بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’آگ سے کھیلنے والے جل جائیں گے‘ چینی صدر کی بائیڈن کو دھمکی

تائیوان کے معاملے پر چینی صدر کی جو بائیڈن کو دھمکی: ’آگ سے کھیلنے والے جل جائیں گے‘

Joe Biden and Xi Jinping (file photo)

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکن اور چینی رہنما اس سے قبل بھی ایک دوسرے کے ساتھ ورچوئل ملاقاتیں کر چکے ہیں

تائیوان کے معاملے پر امریکی اور چینی رہنماؤں کے مابین دو گھنٹے تک جاری رہنے والی کال کے دوران ایک دوسرے کو خبردار کیا گیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو بتایا کہ امریکہ اس جزیرے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ صدر شی نے امریکی صدر کو ‘ون چائنا پالیسی‘ کی پاسداری کرنے کو کہا اور انھیں متنبہ کیا کہ ‘جو آگ سے کھیل رہے ہیں وہ جل جائیں گے۔‘

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے کی افواہوں سے قبل اس معاملے پر تناؤ بڑھ گیا ہے۔

Image shows Nancy Pelosi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پلوسی نے کسی دورے کا اعلان نہیں کیا لیکن چین نے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اس دورے پر پیشرفت کرتی ہیں تو اس کے ‘سنگین نتائج‘ ہوں گے تاہم وائٹ ہاؤس نے ایسے کسی بھی دورے کے خلاف چینی بیان بازی کو ‘واضح طور پر غیر ضروری اور کسی کو فائدہ نہ پہنچانے والی‘ قرار دیا۔

نینسی پلوسی، جو نائب صدر کے بعد صدارت کی دوڑ میں ہیں، سنہ 1997 کے بعد تائیوان کا دورہ کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی سیاست دان ہوں گی۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ جمعرات کی فون کال کے دوران صدر بائیڈن اور صدر شی نے ممکنہ طور پر آمنے سامنے ملاقات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔

جب بائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے تو اس وقت سنہ 2015 میں انھوں نے چینی رہنما شی کے دورہ امریکہ کے دوران ان کی میزبانی کی تھی لیکن بائیڈن کے دور صدارت کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

چین تائیوان کو ایک الگ ہونے والے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جسے وہ ہر صورت اپنے ملک کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے طاقت استعمال کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

ون چائنا پالیسی کے تحت واشنگٹن تائی پے کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن امریکہ جمہوری طور پر خود مختار جزیرے کو ہتھیار فروخت کرتا ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔

تائیوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ تائیوان کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلی اور ہیلتھ سکیورٹی سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کی۔

بائیڈن انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا چینی درآمدات پر ٹرمپ کے دور کے ٹیرف کو ختم کیا جائے یا نہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اس طرح کے اقدام سے امریکہ میں افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے تاہم ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق امریکی صدر نے جمعرات کو شی سے اس معاملے پر بات نہیں کی۔

بی بی سی کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نامہ نگار باربرا پلیٹ عشر کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن اور شی جن پنگ دونوں ایک تنازعے سے بچنا چاہتے ہیں لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے مسابقتی بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جمعرات کی کال کے بعد دیے گئے ان کے متضاد بیانات سے یہ چیز ایک بار پھر سے واضح ہوئی ہے۔

ایک طویل عرصے کے بعد بیجنگ نے کہا ہے کہ ان کے بہت سے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن اس نے بگڑتے ہوئے تعلقات کے لیے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے چین کو ایک ‘بنیادی حریف‘ سمجھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

2px presentational grey line

’بہتری کی امید رکھنا مشکل ہے‘

روپرٹ ونگ فیلڈ-ہیز، تائی پے

صدر شی کی صدر بائیڈن کو دی گئی دھمکی کہ ‘جو آگ سے کھیل رہے ہیں، جل جائیں گے‘ سے بہت کچھ اخذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ امریکہ کے لیے ایک انتباہ ہے لیکن کوئی غیرمعمولی بھی بات نہیں۔ اس سال کے شروع میں جب امریکی کانگریس کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا تھا تو چین کی وزارت خارجہ نے بالکل وہی زبان استعمال کی تھی۔ یہی جملہ گذشتہ سال چین کی وزارت دفاع نے تائیوان کو دیے ایک انتباہ میں استعمال کیا تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس انتباہ کو صدر شی کی طرف سے استعمال کیا گیا ہے اسی لیے اس کی اہمیت زیادہ ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہی کہ نینسی پلوسی کے اگلے ہفتے یہاں پہنچنے کی صورت میں چین تائیوان کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے بجائے وہ امریکہ کو بتا رہا ہے کہ اگر وہ موجودہ مؤقف پر ڈٹا رہا تو اس کا انجام ایک تنازعے کی صورت میں نکلے گا۔

امریکہ اور چین کے وسیع تر تعلقات کے تناظر میں اس فون کال سے کچھ بھی مثبت اخذ کرنے کی کوشش کرنا مشکل ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.