ارجنٹینا میں اسقاط حمل قانونی ہونے کے باوجود متنازع: ’ڈاکٹر نے کہا لڑکیاں کب اپنی ٹانگوں کو بند رکھنا سیکھیں گی‘
ارجنٹینا میں اسقاط حمل قانونی ہونے کے باوجود متنازع: ’ڈاکٹر نے کہا لڑکیاں کب اپنی ٹانگوں کو بند رکھنا سیکھیں گی‘
- مصنف, اگوسٹینا لاٹوریٹ
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
ماریہ اس وقت صرف 23 برس کی تھیں جب انھوں نے اسقاطِ حمل کروانے کا فیصلہ کیا۔
ماریہ جس مرکزِ صحت پر گئیں وہاں انھوں نے ایک ڈاکٹر کو اپنی ساتھی کو کہتے سنا کہ ’یہ لڑکیاں کب اپنی ٹانگوں کو بند رکھنا سیکھیں گی؟‘
ماریہ ارجنٹینا کے شمال مغربی صوبے سالٹا میں رہتی ہیں جہاں اکثر طبی عملہ اب بھی اسقاطِ حمل کے خلاف ہے حالانکہ ملک میں اس حوالے سے سنہ 2020 میں قانون پاس ہو چکا ہے۔
ماریہ کو بالآخر حمل گرانے کے لیے ایک دوا دے دی گئی لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہاں موجود نرسز ہچکچا رہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ وہ برا محسوس کریں۔ ’جب میں نے حمل کا ٹشو نکالا تو میں جنین کو دیکھ سکتی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’نرسز نے اسے ایک ڈبے میں رکھا تاکہ میں اسے دیکھ سکوں اور مجھ سے کہا کہ ’یہ تمھارا بچہ ہو سکتا تھا۔‘
نئے قانون کے مطابق ایک خاتون پہلے 14 ہفتے کے دوران اسقاطِ حمل کا چناؤ کر سکتی ہے۔ اس سے قبل اسقاط حمل صرف ریپ کی صورت میں جائز تھا یا اس وقت جب کسی خاتون کی زندگی خطرے میں ہوتی۔
یہ ارجنٹینا میں ایک انتہائی متنازع مسئلہ ہے جہاں 60 فیصد سے زیادہ افراد کیتھولک جبکہ 15 فیصد کے قریب ایوانجیلک مسیحی ہیں اور دونوں ہی مکتبہ فکر کے رہنما اسقاطِ حمل کے خلاف ہیں۔
پوپ فرانسز جن کا تعلق ارجنٹینا سے ہے اور وہ کیتھولک چرچ کے سربراہ ہیں، نے اسقاطِ حمل کو ’قتل‘ کہا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’جو اسقاطِ حمل کا عمل کرتے ہیں وہ دراصل قتل کرتے ہیں۔‘
نیا قانون ارجنٹینا میں موجود طبی عملے کو اسقاطِ حمل کا عمل کرنے سے اجتناب کرنے کی آپشن بھی دیتا ہے۔
ڈاکٹر کارلوس فرانکو کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی یہ قانون پاس ہوا تھا تو میں نے خود کو اس کا مخالف ڈیکلیئر کر دیا تھا۔‘
کارلوس فرانکو اسی علاقے میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں جہاں ماریہ رہتی ہیں اور ان کے مطابق اس صوبے میں 90 فیصد طبی عملے نے ان کی طرح اس کی مخالفت کی ہے۔
اس مثال سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کیوں ماریہ جیسی خواتین کو ملک میں اسقاطِ حمل کا عمل کروانے میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ یہ ایک قانونی عمل ہے۔
ماریہ نے ابتدا میں اس طبی مرکز میں ڈاکٹر کے انتظار میں کئی دن گزارے جو ان کا معائنہ کرنے کے لیے تیار ہو۔
آخرکار جب کوئی بھی نہیں آیا تو انھوں نے مدد کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا جہاں انھیں ایک مقامی سماجی کارکن مونیکا روڈریگوئز ملیں جنھوں نے ان کی ہسپتال کے خلاف شکایت درج کروانے اور ڈاکٹر سے وقت لینے میں مدد کی۔
روڈریگوئز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ہر ماہ تقریباً 100 ایسی کالز آتی ہیں جن میں سالٹا کی خواتین ان سے ایسی ہی مشکلات کا ذکر کرتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا اصل کام ان کی بات سننا ہے۔ میں اسقاطِ حمل کی ترغیب بھی نہیں دیتی اور نہ ہی ماں بننے کے عمل کو ضرورت سے زیادہ سراہتی ہوں۔‘
ارجنٹینا میں اسقاطِ حمل کے حوالے سے حقوق میں اضافہ کرنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں تاہم ولیریا اسلا جو وزارتِ صحت میں جنسی اور تولیدی صحت کے محکمے کی ڈائریکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین کو محفوظ اسقاطِ حمل کے عمل کی سہولت دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وہ اس حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ سنہ 2021 کے بعد سے اسقاطِ حمل کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی ماؤں کی تعداد میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔
