شیریں ابو عاقلہ: فلسطینی صحافی کے جنازے پر اسرائیلی پولیس کا دھاوا، سوگواروں پر تشدد
- رفی برگ
- بی بی سی نیوز
جمعے کو جب اُن کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو پولیس کے تشدد سے ہونے والی ہلچل کے دوران اُن کا تابوت تقریباً گر ہی گیا تھا
مشرقی یروشلم میں اسرائیلی پولیس نے الجزیرہ کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کے جنازے کے شرکا پر دھاوا بولا اور لاٹھی چارج کیا جس سے بھگدڑ مچ گئی اور کئی افراد زخمی ہوئے۔
قطر میں واقع نیوز چینل کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ مقبوضہ غربِ اردن میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی کوریج کر رہی تھیں جب اُنھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
الجزیرہ نے کہا ہے کہ 51 سالہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے ’جان بوجھ کر‘ گولی ماری ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نے اس کا الزام ’فلسطینی بندوق برداروں‘ پر عائد کیا ہے۔
جمعے کو جب اُن کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو پولیس کے تشدد سے ہونے والی ہلچل کے دوران اُن کا تابوت تقریباً گر ہی گیا تھا۔
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں پولیس اہلکار مجعمے کو دھکیل رہے ہیں اور لوگوں پر تشدد کر رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اُن پر پتھراؤ کیا گیا تھا اور اُنھیں ’ہجوم کو منتشر کرنے کے طریقے‘ استعمال کرنے پڑے۔
اسرائیلی پولیس جنازے میں شریک ایک فلسطینی کو گرفتار کر رہی ہے
موقع پر موجود بی بی سی کے نامہ نگار نے کیا دیکھا؟
ٹام بیٹمین، نامہ نگار مشرقِ وسطیٰ
ہم سینٹ جوزف ہسپتال کی پارکنگ میں تھے جہاں سینکڑوں فلسطینی افراد پہلے ہی جمع تھے اور شیریں ابو عاقلہ کا تابوت لے جانے کے لیے گاڑی تیار کھڑی تھی۔
شیریں فلسطینی مسیحی تھیں اس لیے اُن کے لیے ایک پھولدار صلیب بنائی گئی تھی اور تحریری تعزیتوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ پھولوں کے ساتھ ہی ایک پریس جیکٹ بھی رکھی تھی۔ کچھ لوگ نعرے بازی کر رہے تھے اور فلسطینی پرچم لہرائے جا رہے تھے۔
اچانک سے ہی کمپاؤنڈ کے دروازے بند کر دیے گئے اور بھاری اسلحے سے لیس اسرائیلی بارڈر پولیس دروازے پر جمع ہو گئی۔ کچھ پولیس اہلکار گھوڑوں پر سوار تھے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ صورتحال فوراً ہی بگڑتی ہوئی دکھائی دینے لگی تھی۔
پھر چند افراد اُن کا تابوت تھامے عمارت سے باہر آئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ تابوت کو گاڑی میں ڈال کر چرچ تک لے جایا جائے گا مگر اب تابوت کو دروازوں کی جانب لے جایا جانے لگا۔
اس کے بعد جو ہوا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ میں چونکہ ہجوم کے پیچھے تھا اس لیے میں یہ نہیں دیکھ سکا کہ سب سے آگے کیا ہو رہا ہے مگر اچانک اسرائیلی پولیس نے مجمعے کو تابوت اور اس کے اٹھانے والے افراد سمیت پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔
پھر اُنھوں نے سوگواروں اور پریس کی جانب سٹن گرینیڈ فائر کیے اور کمپاؤنڈ میں گھسنے لگے۔
میں نے دیکھا کہ کچھ پلاسٹک کی بوتلیں واپس پھینکی جا رہی ہیں مگر اس سے زیادہ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔
لوگ ہسپتال میں پناہ لینے کے لیے بھاگنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے بچے کو لیے ہوئے ایک عورت پریشان حالت میں ہے اور وہ بھگدڑ میں تقریباً کچلی ہی گئی تھیں۔
پھر ہسپتال کی راہداریوں اور وارڈز میں سٹن گرینیڈز کے دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ کم از کم ایک شخص زخمی ہوا تھا۔
یہ پورا معاملہ کوئی 10 منٹ تک جاری رہا اور ہم کار پارکنگ تک واپسی کا محفوظ راستہ ڈھونڈتے رہے۔ جب ہم باہر آئے تو تابوت کو گاڑی میں ڈال کر لے جایا جا رہا تھا۔
اب ان لمحات کی ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ جب لوگ ہسپتال کے اندر پناہ لینے کے لیے بھاگ رہے تھے تو اسرائیلی پولیس اُن لوگوں پر تشدد کر رہی تھی جو شیریں ابو عاقلہ کا تابوت اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک موقع پر تو یہ تابوت تقریباً گر ہی گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے کہا کہ وہ اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے مابین اس ’ٹکراؤ‘ سے ’بے حد پریشان‘ ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بھی سوگواروں پر پولیس کے تشدد کے مناظر کو ’پریشان کُن‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’جسے ایک پرامن جلوس ہونا چاہیے تھا اس میں دخل اندازی پر ہمیں افسوس ہے۔‘
فلسطینی اتھارٹی اور الجزیرہ کا دعویٰ ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے گولی ماری تاہم اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ کیا ہوا تھا اور یہ کہ وہ ممکنہ طور پر فلسیطینیوں کی فائر کی گئی گولی کا نشانہ بنی ہوں۔
جمعرات کو اسرائیلی فوج کی ایک اندرونی رپورٹ میں کہا کیا گیا کہ اُن کی ہلاکت ممکنہ طور پر ’فلسطینی مسلح افراد کی فائرنگ‘ سے ہوئی یا کسی سپاہی کی ’اپنی گاڑی پر فائرنگ کرنے والے کسی دہشتگرد‘ پر جوابی طور پر فائر کی گئی ’کچھ گولیوں‘ سے ہوئی ہو۔
یہ بھی پڑھیے
شیریں ابو عاقلہ کون تھیں؟
اکیاون سالہ فلسطینی امریکی شیریں ابو عاقلہ الجزیرہ کے عربی نیوز چینل کی ایک سینیئر صحافی تھیں اور تقریباً دو دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر رپورٹنگ کر رہی تھیں۔
بدھ کو شیریں ابو عاقلہ جنین میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی چھاپوں کی رپورٹنگ کر رہی تھیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ چھاپے ’مشتبہ دہشتگردوں‘ کی تلاش کے لیے مارے جا رہے تھے۔
شیریں ابو عاقلہ کے ساتھ ایک اور فلسطینی صحافی و الجزیرہ کے پروڈیوسر علی صمودی بھی اس فائرنگ کا نشانہ بنے اور زخمی حالت میں ہیں۔
اُن کی آخری رسومات جمعرات کو فلسطینی صدر محمود عباس کے کمپاؤنڈ میں ادا کی گئیں جہاں اُن کے تابوت کو فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر لایا گیا تھا۔
صدر عباس نے اُنھیں ’شہیدِ آزاد الفاظ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے فلسطینی مقصد کے دفاع میں ’اپنی جان کی قربانی دی۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اسرائیل ’اُن کی موت کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ہے‘ اور یہ وہ کہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالتِ جرائم میں لے کر جائیں گے جو ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرتی ہے۔
Comments are closed.