس کے پیچھے ایک اور اہم مقصد ہے اور وہ یہ کہ ایران کے خلاف بنتے کسی اتحاد سے بچا جا سکے۔
کمال کہتے ہیں کہ ’ایران جانتا ہے کہ سعودی عرب کی طاقت کے مقابلے میں اس کی قوت محدود ہے اور وہ خطے میں ایران مخالف اتحاد بنتا نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ وہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لاتے بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس لیے یہ کوشش (مذاکرات) سعودی عرب کو اسرائیل سے تعلقات استوار نہ کرنے کے مقصد کی ایک کوشش بھی ہیں۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع نے بظاہر ایرانی مقاصد کی حمایت کی ہے کیونکہ اس سے خطے میں اسرائیل کے خلاف سیاسی ماحول میں درجہ حرارت بڑھا ہے اور سعودی عرب نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے حق کی خلاف ورزیوں کی سختی سے مذمت کی ہے اور اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک میں تعلقات کا کوئی امکان نہیں۔
ایک مہنگی دشمنی
ایک اور وجہ جو ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ اس مستقل دشمنی کی مہنگی قیمت ہے تاہم ماہرین اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ علم ہے کہ ایران یمن، عراق، لبنان اور شام میں اپنے اتحادیوں کی مدد پر بہت خرچ کرتا ہے مگر واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسز کے سربراہ تجزیہ کار ڈیوڈ ایڈیسنک نے سنہ 2018 میں ایک تخمینہ جاری کیا تھا جس کے مطابق ایران سالانہ 15 ہزار ملین ڈالر سے 20 ہزار ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔
اگرچہ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی رقم ہے لیکن ایک ایسے ملک کے لیے اور بھی زیادہ ہے جو گذشتہ کئی عرصے سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار ہو۔
ایران کے ساتھ تناؤ سعودی عرب کے عسکری بجٹ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے اور عسکری بجٹ کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے سپری کے مطابق سنہ 2020 میں یہ بجٹ 57000 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ جو کہ دنیا کے اس سیکٹر میں خرچ کا 2.9 فیصد بنتا ہے۔
سعودی عرب کے عسکری شعبے میں اتنی بڑی سرمایہ کاری وہ تمام وسائل کھا جاتی ہے جو شہزادہ سلمان کے جدید سعودی عرب کے معاشی منصوبے میں کہیں استعمال کی جا سکتی ہے تاکہ ملکی معیشت کا تیل کی کھپت پر سے انحصار کم کیا جا سکے۔
در حقیقت یہ ایک نقطہ ہے جہاں ریاض اور تہران کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک جو ایک ایسی دنیا کے تناظر میں ہائیڈرو کاربن کے اخراج کا سبب ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کی وجہ سے زمین سے نکالے گئے ایندھن کی کھپت کی کمی کی طرف گامزن ہے۔
لہذا دونوں ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات کم کرنے اور اس پیسے کو دیگر منصوبوں میں لگانےکا موقع ملے گا۔
مذاکرات کا دائرہ کار
اگرچہ گذشتہ چار دہائیوں سے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات شدید خراب ہوئے ہیں، جب انھوں نے (شام جیسے مختلف تنازعات میں مخالف قوتوں کی حمایت میں) محاذ آرائی تیسرے فریق کے ذریعہ برقرار رکھی ہے۔ اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو براہ راست متاثر کیا ہے۔
سنہ 2016 کے اوائل میں، سعودی عرب کی جانب سے ملک میں شیعہ اقلیت پر سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے عالم دین شیخ نمر النمر کو ’دہشت گردی‘ اور ’بغاوت‘ کے الزام میں مجرم قرار دے کر پھانسی دینے کے بعد تہران میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے سعودی سفارتخانے کو آگ لگا دی گئی تھی۔
یہ واقعہ دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات خراب ہونے کا سبب بنا تھا۔
اس کے علاوہ دیگر سنگین واقعات میں ایران کے اتحادی یمنی حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے تھے۔
ستمبر 2019 میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی ایک بڑی تنصیبات پر ڈرون حملے کے باعث ملک کو اپنی تیل کی پیداوار کا 50 فیصد کم کرنا پڑا تھا۔
ریاض نے اس حملے کا ذمہ دار تہران کو قرار دیا تھا تاہم ایران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
سعودی وزارت خارجہ میں منصوبہ بندی کے سربراہ ریاض کرملی نے سات مئی کو تسلیم کیا تھا کہ اس پس منظر میں ان مذاکرات کا مقصد ’خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے نئے مواقع تلاش کرنا ہے۔‘
پریس کو لیک کی جانے والی اب تک کی معلومات کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بنیادی طور پر یمن کی جنگ پر مرکوز رہی ہے حالانکہ انھوں نے ایران جوہری معاہدے یا شام اور لبنان کی صورتحال جیسے دیگر امور پر بھی توجہ دی ہو گی۔
واضح رہے کہ ماہرین کو دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹیجک، مذہبی اور معاشی دشمنی ختم ہونے کی توقع نہیں۔
احیام کمال کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں چاہتا کہ آپ اس پر یقین کر لیں کہ جلد ہی کچھ حتمی نتیجہ نکلنے والا ہے۔ یہ کوئی بہت اچھا معاہدہ نہیں ہو گا۔ یہ زیادہ تر کشیدگی کو کم کرنے کے متعلق ہو گا یعنی ایک ایسی صورتحال جس میں دونوں فریق ایک دوسرے سے اتفاق بھی کریں گے اور کچھ چیزوں پر متفق نہیں بھی ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق اگر حالات سازگار رہے تو ان مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے مثال کے طور پر یمن میں حوثی باغی سفارتی حل کی جانب بڑھ سکتے ہیں یا لبنان میں جہاں ملک میں جاری سیاسی بحران کے حل کے لیے ملک کے مختلف دھڑوں میں سیاسی معاہدہ کروایا جا سکتا ہے۔
کمال کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسی صورتحال ہو گی جہاں ایران اور سعودی عرب خطے کے ہر مسئلے پر مسلسل لڑ نہیں رہے ہوں گے۔ ایک ایسی صورتحال جو ان کی دشمنی کو ختم نہیں کر سکے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے اختلافات ہیں اور بڑھے گیں لیکن عدم استحکام کا فریم ورک اس کو زیادہ منظم بنائے گا اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں کم عدم تحفظ پیدا کرے گا۔‘
Comments are closed.