ایریزونا: دنیا بھر میں ویئرایبل سینسر کئی امور میں استعمال ہورہے ہیں جن میں دل، نبض اور دیگرجسمانی اثرات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اب تھری ڈی پرنٹس سے حسبِ ضرورت اور کسٹمائزڈ ویئرایبل چھاپنے کی ایک بالکل مختلف ٹیکنالوجی سامنے آئی ہے۔
اس کی بدولت آپ اپنی صحت پر نظر رکھ سکتے ہیں اور دوم نت نئی ادویہ کی جانچ بھی کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں جامعہ ایریزونا کے سائنسدانوں نے تھری ڈی پرنٹر سے ایک خاص ویئرایبل بنایا ہے جسے ’بایوسمبایوٹک ڈیوائس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں یعنی اسے چلانے کےلیے بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس آلے کو جسمانی ضروریات کے لحاظ سے ڈھالا جاسکتا ہے اور یہ وائرلیس طریقے سے بجلی حاصل کرکے اپنا کام کرتے ہیں جس کے بعد بیٹری کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسے بایومیڈیکل انجینیئرنگ پروفیسر فلپ گیوٹروف اور ان کے ساتھیوں نے تیار کیا ہے۔ اس کی تفصیلات سائنس ایڈوانسِس کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
’ ہم نے ڈجیٹل ویئرایبلز کے لیے ایک بالکل نیا انوکھا طریقہ پیش کیا ہے جو براہِ راست کسی بھی شخص کی ضروریات کے لحاظ سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ ہر منٹ بلکہ پورے ہفتے اسے ری چارج کرنے کی ضرورت نہیں رہتی،‘ پروفیسر فلِپ نے کہا۔
اگرچہ اسمارٹ واچ بہت سے کام کرتے ہوئے ویئرایبلز کے زمرے میں ہی آتی ہیں لیکن انہیں چارج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دوسری جانب بدلتے ہوئی اہداف کےلحاظ سے اس میں تبدیلی بھی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اب ماہرین نے مریض کے جسمانی خدوخال کو دیکھتے ہوئے ایسے ویئرایبلز بنائے ہیں جو جسم کے کسی بھی حصے پر چپکائے جاسکتے ہیں۔ وہ اتنے ہلکے پھلکے، جالی دار، ہوا دار اور لچکدار ہیں کہ پٹھوں کی حرکت کی وجہ سے خراب نہیں ہوتے۔ دیگر ویئرایبل اس طرح کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
’بایوسمبایوٹِک ڈیوائس‘ کی اہمیت یوں بھی ہے کہ کلائی کی گھڑی پورے جسم کا احوال نہیں لے سکتی ۔ اس لیے ضروری ہے کہ بایوسینسر کو بدن کے دیگر حصوں پر لگا کر وہاں سے ڈیٹا لیا جائے۔ یہ اتنا حساس ہے کہ دوڑنے اور جست بھرنے کے دوران بھی عضلاتی تناؤ کو ناپ سکتا ہے۔ کشتی رانی میں اسے لوگوں کو پہنایا گیا تو اس نے پٹھوں کی معمولی اینٹھن سےبھی خبردار کردیا۔ یہاں تک کہ دس سیڑھیاں چڑھنے پر جسمانی درجہ حرارت میں اضافےکو بھی نوٹ کیا ہے۔
Comments are closed.