اردن کے ولی عہد شہزادہ حسین کی سعودی خاتون سے شادی جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر رکھی ہے
اُردن کے ولی عہد شہزادہ حسین بن عبداللہ ثانی اور سعودی آرکیٹکٹ رجوہ آل سيف کی منگنی گذشتہ سال اگست میں ہوئی تھی
اُردن کے ولی عہد کی ایک سعودی خاتون سے شادی کی تیاریاں، اس سلسلے میں ہونے والی تقاریب اور دونوں کی زندگی کے بارے میں مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خاصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ اُردن کے ولی عہد شہزادہ حسین بن عبداللہ ثانی اور سعودی آرکیٹکٹ رجوہ آل سيف کے درمیان شادی کی تاریخ تو یکم جون ہے مگر اس سے قبل روایتی تقاریب کی جھلکیاں سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کر رہی ہیں۔
اس جوڑے کی منگنی کا باقاعدہ سرکاری اعلان گذشتہ سال دس اگست کو کیا گیا تھا اور اب رواں سال مئی اور جون میں ان کی شادی سے متعلق شاہی تقاریب کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔
شاہی جوڑے کی شادی کے دن اُردن میں سرکاری چھٹی ہوگی، تقریب میں پوری دنیا سے بڑے نام شرکت کریں گے اور تو اور دارالحکومت میں عرب گلوکاروں کا ایک مفت کنسرٹ بھی ہوگا۔
اردن کی ملکہ رانیہ (انتہائی دائیں جانب) نے شادی سے قبل روایتی مہندی پارٹی کی میزبانی کی
اُردن کے ولی عہد شہزادہ حسین نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ رجوہ آل سيف سے اُن کی شناسائی کی کہانی محبت کی دیگر کہانیوں سے مختلف نہیں تھی اور یہ کہ ان کی شناسائی کے پیچھے ایک مشترکہ دوست کا ہاتھ تھا۔
گذشتہ دنوں اردن کی ملکہ رانیہ نے شادی سے قبل روایتی مہندی پارٹی کی میزبانی کی۔ مہندی کی اس تقریب میں روایتی اُردنی اور سعودی گانے و نغمے گائے گئے اور خوشی کے اظہار کے لیے روایتی رقص کیا گیا۔
اس موقع پر ملکہ رانیہ کا کہنا تھا کہ ’حسین میرے بڑے بیٹے ہیں، وہ ایک ہاشمی نوجوان ہیں۔ کسی بھی دوسری ماں کی طرح میں نے اسے دولہا کے روپ میں دیکھنے کا خواب دیکھا تھا۔ حسین آپ کا بیٹا ہے، آپ اُس کا خاندان ہیں، اور یہ تقریب آپ کی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آخرکار مجھے ایک بہو ملی ہے، لیکن یہ کوئی عام بہو نہیں۔ خدا رجوہ کو سلامت رکھے۔ میرے لیے وہ میری بیٹیوں (ایمان اور سلمیٰ) کی طرح قیمتی ہے۔‘
ولی عہد حسین بن عبداللہ کون ہیں؟
شہزادہ حسین 28 جون 1994 کو اُردن کے دارالحکومت عمان میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ عبداللہ دوم اور ملکہ رانیہ کے بڑے بیٹے ہیں۔ اُن کے ایک بھائی شہزادہ ہاشم اور دو بہنیں، ایمان اور سلمیٰ، ہیں۔
شہزادہ حسین نے سنہ 2012 میں اُردن میں کنگز اکیڈمی سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی جس کے بعد انھوں نے 2016 میں امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے بین الاقوامی تاریخ میں اپنی ڈگری حاصل کی۔
سنہ 2017 میں، انھوں نے رائل ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کیا، وہی اکیڈمی جہاں سے اُن کے والد شاہ عبداللہ دوم اور ان کے دادا شاہ حسین بن طلال نے گریجویشن کیا تھا۔ اور اب وہ اُردن کی مسلح افواج میں کپتان کے عہدے پر فائز ہیں۔
