ابو زبیدہ کی حراست: امریکہ کی سپریم کورٹ میں امریکی حکومت کی جانب سے تشدد کے ممکنہ شواہد کو خفیہ رکھنے پر کیس کی سماعت
- برنڈ ڈیبسمین، تارا میکلوے اور انتھونی زرچر
- بی بی سی نیوز کے لیے
امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایک سابق افسر نے، جو اس ایجنسی کے دوران تفتیش تشدد کے خلاف راز افشا کرنے والے بن گئے ہیں، تقریباً 20 برس قبل پکڑے جانے والے مبینہ دہشت گرد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
جان کریاکو نے بی بی سی کو بتایا کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے مبینہ تعلق رکھنے والے ابو زبیدہ جس قید اور تشدد سے گزرے ہیں ’وہ ان کی سزا سے بہت زیادہ ہے۔‘
ابو زبیدہ کو امریکی حراست سے رہا کرنے کا مطالبہ ایسے وقت میں آیا جب بدھ کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے امریکی حکومت کی جانب سے تشدد کے ممکنہ شواہد کو خفیہ رکھنے پر کیس کی سماعت کی ہے۔ عدالت میں اس کیس کی بنیاد ابو زبیدہ کی حراست تھی۔
سنہ 2002 میں پاکستان سے ابو زیبدہ کے پکڑے جانے کے بعد، فلسطینیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں بدنام زمانہ گوانتامو بے جیل منتقل کرنے سے قبل پولینڈ میں سی آئی اے کے خفیہ تفتیشی مرکز ’بلیک سائٹ‘ میں رکھا گیا تھا اور وہاں تفتیش کے دوران ان پر واٹر بورڈنگ کے طریقہ کار کے ذریعے تشدد کیا گیا، پیٹا گیا، نیند سے محروم رکھا گیا اور قید تنہائی میں ’تکلیف دہ حالت‘ میں رکھا گیا۔
ابو زبیدہ گوانتانامو بے جیل میں بنا کسی الزام کے سنہ 2006 تک قید رہے۔
بلیک سائٹس ان خفیہ تفتیشی مراکز کو کہا جاتا ہے جو سنہ 2001 میں نائن الیون کے حملوں کے بعد سے دنیا بھر میں امریکی خفیہ ایجنسی مشتبہ دہشت گردوں کو حراست میں رکھنے اور تفتیش کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
ابو زبیدہ نے بلیک سائٹ میں پولش کریمنل انویسٹی گیشن میں دو سی آئی اے کنٹریکٹرز کو گواہی کے لیے طلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم امریکی وفاقی حکومت نے اس طلبی کو یہ کہتے ہوئے روک دیا ہے کہ اس سے جاری ہونے والی معلومات امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی میں پہلی مرتبہ امریکی سپریم کورٹ میں کسی گوانتانامو بے کے قیدی کے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے۔ کیس کا فیصلہ امریکی حکومت کے رازداری کے استحقاق کی حدود کے تعین پر دورس اثرات مرتب کرے گا۔
مارچ 2002 میں پاکستان سے پکڑے جانے کے بعد ابو زبیدہ کو، جنھیں اس وقت کے امریکی صدر بش کی انتظامیہ القاعدہ کا سینئیر رکن، منصوبہ ساز اور انتہائی مطلوب دہشت گرد قرار دیتی تھی، تھائی لینڈ اور پولینڈ سمیت مخلتف سی آئی اے بلیک سائٹ مراکز میں رکھا گیا تھا۔
سی آئی اے کی حراست میں انھیں دوران تفتیش بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ابو زبیدہ کو دوران تفتیش 83 مرتبہ واٹر بورڈنگ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں نیند سے محروم رکھا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں 11 دن کے لیے تابوت نما بکس میں بند کیا گیا تھا۔
سی آئی اے کی حراست کے دوران ابو زبیدہ کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔
جان کریاکو کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں ابو زبیدہ نے جو کچھ بھی کیا وہ یقیناً اس سے بہت زیادہ قیمت چکا چکے ہیں۔‘