اسی عرصے میں ایسے طبی مراکز جہاں اسقاطِ حمل کا عمل کروانے کی سہولت موجود ہے، ان کی تعداد میں 50 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
دوا میسوپراسٹول جو کیمیائی طریقے سے اسقاط حمل کے عمل کی شروعات کرتی ہے، اب ملک میں بنائی جا رہی ہے اور اب یہ عام میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہے۔
ماریہ نے یہ دوا لی تھی لیکن انھیں حمل کا باقی ماندہ ٹشو نکالنے کے لیے پروسیجر کی ضرورت تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس کے لیے لیے جس تکلیف دہ سرجیکل پروسیجر سے گزرنا پڑا، وہ بہت مشکل تھا۔ یہ پروسیجر ’ڈائلیشن اینڈ کریٹیج‘ کہلاتا ہے اور یہ اب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی تجویز نہیں کیا جاتا۔
سماجی کارکن مونیکا روڈریگوئز کہتی ہیں کہ اس وقت یہاں طبی عملے کی قلت ہے اس لیے اس سے زیادہ محفوظ اور کم تکلیف دہ پروسیجر دستیاب نہیں ہوتے۔
ارجنٹینا کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈاکٹروں کی ٹریننگ پر سرمایہ لگایا ہے۔
علاج کے لیے زیادہ انتظار اور سماجی اعتبار سے اس عمل کو برا سمجھے جانے کے باعث اسقاطِ حمل کروانے کی خواہش مند خواتین کرپٹ اقدامات میں ملوث ہو سکتی ہیں۔
اس طرح کے کیسز بھی سامنے ہیں جن میں خواتین کو اس طرح کے پروسیجرز کروانے کے لیے سینکڑوں ڈالر لگانے پڑے جو ایک سرکاری طبی مرکز میں مفت ہو جاتا ہے۔
ذہنی امراض کی ماہر ڈاکٹر ماریہ لارا لرما کہتی ہیں کہ ’ایک مافیہ سرگرم ہے جو ارجنٹینا کے متعدد دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی شکل میں ہے جو سرکاری ہسپتالوں سے مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینکس پر بلاتے ہیں۔‘
حکومت کی جانب سے خواتین سے ایسی صورتحال کو رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں خواتین ایسا کرنے سے ڈرتی ہیں۔
اسقاطِ حمل کے خلاف افراد نے عدالتوں کا رخ کر لیا ہے تاکہ اسقاطِ حمل کے قوانین کو غیر قانونی قرار دلوا سکیں۔
کرسٹینا فیورے سالٹا سے رکنِ پارلیمان ہیں اور ایسا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ماں کے پیٹ سے شروع ہوتی ہے اور ہم حمل گرانے کے کلچر کے خلاف ہیں۔‘
تاحال یہ قانونی چیلنج ناکام رہے ہیں۔
وہ ڈاکٹر جو اسقاطِ حمل کا عمل کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں انھیں بھی قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ستمبر 2021 میں سالٹا کے ایک ڈاکٹر کو اس لیے کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا تھا کیونکہ ایک 21 سالہ مریض کی آنٹی نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انھیں ’غیر قانونی اسقاطِ حمل کا عمل کیا۔‘
یہ الزام غلط ثابت ہوا لیکن عدالت کو ایسا کرنے میں ایک سال لگ گیا۔
کچھ اسقاطِ حمل مخالف گروہوں نے اس سے بھی سخت گیر ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔
ایک کیس میں ایک 12 سالہ لڑکی جو اپنے والد کے ریپ کے باعت حاملہ ہوئی تھی کو مبینہ طور پر ایک ایسے ہی گروہ نے اغوا کیا تاکہ وہ اسقاطِ حمل نہ کروا سکے۔
ماریہ اس بارے میں واضح سوچ رکھتی ہیں کہ انھوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
’میں کبھی بھی ماں نہیں بننا چاہتی تھی۔ میرے والدین نے مجھے چھوڑ دیا تھا اور یہ دکھ میرے ساتھ اب بھی چمٹا ہوا ہے۔ ‘
وہ چاہتی ہیں کہ نرسز اور ڈاکٹروں کو ٹریننگ دی جائے تاکہ جو ان کے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔
’دیہی علاقوں میں میری جیسی کئی خواتین ہیں جن کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک ہوتا ہے اور ہر کوئی بولنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘
کچھ افراد کے نام ان کی حفاظت کے لیے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
Comments are closed.