شہزادہ حسین کو 2 جولائی 2009 کو ولی عہد نامزد کیا گیا تھا۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران شہزادہ حسین اپنے والد کے ہمراہ اُردن کے اندر اور بیرون ممالک دوروں پر آتے جاتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ چھوٹی عمر سے ہی اپنے والد کے ساتھ کئی سرکاری اور فوجی سرگرمیوں میں نظر آتے تھے۔
اُردن کے آئین کے مطابق، ولی عہد کا مینڈیٹ سیاسی کردار سے منسلک نہیں ہے۔ سنہ 2009 میں ولی عہد نامزد ہونے کے بعد جون 2010 میں شہزادہ حسین پہلی بار سرکاری طور پر اس وقت پر منظر عام پر آئے جب انھوں نے اُردن میں عظیم عرب بغاوت اور مسلح افواج کی سالگرہ کے دن منعقدہ تقریبات میں اپنے والد کی نمائندگی کی۔
اس کے بعد شہزادہ حسین تواتر کے ساتھ اُردن کے سرکاری اور کاروباری دوروں میں بادشاہ کی نمائندگی کرتے نظر آئے۔
22 ستمبر 2017 کو شہزادہ حسین نے لگ بھگ 20 سال کی عمر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی جس کے بعد سلامتی کونسل کے کسی اجلاس کی صدارت کرنے والے اب تک کے سب سے کم عمر شخص بن گئے۔
سنہ 2015 میں شہزادہ حسین نے کراؤن پرنس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے انھوں نے بہت سے اقدامات شروع کیے۔ اس کا مقصد اُردن کے نوجوانوں کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت اور دیگر اہم شعبوں میں ترقی کے لیے مدد فراہم کرنا تھا۔
اس فاؤنڈیشن کا سب سے نمایاں اقدام وہ تھا جس کے تحت اُردن کے نوجوانوں کو امریکی خلائی ایجنسی ناسا میں تربیت کے نادر مواقع فراہم کرنا تھا۔ اسی تربیت اور مدد کے نتیجے میں اُردن نے سنہ 2018 میں اپنا پہلا سیٹلائٹ (JY1-SAT) خلا میں بھیجا۔
رجوہ آل سیف کون ہیں؟
معروف لائف سٹائل میگزین ووگ کے عربی ایڈیشن اور برطانوی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق 28 سالہ رجوہ آل سیف کے والد خالد آل سیف ایک معروف کاروباری شخصیت اور آل سیف گروپ کے سربراہ ہیں۔ یہ کمپنی صحت، تعمیرات اور سکیورٹی کے شعبوں میں بڑا نام ہے۔
رجوہ کی پیدائش 28 اپریل 1994 کو ریاض میں ہوئی اور وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ابتدائی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے امریکہ میں نیو یارک کی سیراکیوز یونیورسٹی کے کالج آف آرکیٹکچر سے گریجویشن کیا۔
رجوہ نے اپنی تعلیم کے دوران 2016 میں دبئی کا نو روزہ دورہ کیا اور اپنی یونیورسٹی کی ویب سائٹ کو بتایا کہ ’یہ دورہ میرے لیے یادگار تھا کیونکہ طلبہ نے پہلی بار عرب کلچر اور فن تعمیر کا مشاہدہ کیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’دبئی بہت دلکش شہر ہے جس میں جدید آرکیٹکچر ہے مگر عرب کلچر اور تاریخ کی روایتی خوبصورتی کو محفوظ رکھا گیا ہے۔‘
ان کی منگنی سے قبل شہزادہ حسین کی چھوٹی بہن شہزادی ایمان بنت عبداللہ کی منگنی جمیل الیگزینڈر تھرمیوتیس سے گذشتہ سال جولائی کے دوران ہوئی تھی۔
رجوہ کے پاس لاس اینجلس کے فیشن انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ مرچنڈائسنگ سے ویژیول کمیونیکیشن کی ڈگری بھی ہے۔
