اسرائیل فلسطین تنازع کتنا پرانا ہے اور اس وقت بیت المقدس میں کیا ہو رہا ہے؟
بیت المقدس میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں بچوں سمیت 22 فلسطینی ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں 20 سے زیادہ اسرائیلی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تشدد کے تازہ ترین واقعات گذشتہ کئی ماہ سے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں پر دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کب اور کیسے شروع ہوا۔
ایک سو سال پرانا تنازع
پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر ایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔
دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ’قومی گھر‘ کی تشکیل کریں۔
یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیے
1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے واے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔
مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان، اور برطانوی حکومت کے خلاف پُرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔
سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔
اس تجویز کو یہودی رہنمائوں نے تسلیم کر لیا جبکہ عربوں نے بکثرت مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
اسرائیل کا قیام اور تباہی
سنہ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔ ادھر یہودی رہنمائوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔
بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ کی۔
لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ (یعنی تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔
کیونکہ یہاں پر امن معاہدہ نہیں ہوا اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام دھرا اور مزید جنگیں بھی ہوئیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
آج کا نقشہ
1967 میں ایک اور جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔
زیادہ تر فلسطینی، جو اب پناہ گزین بن چکے تھے، یا ان کی آنے والی نسلیں اب غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہتے ہیں۔ اس کے بہت سے فلسطینی رشتہ دار اردن، شام، اور لبنان میں مقیم ہیں۔
نہ پناہ گزینوں کو اور نہ ہی ان کی نسلوں کو اسرائیل نے اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے لیے بہت بھاری ثابت ہو گا اور ان کی ریاست کو بطور ایک یہودی ریاست خطرہ ہو گا۔
اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں، مگر اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔
اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اسرائیلی دعوے کو تسلیم کرتا ہے۔
گذشتہ 50 سالوں میں اسرائیل نے یہاں آبادیاں بنا لی ہیں جہاں چھ لاکھ یہودی رہتے ہیں۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں جبکہ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔
اس وقت کیا ہو رہا ہے؟
مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔
غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اور کارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ اسرائیل کہتا ہے کہ وہ تو صرف خود کو فلسطینی تشدد سے بچا رہے ہیں۔
رواں برس ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی یہاں صورتحال کافی کشیدہ ہے۔
متعدد فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بیدخل کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مرکزی مسائل کیا ہیں؟
ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی اتفاق نہیں کر سکتے۔
ان میں یہ سوالات ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہو گا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکتے ہیں، اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے۔
گذشتہ 25 سالوں میں امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں مگر معاملات حل نہیں ہو سکے۔
Comments are closed.