اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والی الجزیرہ کی خاتون صحافی سنہ 2008 سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کر رہی تھیں
شیریں علاقے میں اسرائیلی کارروائی کور کرنے بدھ کے روز وہاں پہنچی تھیں
قطر میں واقع نیوزچینل الجزیرہ کی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو غربِ اردن میں اسرائیلی کارروائی کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
الجزیرہ نے کہا کہ 51 سالہ شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے’جان بوجھ کر’ گولی ماری ہے۔ الجزیرہ کے پروڈیوسر کو بھی گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔
الجزیرہ کی مشہور صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے شہر جنین میں اسرائیلی کارروائی کو کور کرنے کےلیے بدھ کو وہاں پہنچی تھیں۔ الجزیرہ کے مطابق گولی لگنے کے کچھ دیر بعد ہی شیریں کی موت ہو گئی۔ اس کے علاوہ ایک فلسطینی صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔
الجزیرہ نے اسرائیلی فوج پر شیریں کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔ نیوز چینل نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی رپورٹر شیریں کو ‘جان بوجھ کر مارنے‘ کے لیے اسرائیلی فوج کی مذمت کریں۔
شیریں ابو عاقلہ کون تھیں اور الجزیرہ سے اسرائیل کی شکایات
51 سالہ ابو عاقلہ بیت المقدس میں پیدا ہوئیں اور 1997 میں الجزیرہ کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے اردن کی یارموک یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ تمام فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ انھوں نے سنہ 2008، 2009، 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کی تھی۔
اسرائیل نے حالیہ ہفتوں میں غربِ اردن میں مسلسل چھاپے مارے ہیں۔ یہ چھاپے اسرائیل کے اندر ہونے والے کئی حملوں کے جواب میں کیے جا رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر حملے فلسطین کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔ جینن میں پناہ گزین کیمپ ہیں اور اسے طویل عرصے سے انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ابو عاقلہ کی موت پر اسرائیلی بیان
اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘مکان ہے’فائرنگ کے تبادلے کے دوران انہیں فلسطینی بندوق برداروں نے ہی گولی مار دی ہو۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے غرب اردن کے مشرقی حصے میں ہوئی فوجی کارروائی میں الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو عاقلہ کی ہلاکت کے بارے میں اپنا دفاع کیا ہے۔
وزیر اعظم بینٹ نے معاملے کی تفتیش کے لیے اسرائیل اور فلسطین دونوں کی متحدہ تفتیشی ٹیمیں تشکیل دینے کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جینین شہر میں اسرائیلی فوجی کارروائی فلسطینی شدت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری کے جواب میں کی گئی تھی۔
اپنی وضاحت کے لیے وزیر اعظم بینیٹ نے ایک کے بعد ایک ٹوئٹ کیے ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے ’فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اسرائیل پر الزام لگاتے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق اس بات کا پورے امکان ہیں کہ مسلحہ فلسطینی شدت پسندوں کی جانب سے اندہ دھن گولہ باری کی وجہ سے الجزیرہ کی صحافی کی موت ہوئی ہے‘۔
دیگر ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا ہے،’صحافی کی ہلاکت کے معاملے کی سچائی تک پہنچنے کے لیے اسرائیل نے فلسطین سے ایک متحدہ پیتھولوجیکل انالیسیز اور مشترکہ تفتیش کی پیش کش کی ہے لیکن ابھی تک فلسطین ایسا کرنے سے انکار کررہا ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں جنگ کے بعد غربِ اردن کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور فلسطین مستقبل میں اسے اپنے آزاد ملک کا اہم حصہ بنانا چاہتا ہے۔
اس علاقے میں تقریباً تیس لاکھ فلسطینی اسرائیلی فوج کی نگرانی میں رہتے ہیں اسرائیل نے غربِ اردن میں 130 سے زیادہ بستیاں آباد کی ہیں جہاں تقریباً پانچ لاکھ سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔
اسرائیل کافی عرصے سے الجزیرہ کی کوریج کی تنقید کرتا رہا ہے۔
لیکن اسرائیل عام طور پر چینل کے صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے سے نہیں روکتا۔
گزشتہ سال یروشلم میں ایک مظاہرے کے دوران الجزیرہ کے ایک اور رپورٹر کو حراست میں لیا گیا تھا۔ چینل کا کہنا تھا کہ حراست میں رپورٹر کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔
اسرائیلی فوج اور میڈیا بالخصوص فلسطینی صحافیوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں غزہ میں پرتشدد مظاہروں کی کوریج کے لیے جانے والے ایک صحافی کو بھی مبینہ طور پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ برس مئی میں اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس عمارت میں کئی غیر ملکی نیوز چینلز کے دفاتر موجود تھے۔
Comments are closed.