جان کریاکو نے سنہ 2007 میں سی آئی اے کی جانب سے دوران حراست تشدد کرنے کے واقعات کو افشا کیا تھا اور بعد ازاں انھیں ایک رپورٹر سے تفتیش کرنے والے سی آئی اے کے خفیہ ایجنٹ کا نام بتانے کے جرم میں قید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
گوانتانامو بے جیل
سپریم کورٹ کا یہ مقدمہ پولینڈ کی ان تحقیقات کی بنا پر شروع ہوا جس میں اس بات کی تفتیش کی گئی تھی کہ کیا پولینڈ کے سرکاری اہلکار سی آئی اے کے خفیہ تفتیش کے پروگرام میں شامل تھے۔
پولینڈ کے تفتیش کاروں کی درخواست پر سنہ 2017 میں ابو زبیدہ کی قانونی ٹیم نے سی آئی اے کے کنٹریکٹرز جیمز مچل اور بروس کیسن سے گواہی مانگی تھی۔ یہ دونوں ماہر نفسیات تھے جنھوں نے سی آئی اے کے تفتیشی پروگرام مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ان کی گواہی کے لیے طلبی کو روک دیا تھا کہ اس سے حکومتی خفیہ راز عدالت میں افشا ہونے کا خطرہ تھا۔
یہ فیصلہ ’ریاستی رازوں کے استحقاق‘ کے قانونی نظریے کے تحت دیا گیا تھا۔ یہ قانون حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ اگر عدالت میں دیے گئے کسی بیان سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو تو وہ اسے روک سکتے ہیں۔
کیلفورنیا کی ایک اعلیٰ عدالت نے یہ کہتے ہوئے ابو زبیدہ کے حق میں فیصلہ دیا تھا کہ سی آئی اے کی جانب سے الزامات کی تردید بے معنی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس مقدمے میں دیکھنا ہو گا کہ قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج امریکی حکومت کو کتنا صوابدیدی اختیار دیتے ہیں۔
انتھونی زرچر کا تجزیہ
ابو زبیدہ نے پولینڈ میں سی آئی اے کی ’بلیک سائٹ‘ پر وقت گزارا ہے۔ اپنی دہائیوں کی قید میں انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ سب عوام کے علم میں ہے۔ لیکن جو امریکی حکومت نے ابھی تک نہیں کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ان دونوں باتوں کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں مقدمے کی جرح کے دوران نو ججوں نے حکومتی وکیل برائن فلیچر پر زور دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کیسے اس بات کو جس کا سب کو علم ہے، ایک راز کی طرح رکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے جواب میں کہا کہ امریکہ نے پولینڈ سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی تفصیلات کو راز میں رکھا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ امریکہ کا کوئی مقامی مقدمہ ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی لیکن اس میں ایک سفارتی معاہدہ شامل ہے اور یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔
امریکی سپریم کورٹ کی جج ایلینا کاگن نے اس پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی رازداری کا استحقاق کا استعمال کرنے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیا۔
متعدد ججوں نے امریکی حکومت کی جانب سے ابو زبیدہ کی گواہی کو محدود کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
ان کا بیان پولینڈ اور تشدد کے درمیان تعلق کو بیان کرنے میں براہ راست مدد دے سکتا ہے۔
یہ بھی پوچھا گیا کہ انھیں پکڑنے کے تقریباً بیس برس بعد اور امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد بھی امریکہ نے انھیں کیوں قید کر رکھا ہے۔ لیکن اس پر حکومتی وکیل فلیچر نے عدالت سے کہا کہ وہ اس بارے میں کسی اور دن کی سماعت میں بتائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2020 کے اوائل میں ابو زبیدہ کے مقدمے میں ملوث دونوں سی آئی اے ٹھیکیداروں نے گوانتانامو بے کے ایک فوجی ٹریبیونل میں 11 ستمبر کے مشتبہ منصوبہ سازوں کی تفتیش کے بارے میں گواہی دی تھی۔ جس کے بعد دونوں کو امریکن سول لبرٹیز یونین کی طرف سے لائے گئے ایک علیحدہ مقدمے میں معزول کر دیا گیا تھا۔