انھوں نے لاس اینجلس میں آرکیٹکچر کمپنی کے ساتھ کام کیا اور بعد میں ریاض کے ایک ڈائزائن سٹوڈیو کے ساتھ وابستہ رہیں۔
دونوں کی منگنی پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی نیک تمنائیوں کا اظہار کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہJordan Royal Family
چونکہ شہزادہ حسین اردن کے ولی عہد ہیں، اس لیے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شادی کے فوراً بعد رجوہ کو بھی شاہی ذمہ داریاں دی جائیں گی۔
ان کے ملبوسات اور فیشن سینس کا موازنہ بعض اوقات برطانیہ کی شہزادی پرنسس آف ویلز کیٹ مڈلٹن سے کیا جاتا ہے۔
ان کی ہونے والی ساس یعنی ملکہ رانیہ نے قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی اور شادی سے قبل سٹی بینک اور ایپل کمپیوٹر جیسی کمپنیوں میں کام کیا تھا۔
مہندی پارٹی کے موقع پر ملکہ رانیہ نے بتایا کہ ’بادشاہ اور میں بہت خوش ہوئے جب الحسین نے بتایا کہ وہ رجوہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ میری دعاؤں کا بہترین جواب ہیں۔‘
ملکہ رانیہ نے کہا کہ رجوہ اپنی ماں اور ولی عہد کی ہونے والی ساس عزہ بنت السديری کی طرح ایک ’ہیرا‘ ہیں۔ ’میں اور الحسین رجوہ کا خیال رکھیں گے۔ یہ ان کا بھی ملک ہے، وہ اپنے خاندان اور اپنے لوگوں میں رہیں گی۔‘
یکم جون کو ہونے والی اس شاہی شادی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
اُردن میں حکام کی جانب سے اب تک کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق شادی کی یہ تقریب عمان کے ظہران پیلس میں یکم جون کو ہوگی۔
ظہران پیلس 1950 کی دہائی کے وسط میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے بعد ہونے والی شاہی شادیوں کی تقریبات یہیں منعقد ہوتی رہی ہیں۔ شاہ عبداللہ دوم اور ان کے والد شاہ حسین بن طلال کی شادی بھی اسی محل میں منعقد ہوئی تھی۔
شادی کی تقریب کے بعد قافلہ ظہران پیلس سے الحسینیہ پیلس کی طرف روانہ ہو گا، جہاں اس موقع پر استقبالیے اور عشائیے کا اہتمام کیا جائے گا۔
اردن کے ذرائع ابلاغ کے مطابق عمام میں کچھ عرب گلوکار اس روز مفت کنسرٹ کریں گے اور بعض تقریبات میں شرکت کے لیے مفت ٹرانسپورٹ سروس چلائی جائے گی۔ جبکہ تمام صوبوں میں تقاریب کا انعقاد کیا جائے گا۔
اس روز تمام سرکاری محکموں میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔ اردن کے سرکاری خبر رساں ادارے پترا کے مطابق 31 مئی یعنی شادی سے ایک روز قبل تمام وزارتوں اور محکموں میں کام دوپہر ایک بجے تک ہوگا۔
پترا کے مطابق غیر ملکی میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بعض تقاریب اٹلی کے جزیرے ساردینیا میں منعقد کی جا رہی ہیں جو کہ جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ تمام تقاریب عمان میں ہی ہوں گی۔
اردن کے شاہی جوڑے کی شادی میں عرب اور بین الاقوامی دنیا کے رہنما، سربراہان مملکت اور شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔ امکان ہے کہ ڈنمارک اور سویڈن کے شاہی خاندانوں کے افراد اس تقریب میں شرکت کریں گے۔
Comments are closed.