ابو زبیدہ کی قانونی ٹیم کے ایک رکن چارلس چرچ کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں اس کے متعلق ہزاروں باتیں اور معلومات ہیں تو پھر ان دو افراد نے ایسا کیا کر دیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کا بہت امکان ہے یا درحقیقت کوئی امکان نہیں ہے کہ ان کے بیان سے ہماری قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔’
جان کریاکو کا کہنا تھا کہ برسوں سے انٹیلیجنس کمیونٹی نے کسی ایسی صورتحال سے بچ نکلنے کے لیے ریاستی رازوں پر انحصار کیا ہوا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ مقدمہ بھی ایک ایسی ہی صورتحال ہے۔‘
آج تک سی آئی اے نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ پولینڈ میں ایک خفیہ تفتیشی مرکز چلاتی تھی۔ البتہ سنہ 2015 میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت کو یہ معلوم ہوا تھا کہ ابو زبیدہ کو وہاں رکھا گیا تھا اور یہ ’ممکن نہیں‘ ہے کہ انھیں اس مرکز میں دوران حراست تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔
امریکی حکام نے ابتدائی طور پر ابو زبیدہ پر، جن کا اصلی نام زین العابدین محمد حسین ہے، الزام عائد کیا تھا کہ وہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ایک سینیئر رکن ہیں اور انھوں نے اسامہ بن لادن کے لیے بطور سینئیر لیفٹیننٹ خدمات انجام دی ہیں۔
بعدازاں سینیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سی آئی اے نے ابو زبیدہ کے القاعدہ میں کردار کے بارے میں تو ’واضح طور پر بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا‘ لیکن ان کے اصل میں رکن ہونے کے متعلق بات نہیں کی۔
جان کریاکو کا کہنا ہے کہ ابوزبیدہ کے القاعدہ میں کردار کے متعلق سی آئی اے کے مفروضے ’درست نہیں تھے۔‘
سابق سی آئی اے ایجنٹ کے مطابق وہ صرف ایک ’بگڑا ہوا نوجوان تھا‘، جو غلط لوگوں کی صحبت کا شکار تھا۔
سنہ 2013 میں الجزیرہ نے ابو زبیدہ کی ایک خفیہ ڈائری جاری کی تھی۔ ان کی ڈائری میں لکھے گئے واقعات سے ان کی شخصیت کا جو خاکہ سامنے آیا تھا وہ امریکی حکام کی جانب سے بیان کردہ خاکے سے بہت مختلف اور پیچیدہ تھا۔
وہ زیادہ تر اس وقت اپنی ڈائری لکھتے تھے جب وہ پریشان یا خود کو اکیلا محسوس کرتے۔ سنہ 1991 کی خزاں میں اپنے ایک دوست کی ہلاکت کے بعد انھوں نے ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ ایک مقام پر انھوں نے لکھا تھا کہ ’میں نے اپنا بستہ کھولا جو گرد سے اٹا پڑا تھا، میں نے اس سے ایک نوٹ بک نکالی اور قلم تھام کر لکھنا شروع کر دیا۔‘
ان کی ڈائری سے پتا چلا کہ انھیں آئرش موسیقی اور شاعری پسند ہے۔ اور انھیں گھر کی یاد آتی ہے۔
اپنی ڈائری میں ایک مقام پر انھوں نے لکھا کہ ’میرا واحد دوست سگریٹ ہے۔‘
وہ تقریباً ایک دہائی تک، جب تک کہ وہ پکڑے نہیں گئے، اپنی یادداشتیں ڈائری میں لکھتے رہے۔
انھوں نے القاعدہ کا رکن ہونے کی تردید کی ہے۔ نائن الیون کے کچھ عرصہ بعد ہی انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ انھوں نے اور ان کے دوستوں نے اس واقع پر خوشی منائی تھی۔
انھوں نے لکھا کہ ’اس پر خوشی بہت چھوٹی چیز ہے، ہم جشن منا رہے تھے۔‘
Comments are closed.